ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
ہم ایک گمشدہ قوم ہیں۔ ہم اپنے آپ کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ گمشدگی ایک کیفیت ہے مگر ہمارے ہاں تو یہ ایک سانحہ بن گیا ہے۔ دن دیہاڑے کسی آدمی کو اٹھا لیا جاتا ہے اور اسے گم کر دیا جاتا ہے۔ اس کے پیارے اس کے بچے، بیوی، ماں، باپ، بہن بھائی اور دوست یار اسے تلاش کرتے ہوئے خود گمشدہ حالت میں پہنچ جاتے ہیں مگر اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ہماری ریاست ہماری عدالت بے بس ہے ہماری حکومت بے حس ہے۔ بے چاری آمنہ جنجوعہ پکار پکار کر خود ایک سہمی ہوئی چیخ کی بازگشت بن چکی ہے۔ پوری دنیا میں ایک شور مچا ہوا ہے۔ کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں ہمارے اپنے یہ ظلم کر رہے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں ہمارا ایک صدر جنرل مشرف اپنی کتاب میں فخریہ لکھ چکا ہے کہ میں نے امریکہ سے ڈالر لے کے اپنے کئی بندے مرد اور عورتیں امریکہ کے حوالے کئے ہیں۔
میں خواب دیکھنے والا آدمی ہوں۔ اپنے اندر اپنے آپ کو تلاش کرتا پھرتا ہوں۔ اپنی گمشدگی سے لطف لیتا ہے اپنے باہر گم ہونا ایک قیامت ہے۔ یہ قیامت ان پر گزرتی ہے جو نہ مر سکتے ہیں نہ جی سکتے ہیں۔ ایک شاعر ہے مرزا غالب، وہ کہتا ہے ....
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
یہ ذاتی معاملہ ہے مگر حکمرانوں نے اپنے اندر ذاتی مفاد کے لئے لوگوں پر زندگی حرام کر دی ہے۔ میرا ایک شعر مجھے بھولا ہوا تھا اچانک یاد آ گیا ہے۔ ....
ہری بھری آنکھوں میں اجمل گمشدگی کا عالم ہے
ایک ہراس ہر اک چوکھٹ پہ ملی جلی آوازوں کا
یہ کالم اپنے بھائی حفیظ قریشی کے ایک عزیز کی گمشدگی پہ لکھ رہا ہوں۔ آپ یہ بات سن لیں ہندوستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر ڈاکٹر خوشونت سنگھ نے ایک کتاب لکھی ہے \\\"End of India\\\" (بھارت کا خاتمہ) یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ تنگ نظر ظالم بزدل اور منافق ہندو گم ہونے والے ہیں۔ اسی بہادر آدمی کا یہ جملہ سنیں ”1947ءسے پہلے مسلمان ایک قوم تھے اور انہیں ایک ملک کی تلاش تھی۔ اب ان کے پاس ایک ملک ہے اور وہ اپنی قوم ڈھونڈتے پھرتے ہیں“ ہم ایسے بدقسمت ہیں کہ ہم اپنے بندے تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ تقسیم ملک کے وقت کئی لوگ مرد عورتیں گم ہو گئی تھیں۔ انہیںاب تک تلاش کرنے والے خود کہیں گم ہو گئے ہیں۔ یہ جدائی ہے۔ جدائی ختم ہونے والی ہو تو وہ ایک بہترین کیفیت ہے مگر ہمیں بدترین حالت میں پہنچا دیا گیا ہے۔
