توفیق بٹ
دو روز قبل این آر او کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بنچ کے روبرو وفاق کے ”صدارتی وکیل“ کمال اظفر نے تحریری بیان دیا ”جمہوری نظام کو سی آئی اے اور جی ایچ کیو سے خطرہ ہے“۔ مجھے یقین تھا اگلے روز وفاق کے وکیل اس بیان کی تردید کر دیں گے سو وہی ہوا اگلے روز کسی وفاقی وزیر کی طرح کے وفاقی وکیل نے سپریم کورٹ میں اپنے گزشتہ بیان کی وضاحت بلکہ تردید کرتے ہوئے فرمایا ” موجودہ چیف آف دی آرمی سٹاف جنٹلمین ہیں اور جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے“ پہلے بیان میں انہوں نے چیف آف دی آرمی سٹاف کے بجائے سی آئی اے اور جی ایچ کیو کے نام لئے تھے جبکہ تردید میں آرمی چیف کا ذکر ہے۔
ویسے وفاق کے وکیل موجودہ آرمی چیف کے جنٹلمین ہونے کا ”انکشاف“ نہ بھی فرماتے تو کوئی فرق نہ پڑتا کہ موجودہ آرمی چیف نے جس انداز میں خود کو سیاست سے الگ تھلگ رکھا ہے اس سے قبل ایسی کوئی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔ ماضی میں سیاسی حکمرانوں کو مختلف احکامات جاری کرنے کے لئے جی ایچ کیو طلب کیا جاتا تھا اور سیاسی حکمران اسے اعزاز سمجھتے تھے۔ آج آرمی چیف کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ خود چل کر سیاسی حکمرانوں کے پاس آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے عوام اس یقین میں مبتلا ہیں کچھ بھی ہوا افواج پاکستان اپنا کردار سرحدوں کی حفاظت تک محدود رکھے گی، رکھنا بھی چاہئے۔ اس لئے کہ فوج کی بار بار مداخلت نے ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ملک کو ایسے مقام پر پہنچا دیا جہاں آسودگی اور عزت مندی کوسوں دور دکھائی دیتی ہے۔
فوج کے لئے عوام کے دل میں اچھے جذبات پیدا ہونے کی اور وجوہات بھی ہوں گی مگر یہ حقیقت ہے سب سے بڑی وجہ یہی ہے گزشتہ دو برسوں میں فوج نے خود کو سیاسی معاملات سے الگ تھلگ رکھا۔ ایک آدھ معاملے میں درپردہ مداخلت کی بھی تو وہ خالصتاً ملکی مفاد کا معاملہ تھا۔ عدلیہ کی بحالی کا وعدہ عوام سے افواج پاکستان نے نہیں کیا تھا مگر عدلیہ کو بحال کرنے کے لئے سیاسی حکومت پر دباو¿ ڈال کر موجودہ آرمی چیف نے ان زخموں پر مرہم رکھا جو عدلیہ پر سابقہ آرمی چیف نے اس نیت سے لگائے تھے کہ یہ زخم کبھی نہ بھر سکیں گے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس ضمن میں جو کردار ادا کیا اس سے عوام اس یقین میں بھی مبتلا ہو گئے کہ سابق آرمی چیف نے صدر مملکت کے روپ میں جو وار عدلیہ پر کئے تھے یہ ان کی ذاتی خواہش یا رنجش کا نتیجہ تھا ورنہ فوج یا روایتی طور پر اپنے چیف کے احکامات کے پابند کچھ جرنیل دل سے ایسا چاہتے تو حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی عدلیہ بحال نہ ہوتی، اس کے باوجود کہ عوام کا پریشر بڑا شدید تھا۔ عوام کے پریشرز تو اس سے قبل بھی کئی معاملات میں بڑے شدید تھے مگر ہوا وہی جو فوج یا جرنیلوں نے چاہا۔
آج عدلیہ آزاد ہے اور حکومت بھی آزاد ہے۔ اب اگر حکومت اپنی آزادی کو ”مادرپدر آزادی“ سمجھنا شروع کر دے اور یہ سمجھے عدلیہ یا دیگر ”موقر ادارے“ اس میں مداخلت نہ کریں تو میرے خیال میں کم از کم اب یہ اس لئے ممکن نہیں کہ عدلیہ اور کچھ موقر ادارے اب اس گندگی کا حصہ نہیں رہے جو ماضی میں سیاستدان ان کے ساتھ مل کر پھیلاتے رہے۔ سیاسی حکمران جو ناکام دکھائی دیتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے وہ ابھی تک پاکستان کو پہلے والا پاکستان سمجھتے ہیں جس کے عوام گونگے، بہرے اور اندھے تھے۔ ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے پاکستان اب سویا ہوا ملک نہیں جس کے حکمران اس کے ساتھ جیسا چاہیں سلوک کریں اور وہ خراٹے بھرتا رہے۔ پاکستان اب ایک جاگا ہوا ملک ہے جس کے عوام کی آنکھیں اور کان مکمل طور پر کھل چکے ہیں۔ وہ زبان بھی جو برسوں بند رہی اور جس کی وجہ سے ملک دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کی باری اب ان کی ہے جنہوں نے پاکستان کو ہمیشہ لوٹ مار کا بنیادی مرکز سمجھا اور اب بھی اس تاک میں ہیں کب عوام اور عدلیہ کی آنکھیں دوبارہ بند ہوں اور وہ رہے سہے، بچے کھچے پاکستان کو بھی اپنی جائیداد کا حصہ بنا لیں۔
وفاق کے وکیل ”جمہوری نظام“ کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔ ہم ان سے پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں یہ کون سا ”جمہوری نظام“ ہے جس میں سارے اختیارات ایک ہی شخص کے پاس ہیں؟ آرمی چیف کا صدر ہونا غلط ہے تو کسی صدر کو بھی یہ زیب نہیں دیتا کہ ملک کی سربراہی کے ساتھ ساتھ پارٹی کی سربراہی بھی پاس رکھے اور پھر دونوں کے لئے ہی نقصان دہ ثابت ہو جس ”جمہوری نظام“ کی بنیاد صرف اور صرف بدعنوانیوں پر ہو تو ایسے نظام کو سب سے بڑا خطرہ تو عوام سے ہوتا ہے۔ اس عوام سے جس کے نام پر سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں اور پھر اپنی بندوقوں کا رُخ انہی کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ وفاق کے وکیل اپنے ”اصل موکل“ سے پوچھ کر بتائیں دو سال میں عوام کو انہوں نے کیا ریلیف دیا اور خود کتنے ریلیف حاصل کئے؟ کیا یہ بھی درست نہیں جن اداروں کو آج وہ اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہیں اُنہی کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے تھے؟
دو روز قبل این آر او کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بنچ کے روبرو وفاق کے ”صدارتی وکیل“ کمال اظفر نے تحریری بیان دیا ”جمہوری نظام کو سی آئی اے اور جی ایچ کیو سے خطرہ ہے“۔ مجھے یقین تھا اگلے روز وفاق کے وکیل اس بیان کی تردید کر دیں گے سو وہی ہوا اگلے روز کسی وفاقی وزیر کی طرح کے وفاقی وکیل نے سپریم کورٹ میں اپنے گزشتہ بیان کی وضاحت بلکہ تردید کرتے ہوئے فرمایا ” موجودہ چیف آف دی آرمی سٹاف جنٹلمین ہیں اور جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے“ پہلے بیان میں انہوں نے چیف آف دی آرمی سٹاف کے بجائے سی آئی اے اور جی ایچ کیو کے نام لئے تھے جبکہ تردید میں آرمی چیف کا ذکر ہے۔
ویسے وفاق کے وکیل موجودہ آرمی چیف کے جنٹلمین ہونے کا ”انکشاف“ نہ بھی فرماتے تو کوئی فرق نہ پڑتا کہ موجودہ آرمی چیف نے جس انداز میں خود کو سیاست سے الگ تھلگ رکھا ہے اس سے قبل ایسی کوئی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔ ماضی میں سیاسی حکمرانوں کو مختلف احکامات جاری کرنے کے لئے جی ایچ کیو طلب کیا جاتا تھا اور سیاسی حکمران اسے اعزاز سمجھتے تھے۔ آج آرمی چیف کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ خود چل کر سیاسی حکمرانوں کے پاس آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے عوام اس یقین میں مبتلا ہیں کچھ بھی ہوا افواج پاکستان اپنا کردار سرحدوں کی حفاظت تک محدود رکھے گی، رکھنا بھی چاہئے۔ اس لئے کہ فوج کی بار بار مداخلت نے ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ملک کو ایسے مقام پر پہنچا دیا جہاں آسودگی اور عزت مندی کوسوں دور دکھائی دیتی ہے۔
