سانحہ چترال اور ڈی این اے ٹیسٹ
بدھ7 دسمبر 2016 ءملکی تاریخ کاایک اور سیا ہ و بھیا نک دن تھا ،
اس روز چترال سے اسلا م آباد آنیوالا پی آئی اے کا ا ے ٹی آر طیارہ گر کر تبا ہ ہو گیا جس میں مذہبی اسکا لر جنید جمشید ، ڈی سی او چترال اسامہ وڑائچ سمیت 48 افراد ایک لمحہ میں لقمہ اجل بن گئے ۔ یہ بات طے ہے کہ طیا رہ حا دثات میں شا ذ و نادر ہی کوئی بچ پا تاہے ۔ ےہی عالم سانحہ چترال کا ہے اور طیارہ میں سوار کوئی مسافر بھی زندہ نہ بچ سکا ۔ جاں بحق افراد کی نعشیں جل کر نا قابل شناخت ہو گئیں۔ سانحہ میں جا ں بحق 48 میں سے نادار سسٹم کے تحت صرف 6 کی شنا خت ممکن ہو سکی جبکہ 42 افراد کی نعشیں خاص انداز میں پیک کر کے مختلف اسپتالوں کے سرد خانو ں میں رکھ دی گئیں ۔ وزیر اعظم میاں نوازشریف کی زیر صدارت اجلاس میں بریفنگ کے دورا ن وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹرطارق فضل چو ہدری نے کہا ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد نعشیں لو احقین کے سپر د کی جائیں گی جن میں چھ سے آٹھ روز یا اس سے بھی زائد عرصہ لگ سکتے ہیں ۔ ڈی این اے ٹیسٹ میں سیمپلینگ کے بعد اس کی کو ٹیشن کی جا تی ہے جس میں یہ دیکھاجا تاہے کہ اگر ڈی این اے کی مقدار زیادہ یا کم ہے تو اسے درکا ر مقدار پر لایا جاتا ہے اور یہ مر حلہ دو سے 3 دن میں مکمل ہو جا تا ہے اس کے بعد جینو ٹائپنگ کی جا تی ہے جس میںجینا تی مواد کے تقابل سے شناخت کا عمل شروع کیاجا تا ہے اور یہ عمل قریبی خو نی رشتہ داروں کے حا صل کر د ہ نمو نو ں کے ساتھ دہر ایا جا تاہے ۔گو یا نا قابل شناخت اور مسنح شدہ نعشوں کا تعین کرنے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کی مد د لی جا تی ہے ۔
ڈی این اے ٹیسٹ ہوتاکیا ہے ؟ اور یہ کیو نکر اہم ہے ؟ ہمارے جسم میںڈی این کے کی کیا اہمیت ہے ؟ڈی این اے کن خصو صیا ت کا حا مل ہے ؟ یہ قدرت کامعجزہ ہے کہ ہر انسان ، حیوان ، پر ند چرند یعنی جا ندار کا اپنا ایک مخصو ص ڈی این اے ہو تا ہے جو کہ دوسروں سے اپنی الگ پہچان بنا تا اورایک دوسرے سے ممتا ز کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ پیچیدہ معاملا ت کے حل او ر مسنح شدہ نعشوں کی شنا خت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ سے مد د لی جاتی ہے۔ بلاشبہ یہ قدرت الہی ہے کہ انسان سے انسان ،ہا تھی سے ہاتھی کا بچہ ، زرافہ سے زافہ جنم لیتا ہے علیٰ ہذا القیاس۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیو نکر ہے ؟تو اس کا جواب خلیہ یا سیل کے اند ر ڈی آکسر ی بو ینو لسک ایسڈ Deoxyribonucleic Acid یعنی DNA کی مو جو دگی ہے ۔