گمشدہ لوگوں کا شور مچا ہے وہ جو حفاظت کرنے والے ہیں حکمران ہیں بااختیار ہیں۔ کہتے ہیں ہمیں پتہ نہیں تو پھر کس کو پتہ ہے وہ جو اٹھا کے لے جانے والے تھے انہیں پتہ نہیں مگر یہ تو جرم ہے کہ کسی کو جرم کے بغیر کسی قانونی اجازت کے بغیر اسکو اٹھایا ہی کیوں گیا تھا۔ کیا عدالت نے ان آدمیوں کو پکڑا۔ ان سے پوچھا اب تو آمنہ جنجوعہ بھی تھک چکی ہے۔ طارق محمود ایڈووکیٹ نے بھی اپنے عزیز حافظ اشفاق احمدکی گمشدگی کی اطلاع آمنہ جنجوعہ کو دی ہے۔ یہ محترم خاتون کس قدر معتبر ہو چکی ہے کہ درد کے مارے لوگوں کو کسی پر اعتبار نہیں۔ آمنہ بھی اپنے گمشدہ شوہر کے لئے بھٹک رہی ہے مگر اپنی جھولی میں سارے دکھ اس نے اکٹھے کر لئے ہیں۔ دکھ غمگسار ہوتے ہیں دوست ہوتے ہیں۔ دکھوں کو دشمن کس نے بنا دیا ہے۔ اس ملک میں زندگی کو بھی دوست نہیں رہنے دیا گیا۔
27 مارچ 2009ءکو حافظ اشفاق احمد کو ایلیٹ فورس کے جوانوں نے روکا اور گم کر دیا۔ ان لوگوں سے پوچھا جائے کہ تم اسے کہاں لے گئے تھے۔ حافظ اشفاق جامعہ مدینہ رائے ونڈ سے اپنے چھ ساتھیوں کے ساتھ گا¶ں جانے کے لئے نکلا۔ ضلع حافظ آباد کے دریائے چناب پر واقع گا¶ں نارووال جانے کے لئے بس میں سوار ہوئے۔ بادامی باغ کے لاری اڈے سے نکلے ہی تھے کہ پکڑے گئے۔ انہوں نے انہی سات مولویوں کو باہر نکال لیا ورنہ لاری میں اور بھی داڑھی ٹوپی والے لوگ تھے۔ یہ بات المیہ ہے۔ پہلے اس روپ میں لوگ بڑے محترم ہوتے تھے۔ اب مشکوک ہو چکے ہیں۔ داڑھی والوں سے سوال ہوتا ہے کہ تم درود والے مولوی ہو یا بارود والے؟ پولیس والوں میں بھی کئی لوگ داڑھی والے ہوتے ہیں تو پھر یہ توہین کیا ہے۔ دہشت گردوں میں بغیر داڑھی کے لوگ بھی ہیں۔ یہ جو غدار ہیں یہ بھی دہشت گرد ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے ایجنٹ پیسے لے کر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اتنے ظالم صرف امریکی اور ہندو ہو سکتے ہیں یہاں پر معاملہ مولویوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ بھی سازش ہے۔ غداروں کو تلاش کیا جائے اور قوم و ملک کا سودا کرنے والوں پر نظر کھی جائے۔
ان جوانوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کے نجانے کہاں لے جایا گیا۔ ایک مہینے کے بعد چھ لوگوں کو چھوڑ دیا گیا۔ ان سے سادہ کاغذ پر دستخط کرائے گئے ان کو پتہ نہیں کہ ہمارا ساتواں ساتھی اشفاق کہاں ہے اس کے عزیز کتنے سادہ ہیں کہ کئی مہینے اس کی واپسی کی دعائیں کرنے میں لگے رہے۔ ساڑھے سات مہینے کے بعد ہائی کورٹ میں رٹ کی۔ طارق محمود ایڈووکیٹ نے یہ بھی بتایا ہے کہ 19 اکتوبر کو مفتی کاشف ندیم اور حافظ مبشر نسیم بھی گم ہو گئے ہیں۔ وہ جامعہ محمدیہ چوبرجی میں مدرس تھے۔ وہ کیا بم دھماکہ کریں گے ان کی اچانک گمشدگی گھر والوں کے لئے دھماکے سے کم نہیں ہماری پولیس ان لوگوں کو کمزور جان کے پکڑتی ہے جیسے بے قصور لوگوں پر جھوٹا مقدمہ بنا کے جیل بھجواتی ہے۔
