رفیق غوری
اطالوی وزیر اعظم برلسکونی کو بھی مکا پڑ گیا اور موصوف کو زخمی حالت میں ہسپتال لے جانا پڑا۔ ہمیں بھی اس پر کئی مکے یاد آ گئے۔ پہلا یاد گار مکا شہید ملت خان لیاقت علی خان کا یاد آیا۔ جس کے لہرائے جانے کے بعد بھارتی مہاشوں کی بلکہ بدمعاشوں کی سٹی گم ہو گئی تھی ایک مکا ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا بھی ہے جو کمانڈو صاحب نے ہماری قومی اسمبلی میں تقریر نا سننے کی خواہش رکھنے والے اراکین اسمبلی کو دکھایا تھا۔
مکے اور بھی یاد آ رہے ہیں جس میں عالمی باکسر محمد علی کا مکا بھی ہے‘ مکے مارنے والوں‘ مکے کھانے والوں کا ذکر ہوا تو جی چاہتا ہے ان مکوں‘ ان گھونسوں کا بھی اشارتاً ذکر ہو جائے جو ہمارے ذاتی رخ ناتواں کے حصہ میں بھی آئے۔ جو موجودہ وفاقی وزیر جناب منظور احمد وٹو جب وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب جلیلہ پر رونق افروز تھے اور ہمارے لائلپور کے دوست فضل حسین راہی کے حصہ میں جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا آیا تھا اور مشورے دینے کے باوجود فضل حسین راہی باز نہ آیا کرتے تھے جس پر وزیراعلیٰ وٹو موصوف نے اسمبلی میں آن دی فلور ”Behave yourself“کہہ کر وارننگ دی تھی اور پھر جب راہی مرحوم پنجاب اسمبلی کے احاطہ سے باہر نکلے تو مرحوم پر مکوں اور گھونسوں کی بارش ہو گئی تھی۔ ویسے مجھ ناچیز اور فضل حسین راہی جیسے غریب کو پڑنے والی مار کس کو یاد رہ سکتی ہے۔
البتہ اطالوی وزیراعظم کو پڑنے والا گھونسا جس نے وزیراعظم کا جبڑا تک توڑ دیا کافی دیر تک یاد رہے گا۔ اس کا ذکر ہوتا رہے گا۔
بالکل اسی طرح جیسے عراق کے دورہ پر گئے ہوئے امریکہ کے صدر کی طرف پھینکے جانے والے جوتے کو دنیا اب تک بھول نہیں پائی ہے حالانکہ کہنہ مشق صدر امریکہ کو جوتا نہ لگا تھا اور اس جوتے سے بچنے والے امریکی صدر نے اس کا نمبر تک دیکھ کر یاد کر لیا تھا۔
ہم پر برسنے والے مکے بے شک فراموش کر دیئے جائیں مگر خواہش ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا وہ دکھایا ہوا مکا جو بھارت کے ہر وزیراعظم کو آج بھی یاد ہے کاش اس کی یاد دلانے کیلئے ہمارا کوئی وزیراعظم یا صدر ایک مرتبہ پھر پیدا ہو جائے تاکہ کشمیری اسے یاد کر کے مار کھاتے رہیں۔ شہید ہوتے رہیں تآنکہ ان حرماں نصیبوں کو آزادی مل جائے۔ یہی نہیں ارض فلسطین ارض عراق‘ ارض افغانستان میں بھی کوئی اور مکے مارنے والے ظالم کی طرف جوتے پھینکنے والے پھر سے میدان عمل میں آ جائیں کہ بعد میں یاد آنے والا مکا اپنے منہ پر مار لینا چاہئے کہ کہاوت کے برخلاف بھی ایک مرتبہ پھر مارنے والا یا مارنے کی کوشش کرنے والا ہمارے ہاں پھر سے پیدا ہو جائے۔ ورنہ مکے نہیں جوتے ہم کھاتے رہیں گے۔
اور بھی بہت سے برسنے والے مکے اور جوتے یاد آ رہے ہیں۔ مثلاً ارباب غلام رحیم کو بھی ایک جوتا پڑا تھا۔ اب بھی اس کی آواز کانوں میں گونج رہی ہے۔ شیر افگن خان نے بھی جوتے کھا کر بے مزہ نہ ہونے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ بھارت میں بھی جوتے کھانے کی رسم چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک چلتی ہے۔
ہمیں یاد آ رہا ہے کہ مولانا ظفر علی خان نے کانگریسیوں کے ایک جلوس پر جس کے شرکاء ننگے پاﺅں چل رہے تھے پر فوراً ایک شعر کہا تھا اور ایک بڑے کاغذ پر جلی حروف میں لکھ کر باہر لٹکوا دیا تھا
کانگریس آ رہی ہے ننگے پاﺅں
جی میں آتا ہے بڑھ کے دوں جوتا
ویسے تو حبیب جالب مرحوم کا بھی وہ شعر یاد آ رہا ہے جس میں انہوں نے ہر بلاول کے مقروض ہونے اور ہر بے نظیر کے ننگے پاﺅں ہونے کا ذکر کیا تھا۔ اس پر بات ہو گی تو بات بڑھ جائے گی اس لئے آخر میں بس اکبر آبادی مرحوم کا یہ شعر نقل کر کے اس مکا مارنے والے کو سلام عقیدت پیش کر کے اجازت چاہتے ہیں
ڈاسن نے اک بوٹ بنایا اور میں نے ایک مضمون لکھا
ملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا
