وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اب ایک نئے کام کا بیڑا اٹھایا ہے اور وہ ہے جعلی ادویات کا خاتمہ۔ یہ کام ڈینگی کے خاتمے سے بھی زیادہ مشکل ہے کیونکہ نہ صرف پنجاب میں بلکہ پورے ملک میں جعلی ادویات کی فیکٹریاں کھلم کھلا یہ زہر آلود دھندہ کرنے میں مصروفِ کار ہیں اور معصوم زندگیوں سے کھیلنے کے گھناﺅنے جرم کا ارتکاب کر رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں شہباز شریف کا عزم پختہ اور نیت صاف ہوتی ہے لیکن انہیں غالباً یہ ادراک بھی ہو گا کہ ایسے گھناﺅنے جرم میں حکومتی کارندے، بڑے بڑے پیشہ ور لوگ، پولیس کے اعلیٰ افسران حتیٰ کہ ممبرانِ اسمبلی بھی شامل ہوتے ہیں کیونکہ حکومتی سرپرستی کے بغیر ایسے خطرناک کاروبار نہیں کئے جا سکتے۔ جعلی ادویات کا کاروبار ہمارے ملک میں اس قدر مضبوطی سے جڑ پکڑ چکا ہے کہ اب اصل دوا بازار سے ناپید ہی ہو گئی ہے۔ اس کام میں بڑے بڑے سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے سینئر ڈاکٹرز سمیت پرائیویٹ ڈاکٹرز بھی شامل ہیں کیونکہ یہ ڈاکٹر ہر جعلی کمپنی سے کمیشن کھاتے ہیں اور مریضوں کو اسی کمپنی کی دوا تجویز کرتے ہیں جس کی کمیشن کھاتے ہیں۔ یہ بھی بھڑوں کا چھتہ ہے جس میں وزیراعلیٰ پنجاب نے ہاتھ ڈال لیا ہے.... اس سلسلے میں ہم پنجاب حکومت کو ایک دو انتہائی مفید مشورے بالکل مفت دے سکتے ہیں۔ جن میں پہلا مشورہ یہ ہے کہ جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے اور ڈاکٹرز کی طرف سے تجویز کرنے پر باقاعدہ سزائیں دی جائیں۔ جعلی ادویات بنانے والی فیکٹری کے مالک کو سیدھی سیدھی سزائے موت اور خریدنے والے میڈیکل سٹورز کے مالکان کو کم از کم چودہ چودہ برس قید بامشقت اور پانچ کروڑ روپے جرمانہ.... اسی طرح جعلی فیکٹری کی کوئی بھی دوا تجویز کرنے والے سرکاری و نجی (پرائیویٹ) ڈاکٹر کا لائسنس منسوخ اور پانچ برس قیدِ بامشقت اور دو کروڑ روپے جرمانہ.... دوسرا مشورہ یہ ہے کہ جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں کے خاتمے کو میرٹ پر رکھا جائے نہ کہ ذاتی تعلقات اور ذاتی عناد کی بناءپر۔ اس چکی میں اگر گندم کے ساتھ گھن بھی پس جائے تو اس کی فکر نہ کی جائے۔ یعنی غیروں کے ساتھ اگر اپنے بھی اس رگڑے میں آتے ہیں تو انہیں بخشا نہ جائے ورنہ یہ سارا آپریشن فلاپ ہو کر رہ جائے گا۔ ان دو باتوں کو اگر حکومتِ پنجاب اور وفاقی حکومت بھی پورے ملک میں قانون بنا کر لاگو کر دے تو ہمیں یقین ہے کہ میاں شہباز شریف نے جس نیک کام کا آغاز کیا ہے وہ اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ ہماری دعائیں انکے ساتھ ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ صوبائی وزیرِ خوراک اور میرے عزیز دوست بلال یٰسین کو بھی میاں شہباز شریف کی پیروی کرتے ہوئے کھانے پینے کی اشیاءمیں ملاوٹ کرنے والوں کو شدید سزائیں دینے کا عزم کرنا چاہیے اور یہ ٹھان لینا چاہیے کہ عوام کو کھانے پینے کی خالص چیزیں مہیا کی جائیں گی۔ مثال کے طور پر دودھ اب کہیں بھی خالص دستیاب نہیں۔ ہم اپنے بچوں کو ایک سفید مشروب پلا رہے ہیں جسے دودھ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ دودھ چاہے ڈبے کا ہو چاہے کھلا۔ اس دودھ میں کیلشیم نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں۔ اسی طرح پسی ہوئی سرخ مرچوں میں اینٹ کا برادہ، دالوں میں کنکر اور پتھر ڈال کر اُن کا وزن بڑھایا جاتا ہے۔ گھی، کوکنگ آئل اور مکھن کے نام پر جو چیز بازار میں فروخت ہو رہی ہے وہ جانوروں کی بدبودار چربی کا غلیظ تیل ہے جسے جما کر اور فلیور (خوشبو) ڈال کر مکھن کے نام پر بیچا جارہا ہے۔ کس کس چیز کا ذکر کیا جائے۔ امریکہ و یورپ والوں کو ہم کافر، مرتد، بے غیرت اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ ان ملکوں میں کھانے پینے کی اشیاءمیں ذرا برابر ملاوٹ کرنے کا تصور بھی نہیں جا سکتا انہیں اپنی قوم کے نونہالوں، بوڑھوں اور جوانوں کا خیال ہے کہ کہیں ہماری قوم کے لوگ بیمار نہ پڑ جائیں لیکن ہمارے ہاں صرف پیسے اور دولت کی خاطر پوری قوم کی صحت اور زندگی کو داﺅ پر لگا دیا گیا ہے۔ ہمارا ایمان کہاں گھاس چرنے چلا گیا ہے؟ ہماری اسلام کی نعرے بازی جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ ہم لوگ اپنے ضمیر، دولت کی ہوس کے ہاتھوں بیچ چکے ہیں۔ بلال یٰسین کو بھی اپنے شعبے کا حق ادا کرنا چاہیے اور ایک ایسا کارنامہ انجام دینا چاہیے جسے پاکستانی عوام ہمیشہ یاد رکھیں اور اچھے الفاظ میں وزیرِ صحت بلال یٰسین کو یاد کریں۔ نبی مکرم نے فرمایا ہے کہ ”ملاوٹ کرنیوالا ہم میں سے نہیں“۔ گویا جو کوئی بھی ملاوٹ کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے چاہے وہ پانچ وقت کی نماز پڑھے، پورے روزے رکھے اور ہر سال حج و عمرہ کرتا رہے۔ اُسکی تمام عبادتیں ناقابلِ قبول ہیں کہ وہ رسول کریم کے بتائے ہوئے مذہب کے دائرے سے خارج ہو چکا ہے۔ ملاوٹ کرنے والوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ وہ سیدھے جہنم میں جائیں گے اور آقا کریم اُن کی شفاعت بھی نہیں کریں گے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024