ہم ایک گمشدہ قوم ہیں۔ ہم اپنے آپ کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ گمشدگی ایک کیفیت ہے مگر ہمارے ہاں تو یہ ایک سانحہ بن گیا ہے۔ دن دیہاڑے کسی آدمی کو اٹھا لیا جاتا ہے اور اسے گم کر دیا جاتا ہے۔ اس کے پیارے اس کے بچے، بیوی، ماں، باپ، بہن بھائی اور دوست یار اسے تلاش کرتے ہوئے خود گمشدہ حالت میں پہنچ جاتے ہیں مگر اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ہماری ریاست ہماری عدالت بے بس ہے ہماری حکومت بے حس ہے۔ بے چاری آمنہ جنجوعہ پکار پکار کر خود ایک سہمی ہوئی چیخ کی بازگشت بن چکی ہے۔ پوری دنیا میں ایک شور مچا ہوا ہے۔ کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں ہمارے اپنے یہ ظلم کر رہے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں ہمارا ایک صدر جنرل مشرف اپنی کتاب میں فخریہ لکھ چکا ہے کہ میں نے امریکہ سے ڈالر لے کے اپنے کئی بندے مرد اور عورتیں امریکہ کے حوالے کئے ہیں۔
میں خواب دیکھنے والا آدمی ہوں۔ اپنے اندر اپنے آپ کو تلاش کرتا پھرتا ہوں۔ اپنی گمشدگی سے لطف لیتا ہے اپنے باہر گم ہونا ایک قیامت ہے۔ یہ قیامت ان پر گزرتی ہے جو نہ مر سکتے ہیں نہ جی سکتے ہیں۔ ایک شاعر ہے مرزا غالب، وہ کہتا ہے ....
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
یہ ذاتی معاملہ ہے مگر حکمرانوں نے اپنے اندر ذاتی مفاد کے لئے لوگوں پر زندگی حرام کر دی ہے۔ میرا ایک شعر مجھے بھولا ہوا تھا اچانک یاد آ گیا ہے۔ ....
ہری بھری آنکھوں میں اجمل گمشدگی کا عالم ہے
ایک ہراس ہر اک چوکھٹ پہ ملی جلی آوازوں کا
یہ کالم اپنے بھائی حفیظ قریشی کے ایک عزیز کی گمشدگی پہ لکھ رہا ہوں۔ آپ یہ بات سن لیں ہندوستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر ڈاکٹر خوشونت سنگھ نے ایک کتاب لکھی ہے \\\"End of India\\\" (بھارت کا خاتمہ) یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ تنگ نظر ظالم بزدل اور منافق ہندو گم ہونے والے ہیں۔ اسی بہادر آدمی کا یہ جملہ سنیں ”1947ءسے پہلے مسلمان ایک قوم تھے اور انہیں ایک ملک کی تلاش تھی۔ اب ان کے پاس ایک ملک ہے اور وہ اپنی قوم ڈھونڈتے پھرتے ہیں“ ہم ایسے بدقسمت ہیں کہ ہم اپنے بندے تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ تقسیم ملک کے وقت کئی لوگ مرد عورتیں گم ہو گئی تھیں۔ انہیںاب تک تلاش کرنے والے خود کہیں گم ہو گئے ہیں۔ یہ جدائی ہے۔ جدائی ختم ہونے والی ہو تو وہ ایک بہترین کیفیت ہے مگر ہمیں بدترین حالت میں پہنچا دیا گیا ہے۔
