شوکت علی شاہ
ایک حالیہ اخباری رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ”پنڈورا بکس“ کھُلنے والا ہے یہ صندوق بورڈ کے گرد آلود ریکارڈ رُوم میں پڑا ہے‘ جسکا ڈھکن آہستہ آہستہ سِرکنے لگا ہے۔ زمینوں اور ریونیو کے معاملات اور ملاقات میں بورڈ کا فرمان نہ صرف مستند بلکہ حرفِ آخر ہوتا ہے۔ ممبر بورڈ کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل دائر نہیں کی جا سکتی‘ صرف ہائیکورٹ میں رٹ ہو سکتی ہے۔ خبر کا تعلق فیصل آباد میں کمرشل سرکاری زمین کی ناجائز الاٹمنٹ سے ہے جس میں ایک پردہ نشین کے علاوہ اُس وقت کے ممبر کالونی اور حال ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا نام آیا ہے جنہوں نے پرویز مشرف کے ”عزیز“ سٹاف آفیسر کے قریبی رشتہ دار ابوبکر عزیز کی درخواست کو نہ صرف PROCESS کیا بلکہ اُسے اِس سفارش کے ساتھ سینئر ممبر کو بھجوایا کہ ابوبکر عزیز کو تین کنال زمین 5 لاکھ روپے مرلہ کے حساب سے دے دی جائے۔ اس زمین کو حاصل کرنے کے لئے ایک MPA نے دس لاکھ روپے فی مرلہ کی پیشکش کی تھی۔ اس طرح نہ صرف ضابطے کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ حکومت کو تین کروڑ روپے کا چُونا بھی لگ گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں وزیراعلیٰ نے کرپشن کے خلاف جہاد شروع کر رکھا ہے۔ اپنے پہلے دور میں اُنہوں نے غلط الاٹمنٹ پر دو PCS افسروں حبیب الرحمن بھٹی اور مسعود قریشی کو جیل بھجوا دیا تھا۔ انہی دنوں ایک DMG افسر کے خلاف بھی مقدمہ درج ہوا۔ وہ زیر زمین چلا گیا۔ مجرم اشتہاری ڈیکلیئر ہوا۔ جب میاں شہباز شریف جلاوطن ہوئے تو نہ صرف مقدمہ ختم ہو گیا بلکہ وہ بطور فیڈرل سیکرٹری ریٹائر ہوا بلکہ اب بھی کنٹریکٹ پر ایک اہم عہدے پر فائز ہے یہ جب ممبر بورڈ آف ریونیو تھا تو قریباً ایک سال تک بغیر تحریری چھٹی ہے PHA کی کلاسیں اٹینڈ کرتا رہا۔ گویا نصف دن کے لئے دفتر سے غیر حاضر رہتا۔ اس بات کی تحقیق بھی ضروری ہے۔ آجکل وہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہے۔ اس کی سب سے بڑی کوالیفکیشن یہ ہے کہ وہ ”موتیوں والی سرکار“ کا بیچ میٹ ہے۔ آخر فارسی زبان کا محاورہ ”اول خویش بعد درویش“ ویسے ہی تو وضع نہیں کیا گیا تھا۔ قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے۔ کسی گورے کو کالے پر یا ”شاہی سروس“ والے کو عام سرکاری ملازم پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ یادش بخیر کافی عرصہ پہلے صفدر کاظمی (PCS) ڈپٹی کمشنر بہاولپور کو کسی مالی بے ضابطگی پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد ڈپٹی کمشنر بہاولنگر احمد سلیم اکبر نے سرکاری زمین بغیر اختیار کے سو روپے فی مرلہ کے حساب سے الاٹ کر دی تو اس کو پابندِ سلاسل نہ کیا گیا۔ بورڈ کے استفسار پر اُس نے لکھا۔ ”میں نے صدیق جٹ ایم پی اے کے ایما پر ایسا کیا ہے۔ دوران تعیناتی اس نے وہاں ایک عالیشان مکان تعمیر کرایا۔ میری موجودگی میں جب وزیراعلیٰ میاں نوازشریف نے استفسار کیا تو بولا۔ ”سر چھوٹا سا مکان ہے“ .... ”محل ہے‘ محل ہے“ اس پر میاں صاحب کا پرائیویٹ سیکرٹری قمر بے ساختہ بول پڑا۔ ایک موجودہ فیڈرل سیکرٹری کو فرانس میں کمرشل کونسلر تعینات کیا گیا۔ وہ تین ماہ کے عرصے میں ہی بغیر چھٹی لئے پاکستان بھاگ آیا۔ سفیر نے حکومت کو لکھا کہ اُس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ حکومت کو اُس کی ”خوشنودی“ چاہئے تھی۔ کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔ اگر ان کا بس چلتا تو اُس ”گستاخ“ سفیر کو برطرف کر دیتے۔ اس قسم کی خلاف ورزیوں‘ ناجوازیوں اور دہرے معیار پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ انگریز چلا گیا ہے لیکن اب بھی کالے انگریز قوم کے اعصاب پر ”پیر تسمہ پا“ کی طرح سوار ہیں۔ اب جبکہ میاں شہباز شریف نے ناانصافیوں کو ختم کرنے کا بیڑہ اُٹھا ہی لیا ہے تو اُنہیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے۔ خوش قسمتی سے اس وقت پاکستان اور پنجاب میں افتخار محمد چودھری اور خواجہ شریف صاحب کی صورت میں انصاف پسند‘ ہردلعزیز اور زیرک چیف جسٹس موجود ہیں۔ اُن کے نوٹس میں بھی یہ باتیں آنی چاہئیں۔ حکومت کو بورڈ کے معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے ممبروں کی اکثریت اسکو TRANSIT CAMP سمجھتی ہے۔ وہ یہاں آتے ہی سیکرٹری بننے کے لئے تگ و دو شروع کر دیتے ہیں۔ مقدمات نبٹانے پر توجہ نہیں دیتے اکثر تو ”ریونیو لائ“ کو اچھی طرح سمجھ بھی نہیں پاتے۔ یہ درست ہے کہ سینئر ممبر اخلاق احمد تارڑ ایک تجربہ کار اور محنتی افسر ہیں لیکن کچھ منشی صورت ایسے ممبر بھی ہیں جو مثلوں سے باقاعدہ مکالمہ کرتے ہیں۔ اے فائل تو کون ہے۔ کہاں سے آئی ہو؟ میرا کیا قصور ہے کہ میرے گلے ڈال دی گئی ہو۔ بورڈ میں ایک ممبر ایسا بھی ہے جو سال میں چند صحیح فیصلے بھی نہیں کر پاتا۔ اُس نے ایک فیصلہ سنایا تو چھ ماہ تک تفصیلی حکم نہ لکھا۔ تبادلے پر صرف یہ لکھ کر چلا گیا کہ میرا جانشین اسکی ازسرنو سماعت کرے۔ ان کے تساہل کا یہ عالم ہے کہ جتنی دیر میں وہ کرسی سے اُٹھتے ہیں‘ اُس وقفے میں ایک قدِ آدم دیوار اُٹھائی جا سکتی ہے۔ ایک صاحب ایسے بھی ہیں جو ایک بجے دفتر آتے ہیں اور پھر رات کو گیارہ بجے تک بورڈ کی بتیاں روشن رکھتے ہیں۔ ماتحت عملہ صرف ایک ہی دعا مانگتا ہے۔ یا اللہ! اگر اُن کو نہیں تو ہمیں ہی رخصت کر دے“۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بورڈ میں تجربہ کار اور ریونیو لاءجاننے والے ممبر لگائے جائیں۔ ایمانداری ضروری ہے لیکن کسی نے درست کہا ہے INEFFICIENCY IS THE WORST FORM OF CORRUPTION
