سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن نے سول ہسپتال کوئٹہ میں خودکش دھماکے کی تحقیقات پر مبنی اپنی رپورٹ میں قرار دیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں ناکام ہوگئی ہیں‘ وفاقی وزیر داخلہ نیکٹا کے فیصلوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں‘ جنداللہ کو دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کے باوجود کالعدم قرار نہیں دیا گیا جبکہ وفاقی وزیر داخلہ کا احمد لدھیانوی کی تنظیم کے اسلام آباد میں جلسے کو حرج نہ سمجھنا ملکی قوانین کی توہین ہے۔ سپریم کورٹ کے مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل جوڈیشل کمیشن نے 50 نکاتی فائنڈنگز اور 80 نکاتی تجاویز پر مبنی اپنی رپورٹ کے اختتامی ریمارکس میں قرار دیا کہ اگر گزشتہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد بنک آف فارنزک اور دیگر مقامات کے حوالے سے اقدامات کئے جاتے تو 8 اگست کے سانحات کو روکا جا سکتا تھا جبکہ 2012ء میں دہشت گردی سے متعلق عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد اب تک ممکن نہیں بنایا جاسکا۔ فاضل کمیشن نے قرار دیا کہ آئی جی پولیس بلوچستان کو بھی دہشت گرد حملے کے بعد کرائم سین سے متعلق محدود معلومات حاصل ہیں جبکہ ہسپتال مکمل طور پر غیرفعال ہے جہاں ابتدائی طبی امداد کی کٹ دستیاب ہے نہ ایمبولینسز اور دیگر آلات موجود ہیں۔ فاضل کمیشن نے قرار دیا کہ حکومتی سطح پر اقرباء پروری ہے اور بلوچستان حکومت میں کرپشن کلچر عام ہے جس کی واضح مثال سیکرٹری صحت سمیت چار سیکرٹریوں کی تعیناتی ہے۔ کمیشن نے قرار دیا کہ وزراء اور دیگر حکام کی جانب سے کام میں مداخلت ہوتی ہے جبکہ پولیس اور لیویز کے حدود اربع سے متعلق بھی مسائل موجود ہیں۔ وزارت داخلہ کے پاس کلیئر لیڈر شپ اور ڈائریکشن نظر نہیں آتی۔ رپورٹ میں پیش کی گئی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ انٹی ٹیررازم ایکٹ‘ نیکٹا ایکٹ اور دوسرے قوانین پر عملدرآمد ممکن بنا کر کالعدم تنظیموں پر فوری پابندی عائد کی جائے اور ان تنظیموں کی لسٹ اردو اور انگریزی زبان میں وزارت داخلہ اور دوسرے متعلقہ اداروں کی ویب سائٹس پر رکھی جائے۔
عدالتی کمیشن کی یہ رپورٹ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں کوئٹہ سانحہ کیس کی سماعت کرنیوالے عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے روبرو پیش کردی گئی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے فاضل عدالت عظمیٰ سے عدالتی کمیشن کی رپورٹ خفیہ رکھنے کی استدعا کی تھی جو مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے باور کرایا کہ ہم کوئی بھی چیز خفیہ نہیں رکھ سکتے۔ ہمارے ہاں اب تک یہی روایت غالب رہی ہے کہ کسی قومی سانحہ یا دوسرے افسوسناک واقعات کی تحقیقات کیلئے عدالتی اور تحقیقاتی کمیشن تو قائم کردیئے جاتے ہیں مگر سانحۂ سقوط ڈھاکہ کی انکوائری کرنیوالے حمودالرحمان کمیشن کی رپورٹ سمیت آج تک باضابطہ طور پر کسی بھی انکوائری یا جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر نہیں لائی گئی چنانچہ ادارہ جاتی اصلاح احوال کے جس مقصد کیلئے جوڈیشل اور انکوائری کمیشن تشکیل دیئے جاتے رہے ہیں‘ وہ مقصد آج تک پورا نہیں ہو پایا۔ ایسی رپورٹوں میں متعلقہ سانحات کے جن ذمہ داروں کا تعین کیا گیا انہیں انصاف کے کٹہرے میں آتا بھی کبھی قوم نے نہیں دیکھا‘ محض دکھاوے کے طور پر محکمانہ معطلیاں اور دوسری معمولی سزائیں ضرور دی جاتی رہی ہیں مگر آج تک کسی کو دوسروں کیلئے نشانِ عبرت بنانے والی سزا نہیں مل پائی۔ چنانچہ ادارہ جاتی غفلت‘ کام چوری اور جرائم میں ملوث ہونے کی نشاندہی کے باوجود اپنے لوگوں کو تحفظ دینے والی مجرمانہ ذہنیت مزید پختہ ہوئی جس سے معاشرے کیلئے ناسور بنے ہوئے دہشت گردوں اور انکے سرپرستوں و سہولت کاروں کے حوصلے مزید بلند ہونا فطری امر تھا۔
ہمارا یہی المیہ ہے کہ دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد ہماری سیاسی‘ حکومتی‘ عسکری قیادتوں کی جانب سے آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے کے روایتی عزم کا اظہار کرکے پھر بے نیازی کی چادر تان لی جاتی ہے اور اصلاح احوال کے جو اقدامات اٹھانے مقصود ہوتے ہیں وہ زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردوں کو سکیورٹی اداروں میں موجود لیپس اور دوسری انتظامی کمزوریوں سے ہی فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے چنانچہ وہ سکیورٹی کے حوالے سے ہائی الرٹ اور انتہائی حساس علاقوں میں بھی اپنے متعینہ مشکل اہداف تک آسانی سے پہنچ کر دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتے رہے ہیں جبکہ دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد جو سکیورٹی لیپس کھل کر سامنے آئے ان پر قابو پانے پر کبھی توجہ دی گئی نہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے قومی اتفاق رائے سے تشکیل دیئے گئے نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کیا گیا۔ اس تناظر میں کوئٹہ سانحہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جن حکومتی اور ادارہ جاتی کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی کی ہے‘ وفاقی اور صوبائی حکمران اپنے لئے کسی انا کا مسئلہ بنائے بغیر ان پر قابو پانے کے مؤثر اور نتیجہ خیز اقدامات اٹھائیں تو یقیناً اس سے دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔ بے شک مسلح افواج کے جاری اپریشن ضرب عضب میں بھی سفاک دہشت گردوں اور انکے سرپرستوں کو کچلنے میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں تاہم اس اپریشن کو نیشنل سکیورٹی پلان کے مطابق تمام مطلوبہ سہولتیں فراہم کی جائیں اور کالعدم تنظیموں کو ملک میں کہیں بھی پَر تک نہ مارنے دیا جائے تو دہشت گردی کے خاتمہ کے مقاصد زیادہ سرعت کے ساتھ اور زیادہ مؤثر انداز میں حاصل ہوسکتے ہیں۔
ہماری اجتماعی معاشرتی گراوٹوں اور ادارہ جاتی انحطاط پذیری کا تو یہ عالم ہے کہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے 45 سال گزرنے کے باوجود ہم آج بھی قومی بگاڑ کی اسی سطح پر موجود ہیں جو سانحہ سقوط ڈھاکہ کی نوبت لایا تھا۔ اگر ہم نے اس قومی ہزیمت سے کوئی سبق سیکھا ہوتا اور معاشرتی بگاڑ پر قابو پانے کیلئے اصلاح احوال کے عملی اقدامات اٹھالئے ہوتے تو ہمیں ملک کی سلامتی کے درپے اپنے سفاک دشمن بھارت کی دہشت گردی کے حوالے سے پھیلائی گئی سازشوں کا شکار نہ ہونا پڑتا اور شاید نیول بیس کراچی‘ ایئربیس پشاور‘ جی ایچ کیو راولپنڈی‘ کامرہ ایئربیس‘ واہگہ بارڈر لاہور اور سانحہ اے پی ایس پشاور سے سانحہ گلشن پارک لاہور تک کی دہشت گردی کی سفاکانہ وارداتوں کی نوبت ہی نہ آتی۔
