تاریخ کا یہ سچ بے نقاب ہوچکا کہ طاقتور اور بااثر افراد جنہیں عرف عام میں ’’اشرافیہ‘‘ کہا جاتا ہے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر تاریخ کو مسخ کرتے رہے ہیں۔ قائداعظم لبرل سیاستدان تھے انہوں نے خود کہا کہ ’’میں نے (1894-96)میں لندن قیام کے دوران ’’لبرل ڈاکٹرئن‘‘ انگریز لیڈروں سے سیکھا جس نے مجھے بے حد متاثر کیا‘‘۔ (ہیکٹر بولیتھو صفحہ 9) قائداعظم نے لبرل ہندو نیشلسٹ لیڈر دادا بھائی نوروجی کی انتخابی مہم (لندن) میں حصہ لیا اور بعد ازاں انکے سیکرٹری بھی رہے۔ قائداعظم نے 1899ء میں کاسموپولٹن شہر ممبئی کی لبرل ایلیٹ کلب ’’ممبئی پریزیڈنسی ایسوسی ایشن‘‘ کی رکنیت اختیار کی جس میں لبرل لیڈر برہان الدین طیب جی، سرفیروز شاہ مہتہ، گوپال کرشنا گوکھلے اور سرڈنشا شامل تھے جو مختلف ادوار میں کانگرس کے صدر رہے۔ قائداعظم کے لبرل ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ برصغیر کے پسماندہ علاقوں میں بھی اپنی بہن فاطمہ جناح کو ساتھ لیکر جاتے رہے۔ قائداعظم چوںکہ مسلمان لیڈر تھے اس لیے انہوں نے لبرل ازم کو اسلامی اقدار کی حدود کے اندر رکھا۔ نوجوانوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیئے کہ پاکستان کا مقدر اور مستقبل لبرل ازم اور اعتدال پسندی کے ساتھ وابستہ ہے جبکہ انتہا پسندی ریاست کیلئے زہر قاتل ہے البتہ ایک مسلم معاشرے میں لبرل ازم ’’مادر پدر آزاد‘‘ نہیں ہو سکتا۔ لندن میں کرسمس کی تقریب میں جب ایک انگریز خاتون نے قائداعظم سے گلے ملنے کی کوشش کی تو قائداعظم نے کہا ان کی سماجی اور اخلاقی اقدار اس بات کی اجازت نہیں دیتیں۔ قائداعظم کا بودوباش، رہن سہن اور میل جول کے حوالے سے اشرافیہ سے تعلق تھا اس لیے وہ اشرافیہ کی ’’ذہنیت‘‘ سے مکمل طور پر آشنا تھے۔ اشرافیہ کے متعلق عمومی تصور یہ ہے کہ یہ لوگ اعلیٰ نسب کے مہذب اور تعلیم یافتہ لوگ ہوتے ہیں بلاشک اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے تہذیب اور اخلاقیات کا مثالی ماڈل پیش کیا مگر مجموعی طور پر اشرافیہ کا کردار شرمناک ہی رہا ہے۔ آج کل پاکستانی قوم سیاسی اشرافیہ کی ’’ذہنیت‘‘ کا مظاہرہ ٹی وی چینلوں پر دیکھ رہی ہے کہ وہ کس طرح ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آتے ہیں جبکہ پاکستان کے قومی مسائل کے بارے میں ان کو کوئی فکر ہی نہیں ہے۔
اشرافیہ کے مزاج شناس قائداعظم نے مختلف اوقات میں اشرافیہ کی ذہنیت کے بارے میں اپنے مشاہدات بیان کیے۔ 1945ء کے انتخابات کے دوران قائداعظم کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سندھ کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ووٹوں کیلئے پیسوں کا مطالبہ کرتے تھے۔ برطانوی گورنر سرہگ ڈو (Huge Dow) نے وائسرائے لارڈ ویول کو لکھا کہ ’’قائداعظم سندھی لیڈروں کو پسند نہیں کرتے۔ ایک بار قائداعظم نے اس سے کہا کہ میں سندھی لیڈروں کو پانچ لاکھ روپے میں خرید سکتا ہوں جبکہ میں نے قائداعظم کو کہا کہ میں ان کو کم قیمت پر خرید سکتا ہوں‘‘۔ (آئن ٹالبوٹ پاکستان نیو ہسٹری صفحہ 54) سندھ کی انتخابی مہم کے انچارج جی آلانہ نے قائداعظم سے کہا کہ مسلم لیگ کو ووٹ خریدنے کیلئے بااثر افراد کو پیسے دینے پڑیں گے تو قائداعظم نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ ’’ایک بات یاد رکھو میں کسی ووٹر کو ووٹ کیلئے رشوت کے طور پر ایک روپیہ نہیں دینا چاہتا میں اس بات کی کبھی اجازت نہیں دوں گا میں بددیانتی اور دھاندلی سے جیتنے کی بجائے انتخاب ہارنے کو ترجیح دوں گا‘‘۔ (جناح پیپرز شمس الحسن، رضوان احمد] یاد رہے کہ 1945-46کے انتخابات میں ووٹ دینے کا حق عام آدمی کو نہیں بلکہ ٹیکس دینے والے جائیداد کے مالک افراد کے پاس تھا۔ جاگیردار اشرافیہ کے سرپرست رہنما اور معاون ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے 24اپریل 1943ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جاگیرداروں کو ان الفاظ میں انتباہ کیا تھا۔
’’یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردینا چاہتا ہوں جو ہمارا خون چوس کر ایسے نظام کے تحت پلے بڑھے ہیں جو اس قدر فاسد ہے اور انہیں اس درجہ خود غرض بنا دیتا ہے کہ ان کے ساتھ دلیل سے بات کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ عوام کا استحصال انکی رگ و پے میں داخل ہوگیا ہے۔ وہ اسلام کی تعلیم کو فراموش کربیٹھے ہیں۔ ان لوگوں کی حرص اور خود غرضی نے دوسروں کے مفادات کو اپنے تابع کرلیا ہے تاکہ وہ موٹے ہوتے رہیں۔ ہمارے لوگوں میں لاکھوں ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں۔ کیا یہ تہذیب ہے؟ کیا پاکستان کا یہ مقصد ہے؟ کیا آپ یہ تصور کرسکتے ہیں کہ لاکھوں عوام کا استحصال کیا گیا اور انہیں دن میں ایک بار بھی روٹی نہیں ملتی۔ اگر پاکستان کا تصور یہ ہے تو میں ایسا پاکستان نہیں لوں گا۔ اگر ان میں عقل ہے تو انہیں خود کو زندگی کے نئے اور جدید حالات سے ہم آہنگ کرنا ہوگا‘‘۔ ستر سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان کے سرمایہ داروں پر اللہ اسکے رسولؐکے پیغام اور تعلیم اور پاکستان کے بانی قائداعظم کے تصورات کا کچھ اثر نہیں ہوا۔
قائداعظم کا ’’سیاسی فتویٰ‘‘ درست ثابت ہوا جاگیردار دلیل کی قوت اور قانون کی طاقت سے صراط مستقیم پر چلنے پر آمادہ نہیں ہیں لہذا واحد راستہ یہ ہے کہ عوامی طاقت سے ان کو ہوش میں لایا جائے اور ان سے پاکستان پر ناجائز اور غاصبانہ قبضہ واپس لیا جائے۔ جن افراد نے قائداعظم کے خطاب 11اگست 1947ء کو متنازعہ بنایا وہ قومی مجرم ہیں۔ دستور ساز اسمبلی سے یہ خطاب دراصل روڈ میپ تھا جس کی بنیاد پر آئین سازی ہونا تھی۔ قائداعظم نے اپنے اس خطاب میں کرپشن، رشوت ستانی اور بدعنوانی کو ریاست کیلئے زہر قرار دیا اور کہا ’’یہ جرائم کرنیوالے لوگ باخبر، ذہین اور عام طور سے ذمے دار لوگ ہوتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والے خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کے با قائدہ تقسیم کے نظام کو تہہ و بالا کردیتے ہیں اور فاقہ کشی، احتیاج اور موت تک کا باعث بنتے ہیں ان کیلئے کڑی سزائیں ہونی چاہئیں‘‘۔ قائداعظم کا وژن درست ثابت ہوا اشرافیہ نے پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور کرپٹ افراد احتساب سے بھی محفوظ رہے۔ قائداعظم نے ایم ایچ اصفہانی کے نام ایک خط میں تحریر کیا ’’بھارت میں کرپشن ایک لعنت ہے اور خاص طور پر ایسے مسلمانوں میں زیادہ ہے جو نام نہاد ، تعلیم یافتہ اور ذہین ہیں بدقسمتی سے یہ طبقہ خود غرض ہے اور اخلاقی و ذہنی اعتبار سے کرپٹ ہے۔ بلاشک یہ بیماری (کرپشن) عام ہے البتہ اشرافیہ میں یہ بیماری تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔(6مئی 1945ئ) قائداعظم نے کہا…’’یہ وزراء آپ کے خادم ہیں اور آپ (عوام) انکے اصل آقا ہیں۔ آپکے پاس ان کو وزارت کی گدی سے ہٹانے کی کنجی ہے اگر یہ اپنی ذمے داریاں پوری نہ کریں تو ان کو بدل دو‘‘۔ (خطاب لاہور 2اپریل 1944)
قائداعظم ویژنری لیڈر تھے ان کا ایک ایک لفظ درست ثابت ہوا ہے۔ سنگدل اشرافیہ اس قدر مضبوط اور مستحکم ہوچکی ہے کہ ان کو دلیل سے قائل کرنا ناممکن ہوچکا ہے۔ اشرافیہ معیشت، تجارت اور سیاست پر قابض ہے۔ ریاست کے اداروں میں اشرافیہ کے نمائندے ہی براجمان ہیں۔ سیاسی اشرافیہ کو عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہیں ۔ اشرافیہ نے باقاعدہ طور پر مافیاز کی شکل اختیار کرلی ہے۔ شوگر، سیمنٹ، آٹا، تعلیم، صحت، انصاف، سیاست اور حکومت پر ’’مافیاز‘‘ قابض ہیں جو اپنے مفادات کیلئے گٹھ جوڑ کر لیتے ہیں اور اس قدر طاقتور ہو چکے ہیں کہ ریاست، آئین، قانون اور انصاف انکے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ ریگولیٹری اداروں کے سربراہ بھی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں لہذا وہ عوام کے حقوق کا تحفظ اور دفاع نہیں کرتے۔ ورلڈ بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے عوام مہنگی بجلی سے اس قدر عاجز آچکے ہیں کہ انہوں نے مجبوراً اپنے بچوں کی تعلیم، صحت اور خوراک پر اخراجات کم کر دئیے ہیں۔ سنگ دل، ظالم اور مفاد پرست اشرافیہ سے جان چھڑانے کا طریقہ یہ ہے کہ عوام متحد اور منظم ہوکر انتخابات میں سنگ دل اور استحصالی اشرافیہ کو مسترد کر دیں اور عوام دوست باکردار افراد کو منتخب کریں جو سیاسی اور ریاستی طاقت سے ظالم اور حد سے زیادہ مفاد پرست اشرافیہ کو سیاسی اور معاشی طاقت سے محروم کر دیں۔ دوسرا طریقہ منظم اور متحد عوامی انقلاب کا ہے جو انقلابی لیڈر، انقلابی پارٹی اور انقلابی ایجنڈے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024