ہمارا معاشرہ ہر قدم پر کرپشن‘ملاوٹ‘ لالچ کی دلدل میںدھنسا ہوا ہے۔ ہمارے حکمران ظاہر ہے عوام سے ہی نکل کر ایوانوں میں پہنچتے ہیں اسی لئے پہلے صرف دھاندلی اور اب پانامہ لیکس پر عدلیہ‘ اداروں اور پارلیمنٹ کی پوری توجہ مرکوز کرکے قوم کا وقت ضائع کیا جارہا ہے۔ پورے معاشرے کی اصلاح سیاستدانوں خصوصاً پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کی مکمل ذمہ داری ہے۔ اس کیلئے اسلامی قانون کا نفاذ تو پوری قوم کی آواز ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹے جائیں اور قتل کرنیوالے کو چوراہے پر نشان عبرت بنایا جائے۔ اس سلسلے میں ہماری پارلیمنٹ کی پیش رفت صفرہی ہے۔ پارلیمنٹ میں اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کا بل ’’اتفاق رائے‘‘ سے منظور ہوجاتا ہے اور یہی پہلی ترجیح رہی ہے اسکے علاوہ پارلیمنٹ ایسے قوانین منظور کرنے پر توجہ مرکوز رکھتی ہے جس سے حکمرانوں کے اختیارات میں اضافہ ہونے کیساتھ ساتھ کرپشن‘ لالچ اور ملاوٹ کی دلدل میں دھنسے معاشرے کو اسی ڈگر پر برقرار رکھنے میں مدد مل سکے۔ سیاستدانوں کے اس رویئے کی سب سے بڑی وجہ صرف یہی ہے کہ شوگر ملز‘ گھی ملز‘ پیٹرولیم ڈیلرز‘ دوائوں کے کارخانہ دار اور بڑے بڑے تاجروں کے سرپرست ایوان میں بیٹھے ہیں جو اپنے اپنے متعلقہ شعبے کی خامیوں کی پردہ پوشی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایم ڈی پی ایس او نے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ جب سے حکومت نے مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمتوں میں عوام کو ریلیف دینے کی نیت سے کمی کی ہے‘ یہ دونوں پیٹرولیم مصنوعات مارکیٹ میں ناپید ہوگئی ہیں اور سرکاری قیمت پر مٹی کا تیل یا لائٹ ڈیزل ڈھونڈلینا جوئے شیرلانے کے برابر ہے۔ ان دونوں اشیاء کے نایاب ہونے سے صاف ظاہر ہے کہ پیٹرول اور ڈیزل میں انکی مکسنگ کی جارہی ہے اور حکومت نے پیٹرولیم کمپنیوں اور ڈیلرز کی کمیشن میں کمی کرکے انہیں مجبور کیا ہے کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات میں مکسنگ کریں۔ ملک بھر میں غیر معیاری پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت جاری ہے اور ہمارے آزاد الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے آئے روز جعلی لیوب اور ملاوٹ کرنیوالے گروہ بے نقاب ہوتے ہیں لیکن اسکی نہ تو حکومت کی طرف سے وجوہات ختم کی جارہی ہیں اور نہ ہی ایسے کاروبار میں ملوث افراد کیلئے کسی سخت سزا کا اعلان کیا جارہا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں موجود حکومتی و اپوزیشن اراکین کی خواہش ہے کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے۔حکومت پنجاب کی جانب سے جعلی ادویات تیار کرنیوالی فیکٹریوں کے متعلق اطلاع دینے والوں کیلئے دس لاکھ روپے انعام کا اعلان خوش آئند ہے لیکن اس سلسلے میں وفاقی حکومت و اپوزیشن جماعتیں قانون سازی کیوں نہیں کرتیں؟
