سعید آسی
بات سسٹم کو بچانے اور جمہوریت کے استحکام کی کی جاتی ہے۔ جمہوریت کو خطرات لاحق ہونے کا ازخود پراپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے اور جمہوریت کیلئے اپنی قربانیوں کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے مگر جب جمہوریت کے استحکام کیلئے کردار ادا کرنے کی نوبت آتی ہے تو یہ کردار دعوﺅں، وعدوں اور اعلانات کے قطعی برعکس نظر آتا ہے۔
یا تو سسٹم کی کھل کر وضاحت کی جائے کہ صدارتی نظام کا استحکام مقصود ہے یا وفاقی پارلیمانی نظام کا۔ اگر عہد 73ءکے آئین کی بحالی کا کیا جائے تو پھر اس کے تحت ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام ہی رائج ہوگا جس میں پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہوتی ہے اور چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے وزیراعظم حکومت کے سربراہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ کابینہ اور پارلیمنٹ سمیت تمام انتظامی معاملات انہی کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ کابینہ تشکیل دینے اور اس میں رد و بدل کرنے کا بھی وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے اور اگر یہ اختیار وزیراعظم کے بجائے صدر کے ہاتھ میں ہوگا تو پھر لازمی طور پر طاقت و اختیار کا محور صدر کی ذات بن جائے گی۔
گزشتہ دو سال سے خود صدر مملکت کی زبان سے قوم کو باور تو یہی کرایا جارہا ہے کہ وہ 17ویں آئینی ترمیم کے تحت حاصل اپنے تمام صوابدیدی صدارتی اختیارات پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو منتقل کر رہے ہیں، مگر اب تک اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے کی نوبت نہیں آئی، بس ایک آئینی اصلاحات کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو کبھی کوئی نوید سنا دیتی ہے اور کبھی مایوس کردیتی ہے۔ اس کمیٹی کے حوالے سے آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ صدر کے اختیارات میں مزید کمی کرنے اور گورنر کے تقررکا اختیار بھی وزیراعظم کو دینے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ جناب! صدر کے اختیارات میں پہلے کون سی کمی کس آئینی شق کے تحت کی گئی ہے۔ 17ویں آئینی ترمیم اور اس کے تحت صدر کو حاصل تمام آئینی اختیارات تو جوں کے توں برقرار ہیں۔ کیا محض زبانی اعلان کر دینے سے صدر کے اختیارات وزیراعظم کو منتقل ہو جائیں گے۔
جہاں تک کمانڈاینڈ کنٹرول اتھارٹی کی سربراہی وزیراعظم کو منتقل کرنے کا معاملہ ہے تو اس کا 17 ویں آئینی ترمیم سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے استحکام کیلئے حکمران پیپلز پارٹی کی کاوشوں کا تب یقین آئے گا جب صدر کے صوابدیدی آئینی اختیارات پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو منتقل کرنے کیلئے عملی پیش رفت کی جائے گی جو 17 ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی صورت میں ہی ممکن ہے مگر اس بارے میں آئینی اصلاحات کمیٹی نے گزشتہ روز قوم کو نوید سنائی تھی کہ ہم اس بل کو حتمی شکل دینے کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں دے سکتے، گویا معاملہ محض وقت گزاری کا ہے، صرف چکمہ دیئے رکھنا اور خوش گمانی میں مبتلا رکھنا مقصود ہے اور حقیقت یہی ہے کہ 17 ویں آئینی ترمیم والے صوابدیدی آئینی اختیارات کو صدر مملکت اپنا زیور سمجھتے ہیں جسے اتار کر وہ خود کو شائد ادھورا محسوس کریں گے۔ چنانچہ ان کے گردا گرد ان کے مفاداتی بھائیوں نے جن میں وفاقی کابینہ کے کچھ نمایاں ارکان بھی شامل ہیں، ایک حصار قائم کر رکھا ہے تاکہ صدر کی ذاتِ گرامی بدستور کا اختیارات کا سرچشمہ نظر آتی رہے۔
اگر وفاقی پارلیمانی نظام کیلئے تھوڑاسا بھی اخلاص موجود ہوتو وفاقی وزیر ڈاکٹر بابر اعوان کو نیب کے کیس میں اپنے مﺅکل حارث سٹیل مل سے کیس کے تصفیہ کیلئے تین کروڑ روپے لینے کا الزام لگنے کے بعد جوش جذبات میں وزارت سے مستعفی ہونے کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے ایوان وزیراعظم کے بجائے ایوان صدر کا رخ کیا اور صدرمملکت کے سامنے اپنا استعفیٰ رکھ دیا جو انہوں نے کمال شفقت و مہربانی سے انہیں واپس لوٹا دیا۔ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہو تو رولز آف بزنس کے تحت کسی وزیر کو اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو ٹنڈر کرنا چاہئے یا صدر کو؟ اگر ڈاکٹر بابر اعوان نے اپنا استعفیٰ وزیراعظم کے بجائے صدر کو پیش کیاتو درحقیقت وہ یہی پیغام پہنچانا چاہتے تھے کہ موجودہ نظام میں وزیراعظم کی حیثیت محض کٹھ پتلی کی ہے اور طاقت و اختیار کا منبع صرف صدر کی ذات ہے۔ پھر کیا کہتے ہیں ہمارے جید سیاسی زعما بیچ اس مسئلہ کے، اعلانات کیا ہو رہے ہیں۔ اقدامات کیا کئے جارہے ہیں اور نیت کیا ظاہر کی جا رہی ہے۔ پھر سسٹم اور جمہوریت کو خطرات لاحق ہونے کی چیخ و پکار؟ یہ سارا ماحول آپ کا اپنا ہی تو بنایا ہوا ہے۔ آپ جمہوریت کے کتنے ہمدرد ہیں کہ کوئی دوسرا بھی ہمدردی کااظہار کرے۔عوام نے اپنی انتھک جدوجہد سے سسٹم کو مشرف کی جرنیلی آمریت کے شکنجے سے نجات دلا کر سلطانی ¿ جمہور کی راہ پر ڈالا ہے تو کیا اب یہ راہ ہمیں صدارتی آمریت کی جانب لے جائے گی؟ اب ایسا کیوں ہونے دیا جائے گا، جناب! اب ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، آپ سلطانی ¿ جمہور کا چلن اختیار کریں گے تو یقین کریں سسٹم کو کہیں سے کوئی خطرہ نہیں، ورنہ ہوا کی کوئی ہلکی سی سرسراہٹ بھی آپ کے اقتدار کیلئے خطرے کا پیغام بنی نظر آئے گی، اس لئے سسٹم کو بچانا آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔ اگر آپ خود ہی اس کو ڈی ٹریک کریں تو کوئی دوسرا آپ کو بچانے کیوں آئے گا۔ حادثہ ہونا ہے تو اس کا باعث بننے والا بھی تو اس کی زد میں آئے گا اور خودکش حملہ آور کو تو اپنی زندگی بچانے کی فکر لاحق بھی نہیں ہونی چاہئے، پھر آپ کیوں فکرمند ہیں؟
بات سسٹم کو بچانے اور جمہوریت کے استحکام کی کی جاتی ہے۔ جمہوریت کو خطرات لاحق ہونے کا ازخود پراپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے اور جمہوریت کیلئے اپنی قربانیوں کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے مگر جب جمہوریت کے استحکام کیلئے کردار ادا کرنے کی نوبت آتی ہے تو یہ کردار دعوﺅں، وعدوں اور اعلانات کے قطعی برعکس نظر آتا ہے۔
یا تو سسٹم کی کھل کر وضاحت کی جائے کہ صدارتی نظام کا استحکام مقصود ہے یا وفاقی پارلیمانی نظام کا۔ اگر عہد 73ءکے آئین کی بحالی کا کیا جائے تو پھر اس کے تحت ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام ہی رائج ہوگا جس میں پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہوتی ہے اور چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے وزیراعظم حکومت کے سربراہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ کابینہ اور پارلیمنٹ سمیت تمام انتظامی معاملات انہی کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ کابینہ تشکیل دینے اور اس میں رد و بدل کرنے کا بھی وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے اور اگر یہ اختیار وزیراعظم کے بجائے صدر کے ہاتھ میں ہوگا تو پھر لازمی طور پر طاقت و اختیار کا محور صدر کی ذات بن جائے گی۔
گزشتہ دو سال سے خود صدر مملکت کی زبان سے قوم کو باور تو یہی کرایا جارہا ہے کہ وہ 17ویں آئینی ترمیم کے تحت حاصل اپنے تمام صوابدیدی صدارتی اختیارات پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو منتقل کر رہے ہیں، مگر اب تک اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے کی نوبت نہیں آئی، بس ایک آئینی اصلاحات کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو کبھی کوئی نوید سنا دیتی ہے اور کبھی مایوس کردیتی ہے۔ اس کمیٹی کے حوالے سے آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ صدر کے اختیارات میں مزید کمی کرنے اور گورنر کے تقررکا اختیار بھی وزیراعظم کو دینے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ جناب! صدر کے اختیارات میں پہلے کون سی کمی کس آئینی شق کے تحت کی گئی ہے۔ 17ویں آئینی ترمیم اور اس کے تحت صدر کو حاصل تمام آئینی اختیارات تو جوں کے توں برقرار ہیں۔ کیا محض زبانی اعلان کر دینے سے صدر کے اختیارات وزیراعظم کو منتقل ہو جائیں گے۔
