خالد احمد
اللہ تبارک و تعالیٰ اناج میں کیڑا پیدا فرما دیتا ہے تاکہ لوگ اناج ذخیرہ نہ کر سکیں اور خلق خدا پر وہ ستم نہ توڑ سکیں جن کی حسرت لئے فرعون پانی کی لپیٹ میں آ کر تہ نشین ہو گئے! انسان آگے بڑھتا گیا! لوہا زمین الٹتا پلٹتا رہا، فصلیں پکتی رہیں، سر کٹتے رہے، گندم کے ذخائر، قبیلوں، قوموں حتیٰ کہ ملکوں کی قوت کا معیار ٹھہرتے رہے! ’لوہے‘ کا ساتھ دینے ’بارود‘ آگے آیا تو ’جنگ‘ محض ’خون کا سیلاب‘ نہیں رہی، ’آتش و آہن‘ کا کھیل بن گئی! حتیٰ کہ ہوا میں جنگی طیارے گدھوں، چیلوں اور کوﺅں کے طرح چکرانے اور انسانوں کے چیتھڑے اڑانے لگے اور ایک دن آیا کہ ”ہیروشیما“ اور ”ناگاساکی“ جل کر راکھ ہو گئے!
تابکار مادوں کی دریافت نے سائنس دانوں کا رخ زراعت کی طرف موڑ دیا تھا! وہ زرعی اجناس کے تحفظ کے لئے سینہ سپر ہو گئے! اناج کے ذخیروں میں تابکار مادے رکھ کر انہیں کیڑا لگنے سے محفوظ کر لیا گیا تاکہ گندم فلور ملز تک پہنچنے تک بالکل محفوظ رہے! اور لوگوں تک آٹا اور میدہ کسی آلائش کے بغیر پہنچایا جا سکے!ادھر ہماری فلور ملز نے سمندر کے راستے پہنچنے والی اور راستے میں سمندری پانی سے خراب ہو جانے والی گندم ان سمندری کیڑوں کے ساتھ پیس دی جو راستے میں اس گندم کے سہارے پھل پھول کر ”لال بیگ“ جتنے بڑے ہو چکے تھے اور اس سیاہ آٹے کا رنگ تبدیل کرنے کے لئے ان کے ساتھ ’چاک‘ پیس کر اسے ’میدے‘ کا ہم رنگ بنا دیا، لوگوں کی چیخ و پکار پر ہمارے ’زرعی ماہرین‘ نے بتایا کہ یہ درآمدہ گندم ’پروٹین‘ زیادہ ہونے کے باعث ایسی ہو گئی اور اسے ’آٹا‘ کی جگہ ’پراٹا‘ کہنا زیادہ اچھا ہو گا! ہمارے ماہرین سچ کہہ رہے تھے کہ اس پروٹین کا ’منبع‘ وہی ’کیڑے مکوڑے‘ تھے! یہ واقعی ’آٹا‘ نہیں ’پراٹا‘ تھا!نفع اندوزوں نے درآمدہ گندم کے ساتھ چھان بورے، نانوں اور روٹیوں کے سوکھے ٹکڑے بھی ’گیہوں‘ کے ساتھ ’گھن‘ کی طرح پیس ڈالے! ’فوڈ‘ اور ’گرین‘ انسپکٹرز اب فلور ملز میں قدم رکھنے سے بھی کتراتے ہیں اور ’داد‘ پاتے ہیں!
سائنس کی ترقی کے تقابل میں ہم نے جلب منفعت کے ارتقا میں دلچسپی ظاہر کی، سائنس ابھی تک وہ مدارج طے نہیں کر پائی جن مدارج سے گزر کر ہم اوج کمال پر تخت نشین ہو گئے تھے!اگر ہمیں سچ کہنے کی اجازت ہو تو ہمیں یہ کہنے کی بھی اجازت دی جائے کہ پاکستانی عوام کی بے حرمتی کے دور کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھوں ہوا اور پاکستانی عوام کی موجودہ ’اجتماعی بے حرمتی‘ کا انجام بھی ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ کے سر کا تاج بننے والا ہے! ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ قاف لیگ کے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے!ہمارا ذہن کہتاہے کہ قاف لیگ بہت جلد نون لیگ کے ساتھ مل بیٹھے گی! کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے سنیٹر، جیالے اراکین قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے جیالے ارکان پاکستان مسلم لیگ ق اور نون سے بیک وقت ’الرجک‘ ہیں اور یہ ’الرجی‘ روز کے روز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
جناب نواز شریف پر جناب آصف علی زرداری کا ’اظہار عدم اعتماد‘ الفاظ کی بلندی سے اتر کر ’اعمال‘ کی پستی کی طرف سفر فرما ہے اور بہت جلد بلی تھیلے سے باہر آنے والی ہے!بلی، تھیلے سے باہر آ کر کیا کرے گی؟ تھیلے کا منہ کھولنے والے پر جھپٹ پڑے گی؟ یا، ہجوم میں راستہ تلاش کرتی دوبارہ ایوان صدر کے کسی کونے کھدرے میں جا چھپے گی؟ یا، دوبارہ کسی اور تھیلے میں جا گھسے گی؟ ہم اس کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ سوال تو ’بلی‘ ہی جواب آشنا کر سکتی ہے!
