میئر شپ کی نامزدگی سے مقامی سیاست میں ہلچل
جنوبی پنجاب کا دور افتادہ اور اہم ترین ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ڈیرہ غازیخان کی سیاست پورے ملک کی سیاست میں ایک انفرادی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں سے صدر پاکستان سے لے کر گورنر اور وزارت اعلیٰ تک کے عہدوں پر سیاسی لوگ منتخب ہوتے رہے ہیں۔ کھوسہ سرداروں میں اس وقت بڑے سردار ذوالفقار خان کھوسہ اپنی جماعت مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سے اختلافات کی وجہ سے علیحد ہ ہو چکے ہیں جن سیاسی لوگوں کی وجہ سے سردار ذوالفقار علی کھوسہ کے وزیراعظم میاں نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف سے اختلافات ہوئے تھے وہ آج اقتدار کی کرسی پر براجمان ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کھوسہ سردار آج بھی اقتدار کا حصہ ہیں جن میں سردار ذوالفقار علی کھوسہ کے فرسٹ کزن سردار امجد فاروق خان کھوسہ کا نام ہے۔ جن کے صاحبزادے عبدالقادر خان کھوسہ مسلم لیگ ن کی طرف سے چیئرمین ضلع کونسل کیلئے نامزد ہو چکے ہیں۔ عبدالقادر خان کھوسہ نوجوان ہیں اور کام کے جذبے سے بھی سرشار ہیں جبکہ انہیں سیاسی معاملات میں اپنے والد گرامی سردار امجد فاروق کھوسہ کی رہنمائی شامل ہے۔ عبدالقادر خان کے مدمقابل لغاری سرداروں کی طرف سے محمد احمد خان لغاری کا نام تھا لیکن لغاری سرداروں نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے عبدالقادر خان کھوسہ کی نامزدگی پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا بلکہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا فیصلہ من و عن تسلیم کر کے ظرف کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس طرح کوٹ چھٹہ میں لغاری سرداروں کا حمایت یافتہ امیدوار ظفر عالم گورمانی کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ جاری کیا گیا ہے جن کے مد مقابل کسی دوسرے امیدوار نے کاغذات جمع نہیں کرائے۔ لیکن اب اصل مسئلہ ڈیرہ غازیخان شہر کی میئر شپ کا بنا ہوا ہے اور یہ مسئلہ ایم پی اے علیم شاہ نے ہی بنایا ہوا ہے جو کہ گزشتہ ایک سال سے اپنے بہنوئی سید عمران شاہ کو میئر بنوانا چاہتے ہیں۔ سید عمران شاہ کو ٹیکنوکریٹ نشت پر کامیاب کرایا گیا۔ علیم شاہ اور ایم این اے ڈاکٹر حافظ عبدالکریم۲۰۱۳ءکے جنرل الیکشن کے ایک سال بعد ۲۰۱۴ءمیں آپس میں اس وقت اتحادی بنے تھے جب سید علیم شاہ کی لغاری سرداروں سے ان بن ہونے کی وجہ سے علیحدگی ہوئی تھی۔ حالانکہ ۲۰۱۳ءکے جنرل الیکشن میں علیم شاہ لغاری ہی کے تعاون سے الیکشن میں مٹکا کے نشان پر کامیاب ہوئے ۔ اب مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نے ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کے نامزد امیدوار شاہد حمید خان چانڈیہ کو ٹکٹ جاری کیا ہے جس پر سید علیم شاہ نے شدید اختلاف کرتے ہوئے اپنے بہنوئی عمران شاہ اور ڈپٹی میئر کیلئے ذوالقرنین خان لاشاری کے کاغذات جمع کرا دئے ہیں جس کی وجہ سے ایم این اے ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کے ساتھ ان کے اختلافات شروع ہو گئے ہیں۔ سید علیم شاہ نے اپنے بہنوئی کے کاغذات جمع کرا کے جہاں پر پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے اختلاف کیا ہے تووہاں پر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے۔ آنے والے جنرل الیکشن میں یہ اختلافات مسلم لیگ ن کیلئے نقصان کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ سید علیم شاہ کو اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرنا ہو گی میئرشپ کے فیصلہ پر اگر نظرثانی پر تیار بھی ہوئے تو اس کے بدلہ میں اپنی بہت زیادہ اہمیت بنا کر ہی دم لیں گے۔ جنرل الیکشن ۲۰۱۸ءکیلئے سردار دوست محمد کھوسہ نے بھی گزشتہ ایک سال سے خوب تیاری شروع کر رکھی ہے۔ اپنے بڑے بھائی سردار سیف الدین کھوسہ کے ساتھ صلح ہو جانے کے بعد وہ سیاسی طور پر مضبوط ہو کر سامنے آئے ہیں۔ علیم شاہ کے ساتھ ان کا زبردست مقابلہ ہے۔
مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نے اپنے اقتدار کے آخری ڈیڑھ سال میں آ کر پنجاب میں اپنے منتخب نمائندوں کو اس لئے برسراقتدار بنانے کا فیصلہ کیا ہے جنرل الیکشن ۲۰۱۸ءمیں یہی منتخب نمائندے مسلم لیگ ن کو کامیاب کرانے میں اپنا مرکزی کردار ادا کریں گے کیونکہ عوام کے ساتھ رابطہ انہی نمائندوں ہی کا ہوا کرتا ہے نہکہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ سامنے ہوتے ہیں۔ اس لئے وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہونے والے چیئرمینوں اور میئرز کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانا چاہتے ہیں کیونکہ سیاست کا رخ ہمیشہ گلی محلہ کے کام کرانے سے ہی شروع ہوتا ہے لیکن تحریک انصاف ‘ پیپلزپارٹی‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علماءاسلام اور دیگر مقامی پارٹیوں کے مقامی رہنما¶ں نے بھی اس دفعہ جنرل الیکشن میں مسلم لیگ ن کے ساتھ خوب مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔خصوصاً تحریک انصاف گزشتہ الیکشن کی نسبت اس دفعہ زیادہ منظم اور م¶ثر طریقے سے اپنا ورک کر کے مسلم لیگ ن کو زبردست ٹف ٹائم دے گی کیونکہ اس دفعہ کے اقتدار کے دوران مسلم لیگ ن کی حکومت عوام کو نہ تو مہنگائی سے نجات دلا سکی اور نہ ہی بجلی گیس کا مسئلہ حل ہو سکا۔ ۲۰۱۸ءکے آخری دنوں میں وزیراعظم قوم کو بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کیلئے آخری سیاسی پتہ شو کر سکتے ہیں لیکن عمران خان بھی ۲۰۱۸ءکے الیکشن میں اپنے آپ کو منوانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