اطالوی وزیر اعظم برلسکونی کو بھی مکا پڑ گیا اور موصوف کو زخمی حالت میں ہسپتال لے جانا پڑا۔ ہمیں بھی اس پر کئی مکے یاد آ گئے۔ پہلا یاد گار مکا شہید ملت خان لیاقت علی خان کا یاد آیا۔ جس کے لہرائے جانے کے بعد بھارتی مہاشوں کی بلکہ بدمعاشوں کی سٹی گم ہو گئی تھی ایک مکا ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا بھی ہے جو کمانڈو صاحب نے ہماری قومی اسمبلی میں تقریر نا سننے کی خواہش رکھنے والے اراکین اسمبلی کو دکھایا تھا۔
مکے اور بھی یاد آ رہے ہیں جس میں عالمی باکسر محمد علی کا مکا بھی ہے‘ مکے مارنے والوں‘ مکے کھانے والوں کا ذکر ہوا تو جی چاہتا ہے ان مکوں‘ ان گھونسوں کا بھی اشارتاً ذکر ہو جائے جو ہمارے ذاتی رخ ناتواں کے حصہ میں بھی آئے۔ جو موجودہ وفاقی وزیر جناب منظور احمد وٹو جب وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب جلیلہ پر رونق افروز تھے اور ہمارے لائلپور کے دوست فضل حسین راہی کے حصہ میں جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا آیا تھا اور مشورے دینے کے باوجود فضل حسین راہی باز نہ آیا کرتے تھے جس پر وزیراعلیٰ وٹو موصوف نے اسمبلی میں آن دی فلور ”Behave yourself“کہہ کر وارننگ دی تھی اور پھر جب راہی مرحوم پنجاب اسمبلی کے احاطہ سے باہر نکلے تو مرحوم پر مکوں اور گھونسوں کی بارش ہو گئی تھی۔ ویسے مجھ ناچیز اور فضل حسین راہی جیسے غریب کو پڑنے والی مار کس کو یاد رہ سکتی ہے۔
البتہ اطالوی وزیراعظم کو پڑنے والا گھونسا جس نے وزیراعظم کا جبڑا تک توڑ دیا کافی دیر تک یاد رہے گا۔ اس کا ذکر ہوتا رہے گا۔
بالکل اسی طرح جیسے عراق کے دورہ پر گئے ہوئے امریکہ کے صدر کی طرف پھینکے جانے والے جوتے کو دنیا اب تک بھول نہیں پائی ہے حالانکہ کہنہ مشق صدر امریکہ کو جوتا نہ لگا تھا اور اس جوتے سے بچنے والے امریکی صدر نے اس کا نمبر تک دیکھ کر یاد کر لیا تھا۔
ہم پر برسنے والے مکے بے شک فراموش کر دیئے جائیں مگر خواہش ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا وہ دکھایا ہوا مکا جو بھارت کے ہر وزیراعظم کو آج بھی یاد ہے کاش اس کی یاد دلانے کیلئے ہمارا کوئی وزیراعظم یا صدر ایک مرتبہ پھر پیدا ہو جائے تاکہ کشمیری اسے یاد کر کے مار کھاتے رہیں۔ شہید ہوتے رہیں تآنکہ ان حرماں نصیبوں کو آزادی مل جائے۔ یہی نہیں ارض فلسطین ارض عراق‘ ارض افغانستان میں بھی کوئی اور مکے مارنے والے ظالم کی طرف جوتے پھینکنے والے پھر سے میدان عمل میں آ جائیں کہ بعد میں یاد آنے والا مکا اپنے منہ پر مار لینا چاہئے کہ کہاوت کے برخلاف بھی ایک مرتبہ پھر مارنے والا یا مارنے کی کوشش کرنے والا ہمارے ہاں پھر سے پیدا ہو جائے۔ ورنہ مکے نہیں جوتے ہم کھاتے رہیں گے۔
اور بھی بہت سے برسنے والے مکے اور جوتے یاد آ رہے ہیں۔ مثلاً ارباب غلام رحیم کو بھی ایک جوتا پڑا تھا۔ اب بھی اس کی آواز کانوں میں گونج رہی ہے۔ شیر افگن خان نے بھی جوتے کھا کر بے مزہ نہ ہونے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ بھارت میں بھی جوتے کھانے کی رسم چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک چلتی ہے۔
ہمیں یاد آ رہا ہے کہ مولانا ظفر علی خان نے کانگریسیوں کے ایک جلوس پر جس کے شرکاء ننگے پاﺅں چل رہے تھے پر فوراً ایک شعر کہا تھا اور ایک بڑے کاغذ پر جلی حروف میں لکھ کر باہر لٹکوا دیا تھا
کانگریس آ رہی ہے ننگے پاﺅں
جی میں آتا ہے بڑھ کے دوں جوتا
ویسے تو حبیب جالب مرحوم کا بھی وہ شعر یاد آ رہا ہے جس میں انہوں نے ہر بلاول کے مقروض ہونے اور ہر بے نظیر کے ننگے پاﺅں ہونے کا ذکر کیا تھا۔ اس پر بات ہو گی تو بات بڑھ جائے گی اس لئے آخر میں بس اکبر آبادی مرحوم کا یہ شعر نقل کر کے اس مکا مارنے والے کو سلام عقیدت پیش کر کے اجازت چاہتے ہیں
ڈاسن نے اک بوٹ بنایا اور میں نے ایک مضمون لکھا
ملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا