الطاف گوہر ایوب خاں کے زمانے میں بڑے طاقتور بیورو کریٹ تھے ان کے بھائی تجمل حسین ملٹری اکاﺅنٹ کنٹرولر یا اس سے بھی بڑے کسی عہدے پر براجمان تھے۔ دونوں بھائی بڑے اچھے ادیب بھی تھے اور عمدہ کتابیں لکھیں۔ تجمل حسین نے اپنے بچپن کی کہانی اپنی کتاب ”جو بچے ہیں سنگ“ میں ”چوک نیائیں“ گوجرانوالہ سے شروع کی ہے جب ایک سیاسی تحریک کو کچلنے کےلئے 1923ءمیں شہر میں مارشل لاءلگا تو ان کے والد راجہ تفضل حسین جو ایک اعلیٰ پولیس آفسر تھے کے ذمے شہریوں کی پکڑ دھکڑ اور تحریک کو کچلنے کا کام سپرد کیا گیا تو انہوں نے پولیس کی نوکری سے ہی استعفیٰ دےدیا اور اپنی وردی اور والدہ کے تمام ریشمی کپڑے ”چوک نیائیں“ میں لا کر نذر آتش کر دیئے۔ وہ تحریک دراصل غیر ملکی اشیاءکے بائیکاٹ کی تحریک تھی شہر میں یوں تو ٹھاکر سنگھ گیٹ، گرجا کھی دروازہ، کھیالی گیٹ، ایمن آبادی گیٹ، لاہوری گیٹ، سیالکوٹی گیٹ، اور گوندانوالہ اڈہ وغیرہ شامل ہیں۔ لاہوری گیٹ رنجیت سنگھ کے باپ کی سمادھی اور رنجیت سنگھ کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے معروف ہے۔ سیالکوٹی دروازہ تکے کباب، فرائی فش، آئس کریم، خشک میوہ جات اور خوش خوراکی کا مرکز ہے۔ شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ یہاں کبھی افیون، شراب، چرس، بھنگ کے ٹھیکے اور چنڈوخانے ہوا کرتے تھے۔ گوندانوالہ اڈا دو متحارب دشمن داروں مہاجو پہلوان اور خلفیہ ابرو کے وجہ سے جانا گیا۔ یہ اعزاز صرف ”چوک نیائیں“ کو حاصل ہے کہ یہ جگہ انگریز کے زمانے میں حریت پسندوں کا مرکز رہی۔ اس کی تاریخی اہمیت تو اپنی جگہ اس کے اردگرد الطاف گوہر، تجمل حسین، اکرم ذکی، انور زاہد، حاجی پیر بخش، کھوکھر وغیرہ جیسے یگانہ روزگار لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے ملک و ملت کو بہت کچھ دیا اس چوک کو شہر کی چھ عدد معروف شاہراہیں ایک دوسرے سے ملاتی ہیں۔ یہ شہر کا واحد چوک ہے جو تعلیم و فن کا گہوارہ ہے۔ جو سٹرک اردو بازار سے چوک کو ملاتی ہے یہاں لڑکیوں کا ایک گورنمنٹ ڈگری کالج اور فتح دین گرلز ہائی سکول ہے۔ کالج میں کم و بیش تین ہزار طالبات اور سکول میں کم از کم ایک ہزار طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان دو ادارں کے علاوہ مولوی اسماعیل صاحب کی بڑی سی جامع مسجد بھی واقع ہے۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ مسلک اہلحدیث کے نامور ترین عالم دین کو ابھی بھی ان کے چاہنے والے ”مولانا“ یا دیگر طول طویل القابات کی بجائے محض ”مولوی“ اسماعیل صاحب کہتے ہیں اور شاہد اس سے زائد کی اُنھوں نے کبھی خواہش بھی نہ کی اور اگر کی بھی ہو گی تو محض “توحید“ کی (اللہ اُن کی قبر کو ہمیشہ منور رکھے۔ آمین) اور جو سڑک چوک نیائیں سے نوشہرہ روڈ کو جاتی ہے اس کے آغاز پر ہی ایک شہید ستارہ جرا¿ت کیپٹن صغیر شہید کی حویلی ہے۔ جس کا صدر دروازہ نظر آتا ہے اور نہ بیرونی دیوار اگر کوئی شے نظر آتی ہے تو ”چاند گاڑیوں“ کا ایک بے ہنگم ہجوم۔ اُس سے آگے ایک ”لاہور یا پان والا“ تھا جو کب کا لاہور اور گوجرانوالہ تو کیا دنیا ہی چھوڑ چکا ہے۔ ذرا آگے ایک نجیب الطرفین حاجی عنایت اللہ چغتائی کی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ اُن کے ڈیرے کے سامنے سکھ مذہب کے ایک قادیانی ”گیانی عباد اللہ“ کا گھر تھا جو ان کی وفات اور بیٹوں کے امریکہ چلے جانے کے سبب کسی بیوہ عورت کی مانند ہو چکا ہے۔ مہاجو پہلوان دشمنی میں بہت بڑا نام تھا۔ ایک (LEGEND) کی حیثیت حاصل کر چکا تھا۔ بڑا طاقتور، جگر دار تیندوے کی تیزی اور دوستوں سے نیازمندی کسی اور دشمن دار شخص میں نہیں دیکھی۔ پھر اس سے آگے سابق ایم پی اے شگفتہ انور راجپوت کا بڑا سا گھر تھا جو اُس کا بھائی ہڑپ کر چکا ہے۔ ڈیسنٹ موٹرز والے حاجی یونس کھوکھر بھی یاروں کے یار ہاتھ کے سخی اور دل کے غنی تھے۔ اسی عمارت کے ساتھ ”مسلم ماڈل گرلز ہائی سکول“ واقع ہے جو کھوکھر برادری کا شہریوں کےلئے ایک ایسا عطیہ ہے کہ اس سے قبل اس سڑک پر اس معیار کا کوئی اور گرلز ہائی سکول نہ تھا۔ یہاں بھی کم و بیش ایک ہزار سے زائد طالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہی ہیں۔ حافظ آباد روڈ سے جو سڑک نیائیں چوک آکر ملتی ہے یہاں ایک اللہ کے ولی کا ڈیرہ اور رہائش ہے۔ اب یہ سوئے اتفاق ہے کہ اللہ کا یہ ولی حکومتی جماعت کا ایم این اے ہے۔ یعنی بیرسٹر عثمان ابراہیم انصاری جو ٹھیکداروں سے کمشن بھی نہیں لیتا بس کام کے معیار پر سمجھوتہ کرتا ہے۔ وزیر بے محکمہ ہے اس لئے سرکاری گاڑی اور رہائش بھی واپس کر دی۔ ولی اللہ تو میں نے اردو ادب تصوف اور مذہب کے حوالے سے کہہ دیا ورنہ آج کل کی سیاسی لغت میں اس طرح کے آدمی کو شائد ”بے عقل“ کہا جائے اسی سڑک پر پنجابی زبان کے عظیم استاد شاعر علامہ غلام یعقوب انور کی حویلی ہے جہاں کبھی فن کے استاد شعراءہر ہفتے دور دور سے آکر محفل مشاعرہ منعقد کرتے اور علامہ صاحب پیشہ وکالت کے علاوہ تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے ان کے نزدیک ہی چوک گھنٹہ گھر میں تحریک پاکستان کے کارکن میاں ایم آئی شمیم کی رہائش ہے۔ جو 95 سال کی عمر میں بھی ایک نجی لاءکالج کے کامیاب پرنسل ہیں اس حویلی کے ساتھ ہی کھوکھر برادری کا شہر کو دیا ہوا ایک اور تحفہ ”اے ڈی ماڈل ہائی سکول“ ہے جہاں سے لاکھوں طلبا فارغ التحصیل ہوئے۔ اب بھی ہزاروں طلبا زیر تعلیم ہیں۔ کھیالی دروازہ سے جو سڑک نیائیں چوک کو ملاتی ہے وہاں رستم ہند رحیم پہلوان ”سلطانی والا“ کی حویلی ہے۔ شہر کے لوگ بتایا کرتے ہیں کہ ”سلطانی والا“ جیسا خوبصورت پہلوان تو کیا شہر میں دیگر کوئی عام آدمی بھی نہ تھا۔ سوا چھ فٹ قد کیسری رنگ چمکدار بال گھنی مونچھیں خوبصورت چہرہ۔ ہندو مرد اور عورتیں انہیں بھگوان کا اوتار سمجھتی تھیں۔ بادام گوشت پھل اور دیگر ہر قسم کی خوراک اُن پر نچھاور کرنا اپنے دھرم کا حصہ سمجھتے تھے اب آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ ”سلطانی والا“ کیسا پہلوان ہو گا جس نے چالیس سال کی عمر میں سیالکوٹ کے انتہائی زور آور اور ”کسبی“ گونگا پہلوان کو چت کر دیا۔ سنا ہے کہ اس کے بعد گونگا پہلوان دانتوں سے اپنے جسم کو کاٹتا رہا۔ اس حویلی سے آگے ایک اور بہت بڑی حویلی ”سیٹھ عبداللہ“ کی تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں لوہے سے متعلقہ آلات سپلائی کر کے وہ شہر کے سب سے بڑے رئیس بن چکے تھے۔ آج بھی اُن کی حویلی شکست و ریخت کا شکار ہونے کے باوجود قابل دید ہے ہماری بیورو کریسی جو پتہ نہیں کس کس شہر سے یہاں آکر تعینات ہوئی ہے اسے علم ہی نہیں کہ تجاوزات کے مارے اس چوک میں ٹریفک کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38