گمشدہ لوگوں کا شور مچا ہے وہ جو حفاظت کرنے والے ہیں حکمران ہیں بااختیار ہیں۔ کہتے ہیں ہمیں پتہ نہیں تو پھر کس کو پتہ ہے وہ جو اٹھا کے لے جانے والے تھے انہیں پتہ نہیں مگر یہ تو جرم ہے کہ کسی کو جرم کے بغیر کسی قانونی اجازت کے بغیر اسکو اٹھایا ہی کیوں گیا تھا۔ کیا عدالت نے ان آدمیوں کو پکڑا۔ ان سے پوچھا اب تو آمنہ جنجوعہ بھی تھک چکی ہے۔ طارق محمود ایڈووکیٹ نے بھی اپنے عزیز حافظ اشفاق احمدکی گمشدگی کی اطلاع آمنہ جنجوعہ کو دی ہے۔ یہ محترم خاتون کس قدر معتبر ہو چکی ہے کہ درد کے مارے لوگوں کو کسی پر اعتبار نہیں۔ آمنہ بھی اپنے گمشدہ شوہر کے لئے بھٹک رہی ہے مگر اپنی جھولی میں سارے دکھ اس نے اکٹھے کر لئے ہیں۔ دکھ غمگسار ہوتے ہیں دوست ہوتے ہیں۔ دکھوں کو دشمن کس نے بنا دیا ہے۔ اس ملک میں زندگی کو بھی دوست نہیں رہنے دیا گیا۔
27 مارچ 2009ءکو حافظ اشفاق احمد کو ایلیٹ فورس کے جوانوں نے روکا اور گم کر دیا۔ ان لوگوں سے پوچھا جائے کہ تم اسے کہاں لے گئے تھے۔ حافظ اشفاق جامعہ مدینہ رائے ونڈ سے اپنے چھ ساتھیوں کے ساتھ گا¶ں جانے کے لئے نکلا۔ ضلع حافظ آباد کے دریائے چناب پر واقع گا¶ں نارووال جانے کے لئے بس میں سوار ہوئے۔ بادامی باغ کے لاری اڈے سے نکلے ہی تھے کہ پکڑے گئے۔ انہوں نے انہی سات مولویوں کو باہر نکال لیا ورنہ لاری میں اور بھی داڑھی ٹوپی والے لوگ تھے۔ یہ بات المیہ ہے۔ پہلے اس روپ میں لوگ بڑے محترم ہوتے تھے۔ اب مشکوک ہو چکے ہیں۔ داڑھی والوں سے سوال ہوتا ہے کہ تم درود والے مولوی ہو یا بارود والے؟ پولیس والوں میں بھی کئی لوگ داڑھی والے ہوتے ہیں تو پھر یہ توہین کیا ہے۔ دہشت گردوں میں بغیر داڑھی کے لوگ بھی ہیں۔ یہ جو غدار ہیں یہ بھی دہشت گرد ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے ایجنٹ پیسے لے کر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اتنے ظالم صرف امریکی اور ہندو ہو سکتے ہیں یہاں پر معاملہ مولویوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ بھی سازش ہے۔ غداروں کو تلاش کیا جائے اور قوم و ملک کا سودا کرنے والوں پر نظر کھی جائے۔
ان جوانوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کے نجانے کہاں لے جایا گیا۔ ایک مہینے کے بعد چھ لوگوں کو چھوڑ دیا گیا۔ ان سے سادہ کاغذ پر دستخط کرائے گئے ان کو پتہ نہیں کہ ہمارا ساتواں ساتھی اشفاق کہاں ہے اس کے عزیز کتنے سادہ ہیں کہ کئی مہینے اس کی واپسی کی دعائیں کرنے میں لگے رہے۔ ساڑھے سات مہینے کے بعد ہائی کورٹ میں رٹ کی۔ طارق محمود ایڈووکیٹ نے یہ بھی بتایا ہے کہ 19 اکتوبر کو مفتی کاشف ندیم اور حافظ مبشر نسیم بھی گم ہو گئے ہیں۔ وہ جامعہ محمدیہ چوبرجی میں مدرس تھے۔ وہ کیا بم دھماکہ کریں گے ان کی اچانک گمشدگی گھر والوں کے لئے دھماکے سے کم نہیں ہماری پولیس ان لوگوں کو کمزور جان کے پکڑتی ہے جیسے بے قصور لوگوں پر جھوٹا مقدمہ بنا کے جیل بھجواتی ہے۔