فضل حسین اعوان
امریکہ کی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل ڈیوس پٹریاس اور چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ایڈمرل مائیک مولن آج کل پاکستان کے دورے پر ہیں۔ ملک بھر میں سیکورٹی اداروں کو بلیک واٹر نے آگے لگایا ہوا ہے تو سیاسی قیادت کو امریکی جرنیلوں‘ سیکرٹریوں نائب سیکرٹریوں اور ان نائب سیکرٹریوں کے بھی نائب سیکرٹریوں نے دبا کر رکھا ہوا ہے۔ جنرل پیٹریاس نے پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ نئی افغان پالیسی سے پاکستانی مفادات متاثر نہیں ہوں گے ہم پاکستان کی سلامتی کا احترام کرتے ہیں اور افغان جنگ پاکستان کے تعاون کے بغیر جیتی نہیں جا سکتی.... قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ کی پالیسی سازی میں کسی جنرل کا کتنا عمل دخل ہے اور وہ اگر کوئی زبانی کلامی بات یا وعدہ کرتا ہے امریکہ بطور سٹیٹ اس وعدے کی تکمیل کا پابند ہے؟ ماضی میں بھی پاکستان کی سلامتی کے احترام کی بات ہوتی رہی ہے لیکن اس پر عملدرآمد ہنوز نہیں ہو سکا۔ پاکستانی علاقوں میں ڈرونز حملے پاکستان کی سلامتی کے احترام کے زمرے میں آتے ہیں؟
جنرل پیٹریاس سمیت امریکہ افغان جنگ پاکستان کے تعاون سے جیتنا چاہتا ہے۔ وہ کس جنگ کی اور کس کے خلاف جنگ کی بات کرتے ہیں؟ افغانستان میں کرزئی کی حکومت ہے جو امریکہ نے خود بنوائی۔ جنگ تو وہ تھی جب افغان امریکہ کا مقابلہ کر رہے تھے۔ ہزاروں میل دور آکر امریکہ نے افغانستان کو تہس نہس کرکے اس پر قبضہ کر لیا۔ اب اس کے مدمقابل کوئی فوج ہے نہ ٹینک توپ اور جنگی جہاز۔ جہاں اسے مخالفت کا شائبہ ہوتا ہے بمباری کرکے شہر کے شہر اور بستیوں کی بستیاں ملیامیٹ کر دی جاتی ہیں۔ اگر اپنے ملک پر غاصبانہ قبضے کے خلاف افغان جدوجہد کرتے ہیں تو ایسی ہی جدوجہد ہے جیسی خود امریکہ نے برطانیہ کے خلاف کرکے آزادی حاصل کی تھی۔ امریکہ اپنی آزادی کےلئے جو کچھ کرے وہ حریت پسندی اور جنگ آزادی افغان یا طالبان فلسطینی اور کشمیر کریں تو دہشت گردی اوپر سے افغانستان میں امریکی دہشت گردی کے خلاف طالبان آواز بلند کریں تو اس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دے کر جیتنے کیلئے پاکستان سے تعاون مانگا جا رہا ہے اور وہ بھی ان حالات میں جب پاکستان میں بھی امریکہ نے اس جنگ کے شعلے بھڑکا رکھے ہیں۔ جس سے پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں اور فوج بھارتی سرحد پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے قبائلی علاقوں میں برسرپیکار ہے۔
طالبان کی افغانستان میں چند سال حکومت رہی۔ امن و امان خودداری اور خود انحصاری کے حوالے سے یہی وہاں کا سنہری دور تھا اور اسی دور میں 1947ءکے بعد افغانستان کے پاکستان کے ساتھ مثالی تعلقات رہے۔ امریکی یلغار سے جہاں پورا افغانستان برباد ہوا۔ طالبان حکومت جاتی رہی جس نے کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پھر اسی نہج پر آگے جس پر طالبان دور سے پہلے تھے۔ امریکہ جس کو افغانستان میں جنگ قرار دیتا ہے۔ جس میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی فوج کے تابوت اٹھ رہے ہیں اور اٹھتے چلے جا رہے ہیں اب مزید 34 ہزار فوجی اوباما صاحب بھیج رہے ہیں۔ یہ بے چارے جہازوں سے اپنے پا¶ں پر اتریں گے۔ ہر ایک کو سوار کرانے کیلئے 4, 4 کی ضرورت ہو گی۔ امریکہ کی شروع کی ہوئی یہ جنگ افغان صدیوں اسی طرح لڑ سکتے ہیں۔ ہر افغان اپنی ذات میں تربیت یافتہ فوجی اور کمانڈو ہے۔ ہوش سنبھالتا ہے تو بندوق اور گولی اس کا زیور اور شوق ہے جذبہ جہاد اس میں مذہبی تعلیم بھر دیتی ہے۔ ہمارے علمائے کرام نے پاکستان میں رحمن ملک کی بیان کردہ دہشت گردی کو حرام قرار دیا ہے۔ افغانستان میں جاری امریکہ کے خلاف برسرپیکار طالبان کے بارے میں یا کہتے ہیں؟ البتہ برطانوی فوج کے نئے بشت ویز نے طالبان کے مذہبی عقائد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کا ایک دوسرے کے ساتھ احساس وفاداری قابل تعریف ہے۔ برطانوی فوج کو طالبان کے رویے اور ان کے بارے میں مکمل تجزیہ کرنا چاہئے۔ انتہا پسندوں کے بارے میں منفی خیالات رکھنے سے اس جنگ کے حل کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا“ کیا برطانیہ کو امریکہ کی جنگ سے الگ ہونے‘ اپنی خواتین کو بیوگی اور بچوں کو یتیم ہونے سے بچانے کےلئے مزید کسی اخلاقی جواز کی ضرورت ہے؟