ہماری عدلیہ کی جانب سے تو حکومتی اور ادارہ جاتی بے ضابطگیوں اور کرپشن و کام چوری کی روش پر حکمرانوں اور دوسرے ذمہ دار اداروں کو باربار جھنجوڑا جاتا رہا ہے اور اصلاح احوال کی تجاویز اور سفارشات بھی مرتب کرکے متعلقین کے حوالے کی جاتی رہی ہیں مگر انہیں عملی جامہ نہ پہنانے کی روش نے ہی مزید خرابیاں پیدا کیں چنانچہ چارہ گروں کی جانب سے چارہ جوئی نہ ہونے کا نتیجہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے تو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں بھی کراچی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا اپنے ازخود اختیارات کے تحت سخت نوٹس لے کر اس خرابی کی اصل وجوہات کا کھوج لگایا تھا اور سفاکانہ دہشت گردی کے ایسے واقعات کے سدباب کیلئے ایک جامع رپورٹ مرتب کرکے وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کے حوالے کی تھی مگر اس پر بھی حکمرانوں اور متعلقہ اداروں کی روایتی بے نیازی برقرار رہی‘ نتیجتاً دہشت گردوں کو کراچی میں آج بھی اسی طرح کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے جہاں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ بھی اپنا دہشت گردی کا نیٹ ورک مضبوط کرچکی ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے بلوچستان بدامنی اور لاپتہ افراد کے معاملہ کا بھی ازخود نوٹس لیا اور اصلاح احوال کے تادیبی اقدامات تجویز کئے مگر عدالت عظمیٰ کی یہ سفارشات بھی ہنوز عملدرآمد کی منتظر ہیں۔ ابھی گزشتہ روز ہی چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس انورظہیر جمالی نے عدالت عظمیٰ میں اپنے اعزاز میں منعقدہ الوداعی فل کورٹ ریفرنس میں خطاب کرتے ہوئے معاشرے میں پھیلتے ہوئے کرپشن‘ اقرباء پروری کے ناسور اور دوسری ادارہ جاتی قباحتوں کی نشاندہی کی ہے اور اس امر پر تاسف کا اظہار بھی کیا ہے کہ ان معاشرتی خرابیوں میں سے بہتری کی کوئی امید بھی نظر نہیں آرہی۔ اسی طرح نامزد چیف جسٹس مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی اس ریفرنس میں باور کرایا کہ معاشرے میں بددیانتی اور بے ایمانی سے ہی کرپشن پروان چڑھتی ہے۔
بے شک معاشرتی اصلاح اور کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل کیلئے ہر قومی ادارے نے بھی اور معاشرے کے ہر فرد نے بھی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ جو اصلاح طلب اقدامات ہماری عدلیہ اپنے دائرہ اختیار میں اٹھا سکتی ہے‘ وہ عدلیہ کو ضرور اٹھانے چاہئیں جبکہ قانون کے نفاذ اور قیام امن کے ذمہ دار ریاستی حکومتی اداروں کی سرکشیوں کو نکیل ڈالنا اور انکی ادارہ جاتی بے ضابطگیوں کی پکڑ کرنا بھی آئین و قانون کے محافظ کی حیثیت سے ہماری عدلیہ کی ہی ذمہ داری ہے۔ اگر عدلیہ کی جانب سے اس معاملہ میں قوم کو امید کی کرن نظر آتی ہے اور پھر اصلاح احوال کے متقاضی اقدامات اٹھتے نظر نہیں آتے تو اس سے انصاف کی عملداری اور آئین و قانون کی بالادستی کے حوالے سے قوم کی مایوسیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جس سے لامحالہ معاشرتی انحطاط پذیری بھی بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ آج ادارہ جاتی بے ضابطگیوں اور کرپشن کلچر نے ہمارے معاشرے کو اتنا غیرمتوازن بنادیا ہے کہ اسکے ناکارہ ہوکر زمین بوس ہونے کا خدشہ لاحق ہوگیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ تمام قومی ادارے اور انتظامی مشینری اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے اور اپنی خرابیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی روش ترک کرکے معاشرتی اصلاح کے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس کیلئے بلوچستان جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر نیشنل ایکشن پلان پر مکمل اور مؤثر عملدرآمد کا ہی بیڑہ اٹھا لیا جائے تو اسے معاشرتی خرابیوں میں اصلاح کی مثال بنایا جاسکتا ہے‘ بصورت دیگر معاشرتی اصلاح کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024