رفیق ڈوگر
برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کی حکمرانی کے خاتمہ کا آغاز کہاں سے اور کیسے ہوا تھا؟ جعفر از بنگال سے ہوا تھا نا؟ وہی جعفر جس کے انگریزوں کے ساتھ معاہدے کی نقل مشرقی پاکستان کے ایک اخبار کے ایڈیٹر نے اپنے بنگلہ بندھو کے بھارت کے ساتھ دوستی کے معاہدے کے ساتھ رکھ کر چھاپ دی تھی اور پڑھنے والے ان میں کوئی بھی فرق تلاش نہیں کر سکے تھے وہی جس کے بارے میں ”جعفر از بنگال ننگ قوم ننگ دین ننگ وطن“ والا شعر ہے۔
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ قوم ننگ دین ننگ وطن
اس میر جعفر نے کیا کیا تھا؟ حاکم بنگال کا بیٹا کم سن تھا اس نے وفات کے وقت اپنے داماد میر جعفر کو اپنے بیٹے کا سرپرست بنا دیا تھا۔ حاکم بنگال کی وفات کے بعد اس کا کم سن بیٹا سراج الدولہ حاکم بن گیا میر جعفر نے انگریزوں کے ساتھ مل کر اسے مروا دیا تھا۔ جنگ پلاسی میں حاکم بنگال سراج الدولہ کے بہنوئی اور فوجوں کے کمانڈر میر جعفر اپنی زیر کمان فوج کے ساتھ میدان جنگ سے دور کھڑے تماشئہ ذلت دیکھتے رہے کلائیو کے زیرکمان ایسٹ انڈیا کمپنی کے مختصر سے دستہ نے جنگ جیت لی کم سن حاکم بنگال میدان جنگ سے بھاگ گیا۔ پکڑا گیا اور مار دیا گیا۔ اور اس کا بہنوئی میر جعفر حاکم بنگال بنا دیا گیا تھا اسی طرح جس طرح اندرا نے شیخ مجیب کو بنگلہ بندھو بنا دیا تھا تو شیخ مجیب میر جعفر سے مختلف معاہدہ کیسے کر سکتا تھا؟ برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت کے خاتمہ کا آغاز وہاں سے ہوا تھا اور پلاسی کی جنگ جیت کر میر جعفر کو حاکم بنگال بنانے اور اس سے دوستی کا معاہدہ کرنے والے کلائیو نے جس کی خدمات کے عوض اسے لارڈ بنا دیا گیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو کامیابی کا ایک نسخہ لکھ کر دیا تھا جو اس نے ہر جگہ استعمال کیا اور اس کے بعد سے مغرب کی سامراجی تہذیب والے‘ ہر جگہ استعمال کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر لارڈ کلائیو نے کمپنی کے مالکان سے کہا تھا کہ ”جس بھی حاکم کو اس کے عوام کی حمایت حاصل نہ ہو اس کا ساتھ دو لیکن ساتھ ہی اس کے دشمن سے بھی دوستی کا معاہدہ کر لو اور اس حاکم کو بتا دو کہ اگر تم نے ہماری شرائط کے مطابق ہمارے احکام پر عمل نہ کیا تو ہم تمہارا ساتھ چھوڑ دیں گے اور تمہاری جگہ تمہارے دشمن یا حاکمیت کی خواہش رکھنے والے کو لے آئیں گے دیکھ لو وہ ہماری ہر شرط ماننے کو تیار ہے“ اس نے لکھا تھا کہ ”اس سے عوامی حمایت سے محروم حاکم تمہاری ہر شرط مانتا جائے گا لیکن اگر کسی مرحلہ پر وہ کوئی حکم ماننے سے معذرت کر لے تو سراج الدولہ کی جگہ میر جعفر کو لے آﺅ اسے سراج الدولہ کے انجام کا بھی پتہ ہو گا وہ تمہاری امداد کا بھی محتاج ہو گا اور تمہارا ہر حکم مانتا رہے گا“ یہ فارمولہ اس کی سوانح حیات میں موجود ہے جو اب بہت ہی نایاب ہے اور جنرل صفدر بٹ مرحوم امریکن کانگریس کی لائبریری سے اس کی میرے لئے فوٹو کاپی کروا لائے تھے۔ سراج الدولہ کو اس کے عوام کی حمایت کیوں حاصل نہیں تھی؟ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ بنگال کے عوام بھوکے مر رہے تھے اور وہ ٹیکسوں سے اور پٹ سن اور چائے کی تجارت پر قابض بیرونی کمپنیوں سے مل کر مال جمع کر رہا تھا اس کی موت کے بعد کلائیو کے دستے کئی روز تک اس کے محل اور خزانہ سے زر و جواہر اور سونا چاندی اور روپے خفیہ خانوں سے نکال نکال کر ہاتھیوں پر لاد لاد کر لے جاتے رہے تھے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہیڈ کوارٹر میں :
دین گنوایا دنی پہ
دنی نہ چلی ساتھ
لوٹ کھسوٹ کا وہی مال و زر سراج الدولہ کے زوال اور موت کا سبب بن گیا تھا مگر وسیع و عریض برصغیر کے کسی بھی حاکم اور راجہ مہاراجہ نے اس سے عبرت نہیں حاصل کی تھی انہوں نے ہی کیا مسلم دنیا میں ابھی تک کسی نے نہیں سیکھی۔ لارڈ کلائیو ہم جنس پرست تھا پیرس کے ہم جنس پرستوں کے کلب کی اعزازی رکنیت حاصل کرنے کے لئے اس نے اس فن کا سخت ترین ٹیسٹ کسی اعلیٰ درجہ میں پاس کیا تھا اس کا حال بھی اس کتاب میں درج ہے وہ ٹیسٹ لینے والوں میں کون کون شامل تھے؟ انسانیت کا سرشرم سے جھک جاتا ہے گذشتہ دنوں کسی مغربی ملک میں کسی ہم جنس پرست خاتون کے کیتھولک چرچ کے کسی اعلیٰ منصب کے لئے انتخاب کی خبر پڑھ کر ہمیں اس لئے حیرانی نہیں ہوئی تھی کہ لارڈ کلائیو کا ٹیسٹ لینے والوں میں ایک بشپ بھی شامل تھا لیکن اخلاقی طور پر ذلت کی گہرائیوں میں پڑا لارڈ کلائیو اپنے ملک اور مذہب کی خاطر ہر وقت جان کی بازی لگانے کے لئے تیار رہتا تھا اور امریکن کانگریس کی لائبریری میں اس کی سوانح حیات محفوظ ہے۔ میرا ارادہ تو یہ تھا کہ اگرتلہ کیس کا کچھ وہ حال بھی بیاں کروں جو وہ سازش پکڑنے اور ساری تحقیق تفتیش کر کے کیس تیار کرنے والے ”پشتون“ نے مجھے بتایا ہوا ہے جنرل غلام حسن خان مرحوم نے۔ ”پشتون“ میں نے اس لئے لکھا ہے کہ اس کا تعلق حاکم افغانستان داﺅد خاں کے قتل اور افغانستان پر روس کے حملہ سے ہے پاکستان کے دورہ سے واپسی پر داﺅد خاں کو طیارے میں سوار کراتے وقت جنرل غلام حسن خاں نے ان کے کان میں کہا تھا ”یہ ایک پشتون کا ایک پشتون سے وعدہ ہے“ اور بقول جنرل مرحوم وہ پشتون پاکستان کے ساتھ سب جھگڑے ختم کر کے اس سے دوستی اور روسی بلاک کی بجائے مسلم دنیا کے بلاک میں شامل ہو جانے کا وعدہ کر کے گیا تھا اور اسی وعدے پر عمل کرنے کی منصوبہ بندی کی وجہ سے قتل کر دیا گیا تھا۔ میں پنڈی جاتا تو راتیں جنرل صاحب کے گھر میں انہی دکھوں کے بیان میں گزرتی تھیں اور وہ ایسے راز بھی بتا دیا کرتے تھے جو ابھی تک کسی کو معلوم نہیں جن میں لیاقت علی خاں کے قاتلوں سے لے کر پاکستان کے قاتلوں تک کے سب راز ہوتے تھے مگر میر جعفروں صادقوں کی بات لمبی ہو گئی ہے اور دانائے روم فرماتے ہیں۔