ڈی این اے قدرت کے کر شمو ں میں سے ایک بہت بڑاکر شمہ ہے ۔ کیا ! کبھی ہم نے یہ سو چاہے کہ گو رے کی اولا د گو ری ہو تی ہے ، جاپانی ، چینی ، کو رین ، ہمیشہ چپٹی ناک کی وجہ سے پہچانے جا تے ہیں۔ ہم اکثر و بیشتر بچے کی شکل و صو رت اور عادتو ں سے متا ثر ہو تے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی شکل ماں پر گئی ہیں یا با پ پر گیا ہے اسی طرح بہن بھا ئیوں کی شکلیں ایک دوسرے سے کا فی حد تک مشا بہت رکھتی ہیں حتی ٰ کہ بعض اوقات یہا ں تک کہنے پر مجبو ر ہو جا تے ہیں کہ اس کی عادات دادا جیسی ہیں اس کی نا نی کی شکل و صو رت بھی ایسی ہی تھی ۔ اور یہ سب ڈی این اے کی ہی کی خصو صیت ہے کہ اس کے با عث خو نی رشتوں میں مشابہت ممکن ہے ۔ در اصل ان مذکو رہ خصو صیا ت کا وقوع پذیر ہو نا بو قت عمل تو لید ( re-productive ) کے دوران جینز کی منتقلی ہے جو کہ حیاتیاتی ہد ایات کا حا مل DNA کی شکل ہے ۔
بلند و بالا عمارت کی یونٹ اکا ئی ایک اینٹ یا ایک بلا ک ہو تی ہے جسے سیمنٹ یا کنکر یٹ کے ذریعے دیو اریں کھڑی کر کے تیا ر کی جا تی ہے اسی طرح انسان ، حیوان پو دے ، یا جا ندار کی یو نٹ اکا ئی خلیہ یا سیل ہو تی ہے ۔انڈہ سیل یا خلیہ کی بہترین مثال ہے ۔ابا لنے پر انڈہ تین حصو ں بیر ونی خو ل اور جھلی، سفیدی اور زردی کی صورت میںملتا ہے زردی ولا حصہ نیو کلئیس ( nucules ) کہلا تا ہے ۔ اس طرح ہما را پورا جسم ان خلیو ں سے مل کر بنا ہو تا ہے ۔ ڈی این اے سیل کی خا ص جگہ نیو کلئیس میں پایا جا تا ہے ۔ چونکہ سیل انتہائی چھو ٹے حتی ٰ کہ خو ردبینی ہو تے ہیں اور ایک Orgnasaim کے ایک سیل میں بہت سے ڈی این اے ما لیکیلولز ہو تے ہیں ۔ ہر ڈی این اے ما لیکیول سختی سے پیک ہو تا ہے ؛اس پیک کو کر و مو سو م کہا جا تا ہے ۔ DNA ٹیسٹ کیلئے محض ایک سیل یا خلیہ ہی کا فی ہوتا ہے ۔ ڈی این اے کی یہ خا صیت ہے کہ یہ تحلیل نہیں ہو تے بلکہ یہ اپنے جیسے مزید بنا لیتے ہیں جس میںحیا تیا تی ہد ایات کو ڈ ہو تی ہیں۔ ڈی این اے پر وٹینز بنا تے ہیں ۔ ہمارا پورا جسم ، پٹھے ، ہا رمونز ، تھا ئیر ائڈ ز، انسولین خون سب پر وٹین کی شکل ہیں اور ان میں جسم کے کسی بھی حصے سے سیمپل کے طور پر خلیے یا سیلز لے کر ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے ۔ بعض اوقات ڈی این اے میں بگا ڑ پیدا ہو تا ہے یعنی بغا وت کر جا تے ہیں تو اس صو رت میں کینسر کی شکل دھار لیتے ہیں۔ تھیلیسیمیا، ہیمو فیلیا، بریسٹ کینسرگنجا پن جیسی بیماریا ں یا علا مات وراثت میں ملتی ہیں جن والدین کو اس قسم کی بیماریا ں ہو تی ہیں ان کے بچو ں کو ایسے امر اض لا حق ہو نے کے خطرات زیا دہ ہوتے ہیں ،اس کی بنیا دی وجہ یہ ہے کہ بو قت عمل تو لید والدین کے 23 23 کر و موسو م بنتے ہیں اور یہ کر ومو سو م DNA پر مشتمل ہو تے
