تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے
جنرل ایوب کے دور حکومت میں 6 ستمبر 1965ءکو پاکستان سے چار گنا افواج رکھنے والا پڑوسی ملک بھارت نے رات کے وقت پاکستان پر بزدلانہ حملہ کر کے جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔ ہماری افواج کے بہادر سپوتوں نے ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے بھارت کی جیت کے خواب کو شکست میں بدل کر رکھ دیا تھا۔ ان کے فوجی کمانڈر لاہور کو فتح کرنے آئے مگر میجر عزیز بھٹی شہید کی قیادت میں فوجی دستوں کی بمباری نے انکے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ بہادری کے اس صلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے میجر عزیز بھٹی کو پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔ اس جنگ میں ہمارے فوجی جوانوں نے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے جن کی کہانیاں بنا کر بچوں کے نصابی کتب میں پڑھائی جانے لگیں۔ خاص طور پر میجر عزیز بھٹی نشان حیدر‘ پائلٹ آفیسر راشدمنہاس شہید نشان حیدر قابل ذکر ہیں۔ 1971ءکو ہندوستان نے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے پھر دوبارہ ستمبر ہی کے مہینے میں رات کے وقت بزدلانہ حملہ کیا۔ میں ان دنوں ریڈیو پاکستان ملتان سے منسلک تھا۔ ریڈیو پاکستان کے ہر اسٹیشن سے شام آٹھ بجے کی خبروں سے پہلے بچوں کیلئے Bed Time‘ سٹوری کے عنوان سے کہانی نشر کی جاتی تھی۔ میں نے گیارہ روز تک 65ءکی پاک بھارت جنگ میں افواج پاکستان کے جوانوں کے کارناموں پر کہانی لکھ کر نشر کروائیں۔ اسضمن ذکر کرتا چلو۔ حوالدار محمد انور جو لاہور کے محاذ پر وائرلیس اپریٹر تھا۔ جنگ کے دوران توپوں کی بھاری بمباری نے وائرلیس سیٹ کو تباہ کر دیا۔ پیغام رسانی میں رکاوٹ پیدا ہوئی تو محمد انور حوالدار نے شدید بمباری کے دوران پیٹ کے بل رینگتے ہوئے وائرلیس کے ریڈی ایٹر کو درست کرنا شروع کیا۔ ایک گولہ آیا اور اس کی ایک ٹانگ اڑا دی۔ اس کے باوجود وہ نہایت بہادری سے ریڈی ایٹر کو درست کرتا رہا۔ جب وائرلیس ٹھیک ہو کر پیغام رسانی کا کام دینے لگا تو وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔ اسے سٹریچر پر ڈال کر ہسپتال پہنچایا گیا۔ بہادری کے اس صلے میں ہسپتال ہی میں اس کے سینہ پر تمغہ امتیاز لگایا گیا۔ ایم ایم عالم نے اپنے فائٹر جہاز کے ذریعے پانچ منٹ میں ہندوستان کے پانچ طیاروں کو مار گرایا اور دنیا میں ریکارڈ قائم کیا۔ اس طرح بہت سی کہانیاں میں نے بچوں کی Bed Time سٹوری میں ریڈیو پاکستان ملتان سے نشر کروائیں۔
16 دسمبر 2014ءصبح ساڑھے آٹھ بجے آرمی پبلک سکول میں آرمی ٹریننگ کے دوران آٹھ دہشت گردوں نے جس ظلم و بربریت کا ثبوت دیا تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ظالموں نے معصوم ننھے منے طالب علموں کو نہایت بے دردی سے شہید کر دیا۔ اس دہشت گردی میں منفرد طلبائ‘ بچے اور بچیاں بشمول پرنسپل صاحبہ اور دیگر سٹاف نے جام شہادت نوش کیا۔ شفیق نامی کلرک اپنی جان بچاتے ہوئے واش روم کی جانب بھاگا تو اس کے ایک ساتھی بچے نے آواز دی مجھے بھی ساتھ لے چلو۔ گولیوں کی اس بوچھاڑ میں شفیق اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس بچے کو لے جانے کے لئے مڑا تو گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ اس نے اپنی جان دے کر ساتھی بچے کو واش روم تک جانے دیا اور خود شہید ہو گیا۔ اسی طرح سکول کی پرنسپل صاحبہ چاہتی تو اپنی جان بچا کر نکل سکتی تھیں مگر اس نے گوارا نہ کیا۔ اسے اپنے طلباءبچوں کی جانیں زیادہ عزیز تھیں۔ دہشت گردوں نے انہیں بھی شہید کر دیا۔ پرنسپل شہادت کے درجے پر فائز ہوئیں۔ ایک بچے اسد نے اپنے چار ساتھیوں کو گولیوں کا نشانے بنتے‘ تڑپتے دیکھ کر دہشت گردوں کو للکارا۔ ان ظالموں نے اس کے سینے اور دماغ پر اس طرح فائر کئے ننھا شہید ایک یادگار مثال اپنے پیچھے چھوڑ گیا۔ آرمی پبلک سکول کے بچے اور بچیوں نے اس دہشت گردی کی ہولناک اور گولیوں کی بوچھاڑ میں جو بہادری اور حوصلے کے ساتھ شہادت پا کر ایک تاریخ رقم کر کے آنے والے وقتوں کے لئے رکھ دی ہے اور پھر تاریخ نے ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرایا۔رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔ انشائا للہ۔