مرض تو بلاشبہ وہی ہے جس کی نشاندہی ڈاکٹر طاہر القادری صاحب ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ایڈیٹروں اور کالم نگاروں کے ساتھ ایک طویل نشست میں کررہے تھے۔ کرپشن کے ذریعے مالامال ہونے دینے اور دھن، دھونس، دھاندلی کی بنیاد پر طاقت و اختیار والے اقتدار کی ساری منزلیں اپنے لئے آسان بنانے اور پھر اپنی من مانیوں اور اللوں تللوں کی خاطر عوام کو قومی وسائل اور سسٹم سے مستفید نہ ہونے دینے اور انہیں راندہ¿ درگاہ بنائے رکھنے کا مرض تو سسٹم کے ساتھ وابستہ ”جمہوری“ سلطانوں نے اپنے مفادات کے تحت اس معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلایا ہے مگر اس مرض کا سسٹم کو قصور وار ٹھہرا کر اس سے عوام کی خلاصی کرانے کی منطق پیش کی جائیگی تو لامحالہ منتخب جمہوری نظام کیخلاف ماضی میں ہونیوالی سازشوں کی طرف ہی دھیان جائیگا۔ مجھے سسٹم میں موجود خرابیوں کے پس منظر کے حوالے سے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فہم و ادراک سے مکمل اتفاق ہے مگر ان خرابیوں کے تدارک کیلئے آنیوالے انتخابات کو یکسر ترک کرکے اور جمہوریت کی بساط لیپٹ کر تین سال یا ضرورت پڑنے پر اس سے بھی زیادہ عرصے کیلئے عدلیہ اور سوسائٹی کے دیگر دانشور طبقات اور ٹیکنوکریٹ حضرات پر مشتمل کسی عبوری سیٹ اپ کو لانے کی تجویز پر ماضی کی گھمبیر سازشوں کا خیال آتے ہی میرا دل دھڑکا تو میں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر ڈاکٹر صاحب کے سامنے اس کا اظہار کردیا۔ کیا ہم پھر کسی ماورائے آئین غیرجمہوری اقدام و نظام کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ اگر ہمارا ادراک کہے کہ اب ایسا نہیں ہونا چاہئے اور سسٹم میں موجود خرابیوں کو اسی سسٹم میں رہ کر اور ہر مقررہ معیاد پر انتخابی عمل کو یقینی بناکر دور کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے مگر ڈاکٹر صاحب اس سسٹم کے خاتمے کے ذریعے اسکی خرابیوں سے عوام کو نجات دلانے کے ایجنڈے کے تحت 23 دسمبر کو ملک واپس آنے کا اعلان کررہے ہوں تو ”کہیں ویسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے“ کے دھڑکے کی بنیاد پر ڈاکٹر صاحب کے ایجنڈے کے بارے میں تجسس تو پیدا ہوگا، سو میں نے بے ساختہ انکے سامنے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ان سے پوچھ لیا کہ جمہوریت کیخلاف جو چارج شیٹ وہ پیش کررہے ہیں کہیں کسی بیرونی طاقت نے انہیں یہ چارج شیٹ لیکر پاکستان واپس آنے کی ترغیب تو نہیں دی جبکہ ماضی میں جمہوریت کیخلاف ایسی ہی چارج شیٹ ماورائے آئین اقدام والے لگاتے اور پھر اسکو جواز بنا کر اپنے جبر و تسلط والے اقتدار کے ذریعے ملک اور عوام پر مسلط ہوتے رہے ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس کا برا منانے اور چیں بجبیں ہونے کے بجائے میری باتوں میں موجود خدشے کو پکڑ لیا اور پھر پوری نشست میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے سسٹم کی تبدیلی کیلئے اپنے اخلاص کا یقین دلاتے رہے اور پھر آج صبح انہوں نے کینیڈا سے فون کرکے بھی اپنے پروگرام کے حوالے سے میرے خدشات دور کرنے کی کوشش کی۔ وہ ”سیاست نہیں، ریاست بچاﺅ“ کا ایجنڈہ لیکر اپنے فقید المثال استقبال کے اہتمام کے ساتھ 23 دسمبر کو لاہور کی سرزمین پر قدم رکھ رہے ہیں تو انکے ایجنڈے کا سنجیدگی سے جائزہ لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جمہوری نظام کے تابع پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں عوام کے حقیقی نمائندے نہیں، اپنے اپنے مفاد کے تحفظ کی خاطر ”سٹیٹس کو“ برقرار رکھنے کیلئے کوشاں استحصالی طبقات بشمول جاگیردار اور سرمایہ دار براجمان ہیں جو نہ صرف عوام کے روٹی روزگار، غربت، مہنگائی اور توانائی کے سنگین بحران پر مبنی ڈھیروں مسائل کے ذمہ دار ہیں بلکہ انکی پراگندہ ذہنیت کی عملداری سے پورا سسٹم متعفن ہو کر سڑاند چھوڑنے لگا تو انکے اس تجزئیے میں سب کچھ حقیقت ہی حقیقت ہے اور اس حقیقت کا اعتراف تو ان پراگندہ اقتداری بھائیوالوں کے اپنے ساتھی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اپنی گزشتہ سال کی بجٹ تقریر میں کرچکے ہیں جن کا یہ الزام آج اعداد و شمار کے ذریعے سچ ثابت ہو کر ایف بی آر کی زبانی حقیقت کے قالب میں ڈھل چکا ہے کہ منتخب ایوانوں (پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں) کے مجموعی ساڑھے گیارہ سو ارکان میں سے ساڑھے آٹھ سو کے قریب ارکان اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکسوں کا ایک دھیلا بھی قومی خزانے میں جمع کرانے کے روادار نہیں ہوتے۔ وہ منتخب فورموں پر عوام کی نہیں، صرف اپنے مفادات کی بات کرتے ہیں اور پھر ان مفادات کے تحفظ کیلئے ہاں میں ہاں ملا کر متفقہ قانون سازی کرتے ہیں۔اگر ڈاکٹر صاحب سیاسی قائدین کی وراثتی، خاندانی سیاست کو سسٹم میں موجود قباحتوں کی بنیاد گردانتے ہیں تو یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے اور اس سیاست کو اگلے جمہوری نظام میں مستحکم بنانے کیلئے ہی 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت اور اپوزیشن کے تمام قائدین و ارکان اس پر متفق ہوئے ہیں کہ کسی بھی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کی رکنیت اسکے پارٹی ہیڈ کی مرضی و منشاءکے تابع ہوگی۔ اگر کسی معمولی پالیسی اختلاف پر کوئی رکن اپنے پارٹی ہیڈ کی نگاہوں میں ناپسندیدہ ٹھہرے گا تو اسکے محض اشارہ¿ ابرو پر اپنی رکنیت سے نااہل ہوجائیگا۔ اگر حکمران طبقات میں کرپشن کلچر کا فروغ ڈاکٹر صاحب کو سسٹم کی خرابیوں کی بنیاد بنا نظر آتا ہے تو اس سے اختلاف کی کوئی ہلکی سی گنجائش بھی نہیں نکل سکتی۔ بھئی ہم اس معاملہ میں گنجائش نکالنے والے بھلا کون ہوتے ہیں جبکہ حکمرانوں کے اپنے نامزد کردہ چیئرمین نیب نے یہ کہہ کر انکی بداعمالیوں کا بھانڈہ بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا ہے کہ حکومتی سرپرستی میں روزانہ 6 سے 12 ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے۔ اگر ڈاکٹر طاہر القادری کا یہ تجزیہ ہے کہ سرکاری سرپرستی میں پھیلائے گئے اس کرپشن کلچر کے باعث ہی آج پاکستان کا شمار دنیا کے 32 ممالک سے بھی نیچے گرتے گرتے 23 ممالک کی فہرست میں ہونے لگا ہے تو اسکی تصدیق بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل، پلڈاٹ اور ملکی و قومی خرابیوں کے اعداد و شمار اکٹھے کرنیوالی دیگر عالمی و مقامی تنظیموں کی رپورٹوں کے ذریعے ہوچکی ہے اور یہ ساری وہ خرابیاں ہیں جو ریاست کی جڑوں کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔اس تناظر میں تو ہمیں سب سے پہلے ریاست کو بچانے کا ہی چارہ کرنا چاہئے جبکہ یہی ایجنڈہ لیکر ڈاکٹر طاہر القادری ملک واپس آرہے ہیں اور عوام کو گلے سڑے جمہوری نظام سے خلاصی پانے کی مسلسل تلقین کئے جا رہے ہیں مگر یہ ایجنڈہ عین اس موقع پر پایہ تکیمل کو پہنچانے کا طے کیا جا رہا ہے جب اگلے 90 روز میں عبوری نظام تشکیل پانے والا ہے۔ عوامی حلقوں میں پہلے ہی یہ قیاس آرائیاں چل رہی ہیں کہ موجودہ جمہوری نظام کا معاملہ اب عبوری نگران سیٹ اپ کی تشکیل تک کا ہی رہ گیا ہے۔ اس کے بعد ”نہ کل تمہاری باری ہے نہ کل بھی ہماری باری ہے۔“ اب ججوں، دانشوروں اور ٹیکنوکریٹس کے مجوزہ عبوری سیٹ اپ کا ایجنڈہ لیکر ڈاکٹر طاہر القادری ریاست بچانے کے نعرے کے تحت سیاست کا میدان گرمانے آرہے ہیں تو دل میں موہوم امیدوں سے زیادہ خدشات کا کیوں بسیرا نہیں ہوگا۔ اگر جمہوریت سے وابستہ سیاسی گماشتوں کے ہاتھوں جمہوریت کا مردہ خراب ہورہا ہے تو کیا ضروری ہے کہ کسی ”عبوری“ سیٹ اپ کو امرت دھارا بناکر اسکے کئی سال یا سالہاسال مسلط رہنے کا جواز نکال لیا جائے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سے میری دیرینہ نیاز مندی ہے اس لئے ان کی نیت اور خلوص پر میں کسی تشکیک میں نہیں پڑتا چاہتا مگر سسٹم کا مردہ ایسی سوچ اور ایسے اقدامات کے ذریعے ہی تو خراب ہوتا ہے حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری صاحب....!
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024