گزشتہ دنوں گھی ملزمالکان نے پنجاب فوڈاتھارٹی کے چھاپوں کے خلاف ہڑتال کردی تھی حالانکہ ملک بھر میں فروخت ہونیوالے خوردنی تیل کے معیاری برانڈ صرف انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں باقی تمام برانڈز غیر معیاری اور صحت کیلئے انتہائی مضر ہیں۔ اب تو یہ ظلم بھی سامنے آیا ہے کہ مرغی سے بنائے گئے تیل سے خوردنی تیل بنایاجارہا ہے اور اس طرح کے جرائم کرنیوالے قتل عام کے مرتکب ہورہے ہیں۔ میرے خیال میں وفاقی حکومت کو اپنی توجہ صرف حکمران خاندان کو پانامہ سے بچانے پر صرف نہیں کرنی چاہئے بلکہ عوام کے ان مسائل کیلئے فوری طور پر قانون سازی اور سزائے موت کا اعلان اہم ترین ہے۔ ہمارے معاشرے میں ملاوٹ وغیر معیاری اشیاء کی تیاری و فروخت میں اس لئے مسلسل اضافہ ہورہا ہے کیونکہ ان جرائم پر آج تک کسی کو نہ تو سزا ملی ہے اور نہ ہی کوئی اتھارٹی قائم ہے جو بھرپور ایکشن کے ساتھ ملک بھر میں ان جرائم کا قلع قمع کرنے کا عزم لئے اختیارات کے ساتھ میدان عمل میں ہو۔
جنرل ایوب خان کے دور میں ملاوٹ کرنیوالوں کو تنبیہہ جاری ہوئی تھی لیکن اس وقت حکومت چونکہ اپنے قول و فعل میں تضاد نہیں رکھتی تھی اس لئے ملاوٹ والی اشیاء تاجروں نے راتوں رات ندی نالوں میں بہادی تھیں۔ اب ایک بار پھر ضروری ہے کہ مستقل طور پر ملاوٹ‘ غیرمعیاری اشیاء کی تیاری و فروخت کیساتھ ساتھ مصنوعی مہنگائی پیدا کرنیوالوں کیخلاف قانون سازی اور بھاری انعام کا اعلان کیا جائے اور عوام کا بھی اخلاقی فریضہ ہے کہ پوری قوم معاشرے کے اس ناسور کیخلاف تحریک کی طرح اٹھ کھڑے ہوںتاکہ غیر معیاری اشیاء کے استعمال سے اسپتالوں میں گنجائش سے زیادہ مریضوں کے جانے کا سلسلہ نہ صرف ختم ہوبلکہ غیرقانونی کاروبار میں ملوث افرادخوف سے ہی اپنا غیرکاروباری دھندہ بند کردیں۔
بچوں کے کھانے کے کنفیکشنری آئٹم کی تیاری اور فروخت کے عمل میں ملک بھر میں مکمل آزادی ہے اور بچوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونیوالے پاپڑ اور چپس کی تیاری میں یہ بات سننے میں آئی ہے کہ کپڑے دھونے کے سوڈے کو تیل میں ڈالا جاتا ہے تاکہ گھی کا استعمال کم ہو۔ اب معیاری برانڈ کی بوتلوں میں گھروں میں بنایا گیا شیمپو بھی کھلے عام فروخت ہورہا ہے۔ مصالحہ جات میں ملاوٹ‘ دودھ میں ملاوٹ‘ حرام گوشت کی فروخت‘غیر معیاری گھی‘ زہریلے کنفیکشنری آئٹم غرض کہ بچوں‘ بڑوں اور بوڑھوں کے استعمال کی ہر چیز غیر معیاری اور زہر آلودہ ہے۔سیاستدانوں کی دلچسپی ‘ بیانات اور عملی اقدامات صرف اور صرف اپنے اختیارات اور مراعات میں اضافے پرمرکوز ہے۔ خداراقوم پر رحم کریں اور پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتیں ان جرائم پر سزائے موت اور نشاندہی پر بھاری سرکاری انعام کا اعلان ممکن بنائیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024