ہر کہ چوں ہندو بد و سودائی است
روز عرضش نوبت رسوائی است
چوں ندارد روئے ہمچوں آفتاب
او نخواہد جز شب ہمچوں نقاب
برگ یک گل چوں ندارد خار او
شد بہاراں دشمن اسرار او
یہ کہ ”جو کوئی ہندو کی مانند برا اور سودائی ہے اس کے لئے پیشی کا دن رسوائی کا وقت ہوتا ہے۔ جس شخص کا چہرہ آفتاب کی مانند بے داغ نہ ہو وہ چاہتا ہوتا ہے کہ رات کے اندھیرے کی نقاب کبھی نہ اترے اس پر سے۔ جس کے خار خار جسم کے ساتھ پھول کی ایک پتی بھی نہ ہو وہ موسم بہار کا مخالف ہوتا ہے کہ وہ اس کے چھپے ہوئے رازوں کا دشمن ہوتا ہے“۔
خار بے معنی خزاں خواہد خزاں
تا زند پہلوئے خود با گلستاں
تا بپوشد حسن آں وننگ ایں
تا نہ بینی ننگ آں و رنگ ایں
پس خزاں او را بہار است و حیات
یک نماید سنگ و یاقوت ذکات
یہ کہ ”بے حقیقت کانٹا خزاں ہی خزاں کی خواہش رکھتا ہے تاکہ وہ خزاں زدہ گلستاں کا مقابلہ کر سکے اور خزاں اس کے عیب چھپائے رکھے اور کوئی اس کے عیب اور رنگ دیکھ نہ سکے اس کے لئے خزاں میں بہار اور زندگی ہوتی ہے کیونکہ اس میں پتھر اور یاقوت کی پہچان نہیں ہو سکتی“
برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کی حکمرانی کے خاتمہ کا آغاز کہاں سے اور کیسے ہوا تھا؟ جعفر از بنگال سے ہوا تھا نا؟ وہی جعفر جس کے انگریزوں کے ساتھ معاہدے کی نقل مشرقی پاکستان کے ایک اخبار کے ایڈیٹر نے اپنے بنگلہ بندھو کے بھارت کے ساتھ دوستی کے معاہدے کے ساتھ رکھ کر چھاپ دی تھی اور پڑھنے والے ان میں کوئی بھی فرق تلاش نہیں کر سکے تھے وہی جس کے بارے میں ”جعفر از بنگال ننگ قوم ننگ دین ننگ وطن“ والا شعر ہے۔
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ قوم ننگ دین ننگ وطن
اس میر جعفر نے کیا کیا تھا؟ حاکم بنگال کا بیٹا کم سن تھا اس نے وفات کے وقت اپنے داماد میر جعفر کو اپنے بیٹے کا سرپرست بنا دیا تھا۔ حاکم بنگال کی وفات کے بعد اس کا کم سن بیٹا سراج الدولہ حاکم بن گیا میر جعفر نے انگریزوں کے ساتھ مل کر اسے مروا دیا تھا۔ جنگ پلاسی میں حاکم بنگال سراج الدولہ کے بہنوئی اور فوجوں کے کمانڈر میر جعفر اپنی زیر کمان فوج کے ساتھ میدان جنگ سے دور کھڑے تماشئہ ذلت دیکھتے رہے کلائیو کے زیرکمان ایسٹ انڈیا کمپنی کے مختصر سے دستہ نے جنگ جیت لی کم سن حاکم بنگال میدان جنگ سے بھاگ گیا۔ پکڑا گیا اور مار دیا گیا۔ اور اس کا بہنوئی میر جعفر حاکم بنگال بنا دیا گیا تھا اسی طرح جس طرح اندرا نے شیخ مجیب کو بنگلہ بندھو بنا دیا تھا تو شیخ مجیب میر جعفر سے مختلف معاہدہ کیسے کر سکتا تھا؟ برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت کے خاتمہ کا آغاز وہاں سے ہوا تھا اور پلاسی کی جنگ جیت کر میر جعفر کو حاکم بنگال بنانے اور اس سے دوستی کا معاہدہ کرنے والے کلائیو نے جس کی خدمات کے عوض اسے لارڈ بنا دیا گیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو کامیابی کا ایک نسخہ لکھ کر دیا تھا جو اس نے ہر جگہ استعمال کیا اور اس کے بعد سے مغرب کی سامراجی تہذیب والے‘ ہر جگہ استعمال کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر لارڈ کلائیو نے کمپنی کے مالکان سے کہا تھا کہ ”جس بھی حاکم کو اس کے عوام کی حمایت حاصل نہ ہو اس کا ساتھ دو لیکن ساتھ ہی اس کے دشمن سے بھی دوستی کا معاہدہ کر لو اور اس حاکم کو بتا دو کہ اگر تم نے ہماری شرائط کے مطابق ہمارے احکام پر عمل نہ کیا تو ہم تمہارا ساتھ چھوڑ دیں گے اور تمہاری جگہ تمہارے دشمن یا حاکمیت کی خواہش رکھنے والے کو لے آئیں گے دیکھ لو وہ ہماری ہر شرط ماننے کو تیار ہے“ اس نے لکھا تھا کہ ”اس سے عوامی حمایت سے محروم حاکم تمہاری ہر شرط مانتا جائے گا لیکن اگر کسی مرحلہ پر وہ کوئی حکم ماننے سے معذرت کر لے تو سراج الدولہ کی جگہ میر جعفر کو لے آﺅ اسے سراج الدولہ کے انجام کا بھی پتہ ہو گا وہ تمہاری امداد کا بھی محتاج ہو گا اور تمہارا ہر حکم مانتا رہے گا“ یہ فارمولہ اس کی سوانح حیات میں موجود ہے جو اب بہت ہی نایاب ہے اور جنرل صفدر بٹ مرحوم امریکن کانگریس کی لائبریری سے اس کی میرے لئے فوٹو کاپی کروا لائے تھے۔ سراج الدولہ کو اس کے عوام کی حمایت کیوں حاصل نہیں تھی؟ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ بنگال کے عوام بھوکے مر رہے تھے اور وہ ٹیکسوں سے اور پٹ سن اور چائے کی تجارت پر قابض بیرونی کمپنیوں سے مل کر مال جمع کر رہا تھا اس کی موت کے بعد کلائیو کے دستے کئی روز تک اس کے محل اور خزانہ سے زر و جواہر اور سونا چاندی اور روپے خفیہ خانوں سے نکال نکال کر ہاتھیوں پر لاد لاد کر لے جاتے رہے تھے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہیڈ کوارٹر میں :
دین گنوایا دنی پہ
دنی نہ چلی ساتھ
لوٹ کھسوٹ کا وہی مال و زر سراج الدولہ کے زوال اور موت کا سبب بن گیا تھا مگر وسیع و عریض برصغیر کے کسی بھی حاکم اور راجہ مہاراجہ نے اس سے عبرت نہیں حاصل کی تھی انہوں نے ہی کیا مسلم دنیا میں ابھی تک کسی نے نہیں سیکھی۔ لارڈ کلائیو ہم جنس پرست تھا پیرس کے ہم جنس پرستوں کے کلب کی اعزازی رکنیت حاصل کرنے کے لئے اس نے اس فن کا سخت ترین ٹیسٹ کسی اعلیٰ درجہ میں پاس کیا تھا اس کا حال بھی اس کتاب میں درج ہے وہ ٹیسٹ لینے والوں میں کون کون شامل تھے؟ انسانیت کا سرشرم سے جھک جاتا ہے گذشتہ دنوں کسی مغربی ملک میں کسی ہم جنس پرست خاتون کے کیتھولک چرچ کے کسی اعلیٰ منصب کے لئے انتخاب کی خبر پڑھ کر ہمیں اس لئے حیرانی نہیں ہوئی تھی کہ لارڈ کلائیو کا ٹیسٹ لینے والوں میں ایک بشپ بھی شامل تھا لیکن اخلاقی طور پر ذلت کی گہرائیوں میں پڑا لارڈ کلائیو اپنے ملک اور مذہب کی خاطر ہر وقت جان کی بازی لگانے کے لئے تیار رہتا تھا اور امریکن کانگریس کی لائبریری میں اس کی سوانح حیات محفوظ ہے۔ میرا ارادہ تو یہ تھا کہ اگرتلہ کیس کا کچھ وہ حال بھی بیاں کروں جو وہ سازش پکڑنے اور ساری تحقیق تفتیش کر کے کیس تیار کرنے والے ”پشتون“ نے مجھے بتایا ہوا ہے جنرل غلام حسن خان مرحوم نے۔ ”پشتون“ میں نے اس لئے لکھا ہے کہ اس کا تعلق حاکم افغانستان داﺅد خاں کے قتل اور افغانستان پر روس کے حملہ سے ہے پاکستان کے دورہ سے واپسی پر داﺅد خاں کو طیارے میں سوار کراتے وقت جنرل غلام حسن خاں نے ان کے کان میں کہا تھا ”یہ ایک پشتون کا ایک پشتون سے وعدہ ہے“ اور بقول جنرل مرحوم وہ پشتون پاکستان کے ساتھ سب جھگڑے ختم کر کے اس سے دوستی اور روسی بلاک کی بجائے مسلم دنیا کے بلاک میں شامل ہو جانے کا وعدہ کر کے گیا تھا اور اسی وعدے پر عمل کرنے کی منصوبہ بندی کی وجہ سے قتل کر دیا گیا تھا۔ میں پنڈی جاتا تو راتیں جنرل صاحب کے گھر میں انہی دکھوں کے بیان میں گزرتی تھیں اور وہ ایسے راز بھی بتا دیا کرتے تھے جو ابھی تک کسی کو معلوم نہیں جن میں لیاقت علی خاں کے قاتلوں سے لے کر پاکستان کے قاتلوں تک کے سب راز ہوتے تھے مگر میر جعفروں صادقوں کی بات لمبی ہو گئی ہے اور دانائے روم فرماتے ہیں۔
ہر کہ چوں ہندو بد و سودائی است
روز عرضش نوبت رسوائی است
چوں ندارد روئے ہمچوں آفتاب
او نخواہد جز شب ہمچوں نقاب
برگ یک گل چوں ندارد خار او
شد بہاراں دشمن اسرار او
یہ کہ ”جو کوئی ہندو کی مانند برا اور سودائی ہے اس کے لئے پیشی کا دن رسوائی کا وقت ہوتا ہے۔ جس شخص کا چہرہ آفتاب کی مانند بے داغ نہ ہو وہ چاہتا ہوتا ہے کہ رات کے اندھیرے کی نقاب کبھی نہ اترے اس پر سے۔ جس کے خار خار جسم کے ساتھ پھول کی ایک پتی بھی نہ ہو وہ موسم بہار کا مخالف ہوتا ہے کہ وہ اس کے چھپے ہوئے رازوں کا دشمن ہوتا ہے“۔
خار بے معنی خزاں خواہد خزاں
تا زند پہلوئے خود با گلستاں
تا بپوشد حسن آں وننگ ایں
تا نہ بینی ننگ آں و رنگ ایں
پس خزاں او را بہار است و حیات
یک نماید سنگ و یاقوت ذکات
یہ کہ ”بے حقیقت کانٹا خزاں ہی خزاں کی خواہش رکھتا ہے تاکہ وہ خزاں زدہ گلستاں کا مقابلہ کر سکے اور خزاں اس کے عیب چھپائے رکھے اور کوئی اس کے عیب اور رنگ دیکھ نہ سکے اس کے لئے خزاں میں بہار اور زندگی ہوتی ہے کیونکہ اس میں پتھر اور یاقوت کی پہچان نہیں ہو سکتی“