برگد ....
رفیع جمال
صدر آصف علی زرداری نے امریکہ کے اولین دورے کے موقع پر کہا تھا‘ قوم جان لے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ مستقبل کا حال بتانے والے اور آنے والے دور کے حوالے سے فال نکالنے والے امریکی صدر اور ان کی کابینہ نے ان کے لئے یہی فال نکالی تھی اور یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکہ میں صرف چہرے بدلتے ہیں مگر جو فال نکال لی جاتی ہے نہیں بدلتی۔ سو‘ کیا بش قلندر اور کیا اوباما درویش‘ فال نکالی جا چکی ہے اور ہم ایسے علاقے میں بستے ہیں جہاں ہمیشہ شخصیت پرستی کو رواج رہا ہے چنانچہ ہم تو اپنا پیر خانہ بدلیں گے نہیں ”پیر پار لگائے یا بیچ منجدھار کے چھوڑے“ جب دل تمہارے قبضہ قدرت میں دے دیا۔
وہ وقت ابھی دور نہیں گیا جب جاوید اقبال نامی ایک شیطان صفت شخص نے مبینہ طور پر سو بچوں کو قتل کر کے تیزاب میں گلا دیا تھا اور پکڑے جانے کے بعد چاروں جانب سے اسے پھانسی پر نہ چڑھانے کی اپیلیں آ رہی تھیں کہ یہ غیر انسانی فعل ہے وہ تو اپنے جیل خانے میں موت سے دوچار ہوا اور کیس پر CLOSED لکھ کر پولیس نے بھی جان چھڑا لی مگر آج امریکی ڈرون بغیر کیس چلائے‘ بغیر کچہری لگائے‘ ہمارے ہی ملک میں بسنے والے شہریوں پر میزائل برساتے یا اپنی فوج ان کو مار کے اپنی جان چھڑائے‘ ساری دنیا تو خوش ہے۔ اس سے بھی کہ ہم نے پاک فوج کو مصروف رکھا ہوا ہے اور اس سے بھی کہ اچھا ہے الزام بھی انہی پر لگے اور ہاتھ بھی انہی کے استعمال ہوں۔ نہ جانے کیوں مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں بھی اس جرم میں برابر کا شریک ہوں۔ قائدہ تو یہ ہے کہ اگر کسی سے قتل کا جرم سرزد ہو جائے تو سزا اسی کو ملتی ہے جس نے کیا۔ اس کے بیوی بچے یا گھر کے دوسرے افراد کو نہیں‘ یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ فرض کیجئے اگر کوئی شخص خود کش حملوں کی منصوبہ بندی یا ایسی کسی واردات میں ملوث پایا جائے تو اسے پکڑا جائے‘ اس کے ساتھیوں کو پکڑا جائے‘ لازماً سزا وار ٹھہرایا جائے مگر دہائی ہے وہ لوگ جن پر دنیا کی کسی عدالت نے مقدمہ نہیں چلایا‘ کسی کچہری میں انہیں پابجولاں ہی سہی نہیں لایا گیا‘ جن پر کوئی حد کوئی آرڈیننس لاگو نہیں کیا گیا جو انہیں سزا کا حقدار ٹھہرائے‘ محض میزائل چلایا اور فیصلہ کیا‘ کیا انصاف اور کیا انصاف کے تقاضے؟
محسوس ہوتا ہے کہ دو چیزوں کو ایک ساتھ چھپایا جا رہا ہے۔ اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی خامیوں کو اور اپنی کابینہ کے دیدہ وروں کی کج فہمی کو۔ عوام سوچتے ہیں کہ بندہ خدا ایک سو افراد پر مشتمل کابینہ کو ایک ہی حل نظر آیا جو آج سے 39سال قبل نظر آیا تھا۔ ملٹری ایکشن‘ ملٹری ایکشن‘ صرف اس لئے کہ آپ کا پیرخانہ ایسا چاہتا ہے۔ پاکستان میں کیا بات کیوں ہوتی ہے یہ تو پتہ نہیں لیکن جب حساب کرنے والے دو اور دو چار کرتے ہیں تو ذمہ داروں میں اپنے ہی کیوں نکلتے ہیں؟ اب بتایئے بھلا عراقیوں کو امریکہ کی مدد سے صدام کی حکومت گرا کر کیا ملا۔ صدام برا تھا تو عراقی اپنے مسائل خود حل کر لیتے۔ صدام کے خلاف تحریک چلا کر ہی سہی مگر جب بھی کوئی قوم اپنے لوگوں پر غیر کو ترجیح دیتی ہے اپنی قوم پر غیر کے ذریعے ظلم کراتی ہے یا غیر کی مدد سے اپنے ہی لوگوں پر ظلم کرتی ہے‘ تباہ ہو جاتی ہے۔ کل بھی ایسا ہوتا تھا‘ آج بھی ہوتا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ ہزاروں لوگ عراق میں ہر مہینے مرتے ہیں محض امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے اور ایسا ہی اب پاکستان میں بھی ہوتا ہے۔ قومیں مختلف بیعت کے طریقے مختلف‘ سلوک کی منزلیں مختلف‘ ملنے والے انعامات مختلف مگر پیرخانہ وہی ہے۔