فوج کے لئے عوام کے دل میں اچھے جذبات پیدا ہونے کی اور وجوہات بھی ہوں گی مگر یہ حقیقت ہے سب سے بڑی وجہ یہی ہے گزشتہ دو برسوں میں فوج نے خود کو سیاسی معاملات سے الگ تھلگ رکھا۔ ایک آدھ معاملے میں درپردہ مداخلت کی بھی تو وہ خالصتاً ملکی مفاد کا معاملہ تھا۔ عدلیہ کی بحالی کا وعدہ عوام سے افواج پاکستان نے نہیں کیا تھا مگر عدلیہ کو بحال کرنے کے لئے سیاسی حکومت پر دباو¿ ڈال کر موجودہ آرمی چیف نے ان زخموں پر مرہم رکھا جو عدلیہ پر سابقہ آرمی چیف نے اس نیت سے لگائے تھے کہ یہ زخم کبھی نہ بھر سکیں گے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس ضمن میں جو کردار ادا کیا اس سے عوام اس یقین میں بھی مبتلا ہو گئے کہ سابق آرمی چیف نے صدر مملکت کے روپ میں جو وار عدلیہ پر کئے تھے یہ ان کی ذاتی خواہش یا رنجش کا نتیجہ تھا ورنہ فوج یا روایتی طور پر اپنے چیف کے احکامات کے پابند کچھ جرنیل دل سے ایسا چاہتے تو حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی عدلیہ بحال نہ ہوتی، اس کے باوجود کہ عوام کا پریشر بڑا شدید تھا۔ عوام کے پریشرز تو اس سے قبل بھی کئی معاملات میں بڑے شدید تھے مگر ہوا وہی جو فوج یا جرنیلوں نے چاہا۔
آج عدلیہ آزاد ہے اور حکومت بھی آزاد ہے۔ اب اگر حکومت اپنی آزادی کو ”مادرپدر آزادی“ سمجھنا شروع کر دے اور یہ سمجھے عدلیہ یا دیگر ”موقر ادارے“ اس میں مداخلت نہ کریں تو میرے خیال میں کم از کم اب یہ اس لئے ممکن نہیں کہ عدلیہ اور کچھ موقر ادارے اب اس گندگی کا حصہ نہیں رہے جو ماضی میں سیاستدان ان کے ساتھ مل کر پھیلاتے رہے۔ سیاسی حکمران جو ناکام دکھائی دیتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے وہ ابھی تک پاکستان کو پہلے والا پاکستان سمجھتے ہیں جس کے عوام گونگے، بہرے اور اندھے تھے۔ ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے پاکستان اب سویا ہوا ملک نہیں جس کے حکمران اس کے ساتھ جیسا چاہیں سلوک کریں اور وہ خراٹے بھرتا رہے۔ پاکستان اب ایک جاگا ہوا ملک ہے جس کے عوام کی آنکھیں اور کان مکمل طور پر کھل چکے ہیں۔ وہ زبان بھی جو برسوں بند رہی اور جس کی وجہ سے ملک دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کی باری اب ان کی ہے جنہوں نے پاکستان کو ہمیشہ لوٹ مار کا بنیادی مرکز سمجھا اور اب بھی اس تاک میں ہیں کب عوام اور عدلیہ کی آنکھیں دوبارہ بند ہوں اور وہ رہے سہے، بچے کھچے پاکستان کو بھی اپنی جائیداد کا حصہ بنا لیں۔
وفاق کے وکیل ”جمہوری نظام“ کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔ ہم ان سے پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں یہ کون سا ”جمہوری نظام“ ہے جس میں سارے اختیارات ایک ہی شخص کے پاس ہیں؟ آرمی چیف کا صدر ہونا غلط ہے تو کسی صدر کو بھی یہ زیب نہیں دیتا کہ ملک کی سربراہی کے ساتھ ساتھ پارٹی کی سربراہی بھی پاس رکھے اور پھر دونوں کے لئے ہی نقصان دہ ثابت ہو جس ”جمہوری نظام“ کی بنیاد صرف اور صرف بدعنوانیوں پر ہو تو ایسے نظام کو سب سے بڑا خطرہ تو عوام سے ہوتا ہے۔ اس عوام سے جس کے نام پر سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں اور پھر اپنی بندوقوں کا رُخ انہی کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ وفاق کے وکیل اپنے ”اصل موکل“ سے پوچھ کر بتائیں دو سال میں عوام کو انہوں نے کیا ریلیف دیا اور خود کتنے ریلیف حاصل کئے؟ کیا یہ بھی درست نہیں جن اداروں کو آج وہ اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہیں اُنہی کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے تھے؟