امریکہ کی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل ڈیوس پٹریاس اور چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ایڈمرل مائیک مولن آج کل پاکستان کے دورے پر ہیں۔ ملک بھر میں سیکورٹی اداروں کو بلیک واٹر نے آگے لگایا ہوا ہے تو سیاسی قیادت کو امریکی جرنیلوں‘ سیکرٹریوں نائب سیکرٹریوں اور ان نائب سیکرٹریوں کے بھی نائب سیکرٹریوں نے دبا کر رکھا ہوا ہے۔ جنرل پیٹریاس نے پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ نئی افغان پالیسی سے پاکستانی مفادات متاثر نہیں ہوں گے ہم پاکستان کی سلامتی کا احترام کرتے ہیں اور افغان جنگ پاکستان کے تعاون کے بغیر جیتی نہیں جا سکتی.... قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ کی پالیسی سازی میں کسی جنرل کا کتنا عمل دخل ہے اور وہ اگر کوئی زبانی کلامی بات یا وعدہ کرتا ہے امریکہ بطور سٹیٹ اس وعدے کی تکمیل کا پابند ہے؟ ماضی میں بھی پاکستان کی سلامتی کے احترام کی بات ہوتی رہی ہے لیکن اس پر عملدرآمد ہنوز نہیں ہو سکا۔ پاکستانی علاقوں میں ڈرونز حملے پاکستان کی سلامتی کے احترام کے زمرے میں آتے ہیں؟
جنرل پیٹریاس سمیت امریکہ افغان جنگ پاکستان کے تعاون سے جیتنا چاہتا ہے۔ وہ کس جنگ کی اور کس کے خلاف جنگ کی بات کرتے ہیں؟ افغانستان میں کرزئی کی حکومت ہے جو امریکہ نے خود بنوائی۔ جنگ تو وہ تھی جب افغان امریکہ کا مقابلہ کر رہے تھے۔ ہزاروں میل دور آکر امریکہ نے افغانستان کو تہس نہس کرکے اس پر قبضہ کر لیا۔ اب اس کے مدمقابل کوئی فوج ہے نہ ٹینک توپ اور جنگی جہاز۔ جہاں اسے مخالفت کا شائبہ ہوتا ہے بمباری کرکے شہر کے شہر اور بستیوں کی بستیاں ملیامیٹ کر دی جاتی ہیں۔ اگر اپنے ملک پر غاصبانہ قبضے کے خلاف افغان جدوجہد کرتے ہیں تو ایسی ہی جدوجہد ہے جیسی خود امریکہ نے برطانیہ کے خلاف کرکے آزادی حاصل کی تھی۔ امریکہ اپنی آزادی کےلئے جو کچھ کرے وہ حریت پسندی اور جنگ آزادی افغان یا طالبان فلسطینی اور کشمیر کریں تو دہشت گردی اوپر سے افغانستان میں امریکی دہشت گردی کے خلاف طالبان آواز بلند کریں تو اس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دے کر جیتنے کیلئے پاکستان سے تعاون مانگا جا رہا ہے اور وہ بھی ان حالات میں جب پاکستان میں بھی امریکہ نے اس جنگ کے شعلے بھڑکا رکھے ہیں۔ جس سے پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں اور فوج بھارتی سرحد پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے قبائلی علاقوں میں برسرپیکار ہے۔
طالبان کی افغانستان میں چند سال حکومت رہی۔ امن و امان خودداری اور خود انحصاری کے حوالے سے یہی وہاں کا سنہری دور تھا اور اسی دور میں 1947ءکے بعد افغانستان کے پاکستان کے ساتھ مثالی تعلقات رہے۔ امریکی یلغار سے جہاں پورا افغانستان برباد ہوا۔ طالبان حکومت جاتی رہی جس نے کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پھر اسی نہج پر آگے جس پر طالبان دور سے پہلے تھے۔ امریکہ جس کو افغانستان میں جنگ قرار دیتا ہے۔ جس میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی فوج کے تابوت اٹھ رہے ہیں اور اٹھتے چلے جا رہے ہیں اب مزید 34 ہزار فوجی اوباما صاحب بھیج رہے ہیں۔ یہ بے چارے جہازوں سے اپنے پا¶ں پر اتریں گے۔ ہر ایک کو سوار کرانے کیلئے 4, 4 کی ضرورت ہو گی۔ امریکہ کی شروع کی ہوئی یہ جنگ افغان صدیوں اسی طرح لڑ سکتے ہیں۔ ہر افغان اپنی ذات میں تربیت یافتہ فوجی اور کمانڈو ہے۔ ہوش سنبھالتا ہے تو بندوق اور گولی اس کا زیور اور شوق ہے جذبہ جہاد اس میں مذہبی تعلیم بھر دیتی ہے۔ ہمارے علمائے کرام نے پاکستان میں رحمن ملک کی بیان کردہ دہشت گردی کو حرام قرار دیا ہے۔ افغانستان میں جاری امریکہ کے خلاف برسرپیکار طالبان کے بارے میں یا کہتے ہیں؟ البتہ برطانوی فوج کے نئے بشت ویز نے طالبان کے مذہبی عقائد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کا ایک دوسرے کے ساتھ احساس وفاداری قابل تعریف ہے۔ برطانوی فوج کو طالبان کے رویے اور ان کے بارے میں مکمل تجزیہ کرنا چاہئے۔ انتہا پسندوں کے بارے میں منفی خیالات رکھنے سے اس جنگ کے حل کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا“ کیا برطانیہ کو امریکہ کی جنگ سے الگ ہونے‘ اپنی خواتین کو بیوگی اور بچوں کو یتیم ہونے سے بچانے کےلئے مزید کسی اخلاقی جواز کی ضرورت ہے؟