جہاں تک کمانڈاینڈ کنٹرول اتھارٹی کی سربراہی وزیراعظم کو منتقل کرنے کا معاملہ ہے تو اس کا 17 ویں آئینی ترمیم سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے استحکام کیلئے حکمران پیپلز پارٹی کی کاوشوں کا تب یقین آئے گا جب صدر کے صوابدیدی آئینی اختیارات پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو منتقل کرنے کیلئے عملی پیش رفت کی جائے گی جو 17 ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی صورت میں ہی ممکن ہے مگر اس بارے میں آئینی اصلاحات کمیٹی نے گزشتہ روز قوم کو نوید سنائی تھی کہ ہم اس بل کو حتمی شکل دینے کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں دے سکتے، گویا معاملہ محض وقت گزاری کا ہے، صرف چکمہ دیئے رکھنا اور خوش گمانی میں مبتلا رکھنا مقصود ہے اور حقیقت یہی ہے کہ 17 ویں آئینی ترمیم والے صوابدیدی آئینی اختیارات کو صدر مملکت اپنا زیور سمجھتے ہیں جسے اتار کر وہ خود کو شائد ادھورا محسوس کریں گے۔ چنانچہ ان کے گردا گرد ان کے مفاداتی بھائیوں نے جن میں وفاقی کابینہ کے کچھ نمایاں ارکان بھی شامل ہیں، ایک حصار قائم کر رکھا ہے تاکہ صدر کی ذاتِ گرامی بدستور کا اختیارات کا سرچشمہ نظر آتی رہے۔
اگر وفاقی پارلیمانی نظام کیلئے تھوڑاسا بھی اخلاص موجود ہوتو وفاقی وزیر ڈاکٹر بابر اعوان کو نیب کے کیس میں اپنے مﺅکل حارث سٹیل مل سے کیس کے تصفیہ کیلئے تین کروڑ روپے لینے کا الزام لگنے کے بعد جوش جذبات میں وزارت سے مستعفی ہونے کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے ایوان وزیراعظم کے بجائے ایوان صدر کا رخ کیا اور صدرمملکت کے سامنے اپنا استعفیٰ رکھ دیا جو انہوں نے کمال شفقت و مہربانی سے انہیں واپس لوٹا دیا۔ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہو تو رولز آف بزنس کے تحت کسی وزیر کو اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو ٹنڈر کرنا چاہئے یا صدر کو؟ اگر ڈاکٹر بابر اعوان نے اپنا استعفیٰ وزیراعظم کے بجائے صدر کو پیش کیاتو درحقیقت وہ یہی پیغام پہنچانا چاہتے تھے کہ موجودہ نظام میں وزیراعظم کی حیثیت محض کٹھ پتلی کی ہے اور طاقت و اختیار کا منبع صرف صدر کی ذات ہے۔ پھر کیا کہتے ہیں ہمارے جید سیاسی زعما بیچ اس مسئلہ کے، اعلانات کیا ہو رہے ہیں۔ اقدامات کیا کئے جارہے ہیں اور نیت کیا ظاہر کی جا رہی ہے۔ پھر سسٹم اور جمہوریت کو خطرات لاحق ہونے کی چیخ و پکار؟ یہ سارا ماحول آپ کا اپنا ہی تو بنایا ہوا ہے۔ آپ جمہوریت کے کتنے ہمدرد ہیں کہ کوئی دوسرا بھی ہمدردی کااظہار کرے۔عوام نے اپنی انتھک جدوجہد سے سسٹم کو مشرف کی جرنیلی آمریت کے شکنجے سے نجات دلا کر سلطانی ¿ جمہور کی راہ پر ڈالا ہے تو کیا اب یہ راہ ہمیں صدارتی آمریت کی جانب لے جائے گی؟ اب ایسا کیوں ہونے دیا جائے گا، جناب! اب ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، آپ سلطانی ¿ جمہور کا چلن اختیار کریں گے تو یقین کریں سسٹم کو کہیں سے کوئی خطرہ نہیں، ورنہ ہوا کی کوئی ہلکی سی سرسراہٹ بھی آپ کے اقتدار کیلئے خطرے کا پیغام بنی نظر آئے گی، اس لئے سسٹم کو بچانا آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔ اگر آپ خود ہی اس کو ڈی ٹریک کریں تو کوئی دوسرا آپ کو بچانے کیوں آئے گا۔ حادثہ ہونا ہے تو اس کا باعث بننے والا بھی تو اس کی زد میں آئے گا اور خودکش حملہ آور کو تو اپنی زندگی بچانے کی فکر لاحق بھی نہیں ہونی چاہئے، پھر آپ کیوں فکرمند ہیں؟