رفیع جمال
صدر آصف علی زرداری نے امریکہ کے اولین دورے کے موقع پر کہا تھا‘ قوم جان لے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ مستقبل کا حال بتانے والے اور آنے والے دور کے حوالے سے فال نکالنے والے امریکی صدر اور ان کی کابینہ نے ان کے لئے یہی فال نکالی تھی اور یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکہ میں صرف چہرے بدلتے ہیں مگر جو فال نکال لی جاتی ہے نہیں بدلتی۔ سو‘ کیا بش قلندر اور کیا اوباما درویش‘ فال نکالی جا چکی ہے اور ہم ایسے علاقے میں بستے ہیں جہاں ہمیشہ شخصیت پرستی کو رواج رہا ہے چنانچہ ہم تو اپنا پیر خانہ بدلیں گے نہیں ”پیر پار لگائے یا بیچ منجدھار کے چھوڑے“ جب دل تمہارے قبضہ قدرت میں دے دیا۔
وہ وقت ابھی دور نہیں گیا جب جاوید اقبال نامی ایک شیطان صفت شخص نے مبینہ طور پر سو بچوں کو قتل کر کے تیزاب میں گلا دیا تھا اور پکڑے جانے کے بعد چاروں جانب سے اسے پھانسی پر نہ چڑھانے کی اپیلیں آ رہی تھیں کہ یہ غیر انسانی فعل ہے وہ تو اپنے جیل خانے میں موت سے دوچار ہوا اور کیس پر CLOSED لکھ کر پولیس نے بھی جان چھڑا لی مگر آج امریکی ڈرون بغیر کیس چلائے‘ بغیر کچہری لگائے‘ ہمارے ہی ملک میں بسنے والے شہریوں پر میزائل برساتے یا اپنی فوج ان کو مار کے اپنی جان چھڑائے‘ ساری دنیا تو خوش ہے۔ اس سے بھی کہ ہم نے پاک فوج کو مصروف رکھا ہوا ہے اور اس سے بھی کہ اچھا ہے الزام بھی انہی پر لگے اور ہاتھ بھی انہی کے استعمال ہوں۔ نہ جانے کیوں مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں بھی اس جرم میں برابر کا شریک ہوں۔ قائدہ تو یہ ہے کہ اگر کسی سے قتل کا جرم سرزد ہو جائے تو سزا اسی کو ملتی ہے جس نے کیا۔ اس کے بیوی بچے یا گھر کے دوسرے افراد کو نہیں‘ یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ فرض کیجئے اگر کوئی شخص خود کش حملوں کی منصوبہ بندی یا ایسی کسی واردات میں ملوث پایا جائے تو اسے پکڑا جائے‘ اس کے ساتھیوں کو پکڑا جائے‘ لازماً سزا وار ٹھہرایا جائے مگر دہائی ہے وہ لوگ جن پر دنیا کی کسی عدالت نے مقدمہ نہیں چلایا‘ کسی کچہری میں انہیں پابجولاں ہی سہی نہیں لایا گیا‘ جن پر کوئی حد کوئی آرڈیننس لاگو نہیں کیا گیا جو انہیں سزا کا حقدار ٹھہرائے‘ محض میزائل چلایا اور فیصلہ کیا‘ کیا انصاف اور کیا انصاف کے تقاضے؟
محسوس ہوتا ہے کہ دو چیزوں کو ایک ساتھ چھپایا جا رہا ہے۔ اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی خامیوں کو اور اپنی کابینہ کے دیدہ وروں کی کج فہمی کو۔ عوام سوچتے ہیں کہ بندہ خدا ایک سو افراد پر مشتمل کابینہ کو ایک ہی حل نظر آیا جو آج سے 39سال قبل نظر آیا تھا۔ ملٹری ایکشن‘ ملٹری ایکشن‘ صرف اس لئے کہ آپ کا پیرخانہ ایسا چاہتا ہے۔ پاکستان میں کیا بات کیوں ہوتی ہے یہ تو پتہ نہیں لیکن جب حساب کرنے والے دو اور دو چار کرتے ہیں تو ذمہ داروں میں اپنے ہی کیوں نکلتے ہیں؟ اب بتایئے بھلا عراقیوں کو امریکہ کی مدد سے صدام کی حکومت گرا کر کیا ملا۔ صدام برا تھا تو عراقی اپنے مسائل خود حل کر لیتے۔ صدام کے خلاف تحریک چلا کر ہی سہی مگر جب بھی کوئی قوم اپنے لوگوں پر غیر کو ترجیح دیتی ہے اپنی قوم پر غیر کے ذریعے ظلم کراتی ہے یا غیر کی مدد سے اپنے ہی لوگوں پر ظلم کرتی ہے‘ تباہ ہو جاتی ہے۔ کل بھی ایسا ہوتا تھا‘ آج بھی ہوتا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ ہزاروں لوگ عراق میں ہر مہینے مرتے ہیں محض امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے اور ایسا ہی اب پاکستان میں بھی ہوتا ہے۔ قومیں مختلف بیعت کے طریقے مختلف‘ سلوک کی منزلیں مختلف‘ ملنے والے انعامات مختلف مگر پیرخانہ وہی ہے۔