صاحب کرامات ،حضرت غازی یوسف شاہ مودیؒ
عالم کائنات کا سب سے مقدم فرض اور سب سے زیادہ مقدس خدمت یہ ہے کہ نفوس انسانی کے اخلاق و تربیت کی اصلاح و تکمیل کی جائے یعنی پہلے ہرقسم کے فضائل اخلاق‘ زہد وتقویٰ ‘ عصمت وعفاف‘ احسان و کرم‘ حلیم و عفو‘ عزم و ثبات‘ ایثارولطف‘ غیرت واستغنا کے اصول و فروغ نہایت صحیح طریقہ سے قائم کئے جائیں اور پھرتمام عالم میں ان کی عملی تعلیم رائج کی جائے‘ علم تصوف‘ شریعت طریقت کا جامع ہے اور روح اسلام بھی اس کی بنیادقرآن کریم کی یہ آیت ہے۔ترجمہ: اللہ ا ن لوگوںکے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں۔ اس آیت کے تحت احسان روحانی ترقی کی اعلیٰ ترین منزل ہے۔ اس کی تفسیر میں علماء کرام حدیث جبرائیل کا تذکرہ کرتے ہیںکہ احسان کا نام ہے کہ عبادت کرو اللہ کی اس طرح کہ گویا تم اسکو دیکھ رہے ہو‘ پس اگریہ مقام مشاہدہ حق کا تم کو حاصل نہ ہوتو پھر عبادت کرو‘ اس طرح کہ یہ تصورہوکہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے خود آئمہ کرام نے شیوخ وقت کے دامن کو تھاما اور کامیاب ہوئے انکے بعد مخلوق خدا کی خدمت پرمامور اولیاءعظام نے اپنی زندگیاں شریعت پرعمل کرتے ہوئے گزاریں وہ حضرت شیخ احمد کبیررفاعیؒ ہوں یا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ‘ خواجہ معین الدین چشتیؒ یا حضرت د اتاگنج ئخش علی ہجویریؒ‘ حضرت بابا فریدگنج بخش شگرؒ ہوں یا حضرت نظام الدین اولیائؒ ان تمام علماءو مشائخ کی زندگیوں کا مطالعہ بتاتاہے کہ انہوں نے کس طرح اپنے نفوس پر کڑی نظر رکھتے ہوئے اپنے تمام متعلقین کے حقوق ادافرمائے۔ آج ہرطرف ان کی شہرت کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ اس مقدس جماعت کے ایک میر کارواں حضرت غازی یوسف شاہ مودیؒ بھی ہیں۔ آپ نے سندھ میں ناصرف اسلامی تعلیمات کا پرچار کیا بلکہ محبت‘ اخوت اوربرد باری سے لوگوںکے دلوں میں جذبہ ایمانی کوگرمایا یہ بات تحقیق طلب ہے۔ آپ کب اور کہاں سے تشریف لائے تھے اورآپ کا کب یہاں وصال ہوا تھا مگر یہ بات مستند ہے کہ آپ ایک صاحب کرامات بزرگ ہیں۔ حضرت غازی یوسف شاہ مودیؒ کا مزارمبارک جزیرے منوڑہ میں واقع ہے ان کا عرس ہرسال نہایت عقیدت واحترام اور شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔ یہ عرس ہرسال 16 سے 18 ربیع الاول کو منعقد ہوتا ہے‘ ان دونوںغسل‘ میلاد‘ قوالی اورلنگر عام کا اہتمام کیا جاتا ہے‘ جس میں ملک بھربالخصوص سندھ اور غیرممالک سے بھی ہزاروں عقیدت مند شرکت کرتے ہیں۔ آپ سے مسلمان ہی نہیں بلکہ دوسرے مذہب کے لوگ بھی بے حد عقیدت محبت رکھتے ہیں۔ سال بھرزائرین کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تصنیف اولیاء سندھ میں حضرت غازی یوسف شاہ مودیؒ کی کرامات کاایک واقعہ یوں بیان کیاگیا ہے کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان ستمبر 1965ءمیں جنگ شروع ہوئی تو حکومت پاکستان نے پورے ملک میں بلیک آﺅٹ کا حکم جاری کیا مگر حضرت غازی یوسف شاہ مودیؒ کے سرہانے والا بلب رات کوبھی جلتارہتا تھا جس کی بناء پر سول ڈیفنس کے کارکنوں نے مزارپرآکرآپ کے مجاوروں سے بلب مسلسل جلتے رہنے سے متعلق سوال کیا جس کے جواب میں مجاوروں نے کہاکہ ہم نے جنگ کے د وران خود تمام سوئچ بند کئے ہیں‘ آپ چاہیں تو خود دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ جب سول ڈیفنس کے لوگوں نے تمام سوئچ خود چیک کئے اوریہ منظر دیکھا تو سخت حیران ہوئے کہ سوئچ تو بند ہے مگرایک بلب خود بہ خود مسلسل جل رہا ہے بہر حال اطمینان کے لئے روضے کے ارد گرد کی پوری وائرنگ کاٹ کے چلے گئے مگر مزارکے سرہانے والا بلب پھرروشن ہوگیا۔ اس دوران ایک رات حضرت غازی یوسف شاہ مودی ؒ نے ایک سرکای افسر کورات خواب میں بشارت دی کہ پریشان نہ ہوں میں خود تمہارے ساتھ ہوں۔ 1965ء کی جنگ کے د وران یہ بات بہت مشہورہوگئی تھی کہ بھارت کے حملہ آور جہاز حضرت کے روضے والے بلب کی روشنی پربم برساتے ہیں‘ مگرایک بزرگ ان بموں کواپنے ہاتھ میں اس طرح لیتے ہیں جس طرح گیند کو کیچ کیا جاتا ہے پھر انہیں سمندرمیں پھینک دیتے ہیں‘ لاتعداد واقعات میں اولیائے کرام نے اپنی دعاﺅں کے ذریعے سے پاکستان کی حفاظت فرمائی۔ حضرت غازی یوسف شاہ مودی کے عقیدت مندوں کا عقیدہ ہے سمندری طوفان ہو‘ اندرونی وبیرونی خطرات ہوں تو غازی بابا اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہیں یا باری تعالیٰ ملک پاکستان کو اس مصیبت سے نجات عطا فرما اور سمندری طوفانوں کارخ اللہ تعالیٰ موڑ دیتا ہے۔ حضرت غازی یوسف شاہ مودیؒ ایک صاحب کرامات بزرگ ہیں‘ آپ کے توسط سے بارگاہ الٰہی سے مانگنے والے امیر ہو یا غریب کوئی خالی ہاتھ واپس نہیں جاتے۔ اس سال آپ ؒ کے عرس مبارک کی تقریبات 28 دسمبر سے 30 دسمبر 2016ء تک منائی گئیں۔ اس وقت مذہبی امورکے چیئرمین خلیفہ عبدالرزاق شمس الدین الرفاعی اراکین مذہبی امورکمیٹی درگاہ عبدالستار سعید‘ ڈاکٹرمحمد یونس قادری اقبال قریشی عارف خان ‘ زبیر نقشبندی پر مشتمل ہے۔