ایک حالیہ اخباری رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ”پنڈورا بکس“ کھُلنے والا ہے یہ صندوق بورڈ کے گرد آلود ریکارڈ رُوم میں پڑا ہے‘ جسکا ڈھکن آہستہ آہستہ سِرکنے لگا ہے۔ زمینوں اور ریونیو کے معاملات اور ملاقات میں بورڈ کا فرمان نہ صرف مستند بلکہ حرفِ آخر ہوتا ہے۔ ممبر بورڈ کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل دائر نہیں کی جا سکتی‘ صرف ہائیکورٹ میں رٹ ہو سکتی ہے۔ خبر کا تعلق فیصل آباد میں کمرشل سرکاری زمین کی ناجائز الاٹمنٹ سے ہے جس میں ایک پردہ نشین کے علاوہ اُس وقت کے ممبر کالونی اور حال ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا نام آیا ہے جنہوں نے پرویز مشرف کے ”عزیز“ سٹاف آفیسر کے قریبی رشتہ دار ابوبکر عزیز کی درخواست کو نہ صرف PROCESS کیا بلکہ اُسے اِس سفارش کے ساتھ سینئر ممبر کو بھجوایا کہ ابوبکر عزیز کو تین کنال زمین 5 لاکھ روپے مرلہ کے حساب سے دے دی جائے۔ اس زمین کو حاصل کرنے کے لئے ایک MPA نے دس لاکھ روپے فی مرلہ کی پیشکش کی تھی۔ اس طرح نہ صرف ضابطے کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ حکومت کو تین کروڑ روپے کا چُونا بھی لگ گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں وزیراعلیٰ نے کرپشن کے خلاف جہاد شروع کر رکھا ہے۔ اپنے پہلے دور میں اُنہوں نے غلط الاٹمنٹ پر دو PCS افسروں حبیب الرحمن بھٹی اور مسعود قریشی کو جیل بھجوا دیا تھا۔ انہی دنوں ایک DMG افسر کے خلاف بھی مقدمہ درج ہوا۔ وہ زیر زمین چلا گیا۔ مجرم اشتہاری ڈیکلیئر ہوا۔ جب میاں شہباز شریف جلاوطن ہوئے تو نہ صرف مقدمہ ختم ہو گیا بلکہ وہ بطور فیڈرل سیکرٹری ریٹائر ہوا بلکہ اب بھی کنٹریکٹ پر ایک اہم عہدے پر فائز ہے یہ جب ممبر بورڈ آف ریونیو تھا تو قریباً ایک سال تک بغیر تحریری چھٹی ہے PHA کی کلاسیں اٹینڈ کرتا رہا۔ گویا نصف دن کے لئے دفتر سے غیر حاضر رہتا۔ اس بات کی تحقیق بھی ضروری ہے۔ آجکل وہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہے۔ اس کی سب سے بڑی کوالیفکیشن یہ ہے کہ وہ ”موتیوں والی سرکار“ کا بیچ میٹ ہے۔ آخر فارسی زبان کا محاورہ ”اول خویش بعد درویش“ ویسے ہی تو وضع نہیں کیا گیا تھا۔ قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے۔ کسی گورے کو کالے پر یا ”شاہی سروس“ والے کو عام سرکاری ملازم پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ یادش بخیر کافی عرصہ پہلے صفدر کاظمی (PCS) ڈپٹی کمشنر بہاولپور کو کسی مالی بے ضابطگی پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد ڈپٹی کمشنر بہاولنگر احمد سلیم اکبر نے سرکاری زمین بغیر اختیار کے سو روپے فی مرلہ کے حساب سے الاٹ کر دی تو اس کو پابندِ سلاسل نہ کیا گیا۔ بورڈ کے استفسار پر اُس نے لکھا۔ ”میں نے صدیق جٹ ایم پی اے کے ایما پر ایسا کیا ہے۔ دوران تعیناتی اس نے وہاں ایک عالیشان مکان تعمیر کرایا۔ میری موجودگی میں جب وزیراعلیٰ میاں نوازشریف نے استفسار کیا تو بولا۔ ”سر چھوٹا سا مکان ہے“ .... ”محل ہے‘ محل ہے“ اس پر میاں صاحب کا پرائیویٹ سیکرٹری قمر بے ساختہ بول پڑا۔ ایک موجودہ فیڈرل سیکرٹری کو فرانس میں کمرشل کونسلر تعینات کیا گیا۔ وہ تین ماہ کے عرصے میں ہی بغیر چھٹی لئے پاکستان بھاگ آیا۔ سفیر نے حکومت کو لکھا کہ اُس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ حکومت کو اُس کی ”خوشنودی“ چاہئے تھی۔ کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔ اگر ان کا بس چلتا تو اُس ”گستاخ“ سفیر کو برطرف کر دیتے۔ اس قسم کی خلاف ورزیوں‘ ناجوازیوں اور دہرے معیار پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ انگریز چلا گیا ہے لیکن اب بھی کالے انگریز قوم کے اعصاب پر ”پیر تسمہ پا“ کی طرح سوار ہیں۔ اب جبکہ میاں شہباز شریف نے ناانصافیوں کو ختم کرنے کا بیڑہ اُٹھا ہی لیا ہے تو اُنہیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے۔ خوش قسمتی سے اس وقت پاکستان اور پنجاب میں افتخار محمد چودھری اور خواجہ شریف صاحب کی صورت میں انصاف پسند‘ ہردلعزیز اور زیرک چیف جسٹس موجود ہیں۔ اُن کے نوٹس میں بھی یہ باتیں آنی چاہئیں۔ حکومت کو بورڈ کے معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے ممبروں کی اکثریت اسکو TRANSIT CAMP سمجھتی ہے۔ وہ یہاں آتے ہی سیکرٹری بننے کے لئے تگ و دو شروع کر دیتے ہیں۔ مقدمات نبٹانے پر توجہ نہیں دیتے اکثر تو ”ریونیو لائ“ کو اچھی طرح سمجھ بھی نہیں پاتے۔ یہ درست ہے کہ سینئر ممبر اخلاق احمد تارڑ ایک تجربہ کار اور محنتی افسر ہیں لیکن کچھ منشی صورت ایسے ممبر بھی ہیں جو مثلوں سے باقاعدہ مکالمہ کرتے ہیں۔ اے فائل تو کون ہے۔ کہاں سے آئی ہو؟ میرا کیا قصور ہے کہ میرے گلے ڈال دی گئی ہو۔ بورڈ میں ایک ممبر ایسا بھی ہے جو سال میں چند صحیح فیصلے بھی نہیں کر پاتا۔ اُس نے ایک فیصلہ سنایا تو چھ ماہ تک تفصیلی حکم نہ لکھا۔ تبادلے پر صرف یہ لکھ کر چلا گیا کہ میرا جانشین اسکی ازسرنو سماعت کرے۔ ان کے تساہل کا یہ عالم ہے کہ جتنی دیر میں وہ کرسی سے اُٹھتے ہیں‘ اُس وقفے میں ایک قدِ آدم دیوار اُٹھائی جا سکتی ہے۔ ایک صاحب ایسے بھی ہیں جو ایک بجے دفتر آتے ہیں اور پھر رات کو گیارہ بجے تک بورڈ کی بتیاں روشن رکھتے ہیں۔ ماتحت عملہ صرف ایک ہی دعا مانگتا ہے۔ یا اللہ! اگر اُن کو نہیں تو ہمیں ہی رخصت کر دے“۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بورڈ میں تجربہ کار اور ریونیو لاءجاننے والے ممبر لگائے جائیں۔ ایمانداری ضروری ہے لیکن کسی نے درست کہا ہے INEFFICIENCY IS THE WORST FORM OF CORRUPTION