ہم نے تو آج یہ ساری تمہید صرف اس لئے باندھی ہے کہ آپ تک صرف ایک پیغام پہنچا سکیں اور وہ یہ کہ بازار سے خریدے گئے پھل اور سبزیاں گھر پہنچتے ہی پانی سے کئی کئی بار دھونے کے بعد استعمال کریں کیونکہ ان کے ’ذخیرہ کار‘ یہ پھل اور سبزیاں ذخیرہ کرتے وقت ان پر ان جراثیم کش ادویات کا چھڑکاﺅ نئے سرے سے کر دیتے ہیں، جو ان کے پودوں اور پھلوں پر 2 ماہ پہلے کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ان پر کوئی اور ’سپرے‘ \\\"spray\\\" نہیں کیا جاتا، تاکہ اس مدت کے دوران ان ادویہ کے ’مضر صحت انسانی‘ زہریلے اثرات تقریباً نابود ہو جائیں! اور اس ہدایت پر سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے!
بلاشبہ ’ذخیرہ کاری‘ ایک ’علم‘ ہے مگر اسے ’علم‘ ہی رہنے دینا چاہئے، اسے ’جہل‘ بنا کر صرف ’نفع اندوزی‘ کے کام لانے سے روکا جانا اشد ضروری ہے! کیونکہ ’دکاندار‘ پر لازم ہے کہ وہ اپنے ’خریدار‘ زندہ رہنے دے! بالکل اسی طرح، جیسے ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ پر لازم ہے کہ وہ ’پاکستانی قوم‘ کو زندہ رہنے دے! تاکہ وہ اسے ’ووٹ‘ دینے کا کام کرتی رہے! ورنہ نتیجہ صاف ظاہر ہے! اگر نتیجہ انتخابات سے پہلے حاصل کرنا ہو تو بازار میں دستیاب آٹے کی کیمیائی تجزیات کی رپورٹ منظر عام پر لے آئی جائے تاکہ کل کی بات آج کھل جائے اور نتیجہ ’آﺅٹ‘ کر دینے پر کچھ لوگ ’معطل‘ کئے جا سکیں!
اللہ تبارک و تعالیٰ اناج میں کیڑا پیدا فرما دیتا ہے تاکہ لوگ اناج ذخیرہ نہ کر سکیں اور خلق خدا پر وہ ستم نہ توڑ سکیں جن کی حسرت لئے فرعون پانی کی لپیٹ میں آ کر تہ نشین ہو گئے! انسان آگے بڑھتا گیا! لوہا زمین الٹتا پلٹتا رہا، فصلیں پکتی رہیں، سر کٹتے رہے، گندم کے ذخائر، قبیلوں، قوموں حتیٰ کہ ملکوں کی قوت کا معیار ٹھہرتے رہے! ’لوہے‘ کا ساتھ دینے ’بارود‘ آگے آیا تو ’جنگ‘ محض ’خون کا سیلاب‘ نہیں رہی، ’آتش و آہن‘ کا کھیل بن گئی! حتیٰ کہ ہوا میں جنگی طیارے گدھوں، چیلوں اور کوﺅں کے طرح چکرانے اور انسانوں کے چیتھڑے اڑانے لگے اور ایک دن آیا کہ ”ہیروشیما“ اور ”ناگاساکی“ جل کر راکھ ہو گئے!
تابکار مادوں کی دریافت نے سائنس دانوں کا رخ زراعت کی طرف موڑ دیا تھا! وہ زرعی اجناس کے تحفظ کے لئے سینہ سپر ہو گئے! اناج کے ذخیروں میں تابکار مادے رکھ کر انہیں کیڑا لگنے سے محفوظ کر لیا گیا تاکہ گندم فلور ملز تک پہنچنے تک بالکل محفوظ رہے! اور لوگوں تک آٹا اور میدہ کسی آلائش کے بغیر پہنچایا جا سکے!ادھر ہماری فلور ملز نے سمندر کے راستے پہنچنے والی اور راستے میں سمندری پانی سے خراب ہو جانے والی گندم ان سمندری کیڑوں کے ساتھ پیس دی جو راستے میں اس گندم کے سہارے پھل پھول کر ”لال بیگ“ جتنے بڑے ہو چکے تھے اور اس سیاہ آٹے کا رنگ تبدیل کرنے کے لئے ان کے ساتھ ’چاک‘ پیس کر اسے ’میدے‘ کا ہم رنگ بنا دیا، لوگوں کی چیخ و پکار پر ہمارے ’زرعی ماہرین‘ نے بتایا کہ یہ درآمدہ گندم ’پروٹین‘ زیادہ ہونے کے باعث ایسی ہو گئی اور اسے ’آٹا‘ کی جگہ ’پراٹا‘ کہنا زیادہ اچھا ہو گا! ہمارے ماہرین سچ کہہ رہے تھے کہ اس پروٹین کا ’منبع‘ وہی ’کیڑے مکوڑے‘ تھے! یہ واقعی ’آٹا‘ نہیں ’پراٹا‘ تھا!نفع اندوزوں نے درآمدہ گندم کے ساتھ چھان بورے، نانوں اور روٹیوں کے سوکھے ٹکڑے بھی ’گیہوں‘ کے ساتھ ’گھن‘ کی طرح پیس ڈالے! ’فوڈ‘ اور ’گرین‘ انسپکٹرز اب فلور ملز میں قدم رکھنے سے بھی کتراتے ہیں اور ’داد‘ پاتے ہیں!