ہیںجو کہ کو ڈ یا دی گئی ہدایا ت کے مطا بق ہوتے ہیں اور ان پر عملدارآمد کر تے ہیں ۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ ہے ڈی این اے خلیہ کے اند رونی حصہ نیو کلئیس میں پا یا جا تا ہے تا ہم اس کی معمو لی سی مقدار سیل کی جھلی اور نیو کلیئس کے درمیا نی حصے (انڈے میں سفیدی ولا حصہ میں پا یا جا تا ہے) جسے مینو کنڈائریا کے نا م سے جا نا جا تا ہے ؛ یہ سیل کو صحیح طو رپر کا م کرنے اور اسے متحر ک رہنے کے کیلئے توانا ئی فراہم کر تا ہے گو یا بذات خو د ایک سیل کے زندہ رہنے کا انحصار بھی ڈی این اے پر ہے اور اسی طر ح زندگی کا پہیہ رواں دواںہے جو کہ غمی ، خو شی، جذبا ت، احساسات اور دیگر خصو صیا ت سے بھر پو ر ہے ۔
سو ال یہ ہے اس قدر خصو صیا ت کا حامل ڈی این اے کس چیز کا بنا ہو تا ہے اس کی بناﺅ ٹ کیا ہے ڈی این اے کیمیا ئی اجزاءکا مجموعہ ہو تا ہے ۔ جسے نیﺅ کلیو ائیڈز کہا جا تا ہے جو کہ تین حصو ں پر مشتمل ہو تا ہے فاسفیٹ گر وپ ، شو گر گر وپ اور تیسرا چار اقسام کی نا ئٹر وجن ایڈنا ئن (A) تھیامین ) (T گو یا نین(G) اور سیٹو سائن) (C پر مشتمل ہو تا ہے اس نا ئٹر وجن کی ترتیب حیا تیا تی ہدا یا ت پر خصو صیا ت کی حا مل ہو تی ہے مثال کے طو ر پر ترتیب ATCGTT بھو ری آنکھو ں کیلئے ہوسکتی ہے توATCGCT بھوری آنکھوں کے لئے ہے ۔سانحہ بلیو ایئر لا ئن ہو یا سانحہ بھو جا ایئر لا ئن یا کوئی اور سانحہ سینکڑوں نا قابل شنا خت نعشوں کو ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے پہنچا نا گیا ۔ ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے ایک سیل ہی کا فی ہو تا جس کیلئے با آسانی نمو نہ لیا جا سکتا ہے بعض اوقات ہڈیو ں میں سے بھی سیمپل لیا جا تا ہے دوسری جا نب اس نعش کے استعما ل میں اشیا ءمیں مثلا ًبال وغیر ہ لیاجا تا ہے اور دونو ں کے ڈی این کے مو ازنہ کیاجا تا ہے یا پھر اس نعش کوڈی این اے اور دعویدار والدین میں سے کسی ایک کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جا تاہے ایسی صو رتحا ل میں دونو ں کے نتائج میںقدر فرق آتا ہے لیکن اس فرق کے با وجو د قریب تر نتیجہ پر پہنچ جا تے ہیں اور اس نعش کی شنا خت کر لی جا تی ہے گو یاڈی این اے ہمارے جسم کا اہم ترین جزو اور الگ پہچان رکھنے ولا عنصر ہے ۔ جس کی اہمیت سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا ہے جس پر مزید تحقیق جاری ہے جس کے تحت پیچیدہ اور نا قابل علا ج بیما ریا ں کے خلا ف جنگ لڑی جا سکے ۔