سائنس کی ترقی کے تقابل میں ہم نے جلب منفعت کے ارتقا میں دلچسپی ظاہر کی، سائنس ابھی تک وہ مدارج طے نہیں کر پائی جن مدارج سے گزر کر ہم اوج کمال پر تخت نشین ہو گئے تھے!اگر ہمیں سچ کہنے کی اجازت ہو تو ہمیں یہ کہنے کی بھی اجازت دی جائے کہ پاکستانی عوام کی بے حرمتی کے دور کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھوں ہوا اور پاکستانی عوام کی موجودہ ’اجتماعی بے حرمتی‘ کا انجام بھی ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ کے سر کا تاج بننے والا ہے! ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ قاف لیگ کے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے!ہمارا ذہن کہتاہے کہ قاف لیگ بہت جلد نون لیگ کے ساتھ مل بیٹھے گی! کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے سنیٹر، جیالے اراکین قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے جیالے ارکان پاکستان مسلم لیگ ق اور نون سے بیک وقت ’الرجک‘ ہیں اور یہ ’الرجی‘ روز کے روز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
جناب نواز شریف پر جناب آصف علی زرداری کا ’اظہار عدم اعتماد‘ الفاظ کی بلندی سے اتر کر ’اعمال‘ کی پستی کی طرف سفر فرما ہے اور بہت جلد بلی تھیلے سے باہر آنے والی ہے!بلی، تھیلے سے باہر آ کر کیا کرے گی؟ تھیلے کا منہ کھولنے والے پر جھپٹ پڑے گی؟ یا، ہجوم میں راستہ تلاش کرتی دوبارہ ایوان صدر کے کسی کونے کھدرے میں جا چھپے گی؟ یا، دوبارہ کسی اور تھیلے میں جا گھسے گی؟ ہم اس کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ سوال تو ’بلی‘ ہی جواب آشنا کر سکتی ہے!
ہم نے تو آج یہ ساری تمہید صرف اس لئے باندھی ہے کہ آپ تک صرف ایک پیغام پہنچا سکیں اور وہ یہ کہ بازار سے خریدے گئے پھل اور سبزیاں گھر پہنچتے ہی پانی سے کئی کئی بار دھونے کے بعد استعمال کریں کیونکہ ان کے ’ذخیرہ کار‘ یہ پھل اور سبزیاں ذخیرہ کرتے وقت ان پر ان جراثیم کش ادویات کا چھڑکاﺅ نئے سرے سے کر دیتے ہیں، جو ان کے پودوں اور پھلوں پر 2 ماہ پہلے کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ان پر کوئی اور ’سپرے‘ \\\"spray\\\" نہیں کیا جاتا، تاکہ اس مدت کے دوران ان ادویہ کے ’مضر صحت انسانی‘ زہریلے اثرات تقریباً نابود ہو جائیں! اور اس ہدایت پر سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے!
بلاشبہ ’ذخیرہ کاری‘ ایک ’علم‘ ہے مگر اسے ’علم‘ ہی رہنے دینا چاہئے، اسے ’جہل‘ بنا کر صرف ’نفع اندوزی‘ کے کام لانے سے روکا جانا اشد ضروری ہے! کیونکہ ’دکاندار‘ پر لازم ہے کہ وہ اپنے ’خریدار‘ زندہ رہنے دے! بالکل اسی طرح، جیسے ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ پر لازم ہے کہ وہ ’پاکستانی قوم‘ کو زندہ رہنے دے! تاکہ وہ اسے ’ووٹ‘ دینے کا کام کرتی رہے! ورنہ نتیجہ صاف ظاہر ہے! اگر نتیجہ انتخابات سے پہلے حاصل کرنا ہو تو بازار میں دستیاب آٹے کی کیمیائی تجزیات کی رپورٹ منظر عام پر لے آئی جائے تاکہ کل کی بات آج کھل جائے اور نتیجہ ’آﺅٹ‘ کر دینے پر کچھ لوگ ’معطل‘ کئے جا سکیں!