عوام پر پٹرولیم بم، حکومت کو آخر کیا مجبوری لاحق ہے؟
حکومت نے عوام کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کی نوید سناتے سناتے ان پر پٹرول بم چلا دیا ہے اور اس طرح انہیں عملاً زندہ درگور کر دیا ہے۔ گزشتہ روز پٹرول کے نرخوں میں 6.72 روپے فی لٹر اضافہ کیا گیا۔ اب پٹرول کے نرخ فی لٹر 233.19 روپے مقرر ہوئے ہیں‘ البتہ حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے ہائی سپیڈ ڈیزل کے نرخوں میں فی لٹر 0.51 پیسے کمی کی گئی ہے جبکہ مٹی کے تیل کے نرخ فی لٹر 1.67 پیسے کم کرکے 199.40 روپے فی لٹر مقرر کئے گئے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اوگرا کی جانب سے حکومت کو پٹرولیم نرخوں میں 6 روپے فی لٹر تک کمی کی سمری بھجوائی گئی تھی تاہم حکومت نے اس سمری کو مسترد کرکے پٹرولیم نرخوں میں اضافہ کا فیصلہ کیا جس کا رات گئے اعلان کیا گیا تو مہنگائی کے مارے عوام اس حکومتی فیصلے پر ششدر رہ گئے۔ صرف پٹرولیم مصنوعات ہی نہیں‘ حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں بھی تسلسل سے اضافہ کیا جارہا ہے۔ ہر ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں آٹھ سے 9 روپے فی یونٹ اضافہ کیا جاتا ہے جبکہ اب حکومت نے بجلی پر مارکیٹ اپریشن فیس بڑھانے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے۔ اس سلسلہ میں سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے مارکیٹ اپریشن فیس کی مد میں ایک روپے 85 پیسے فی یونٹ اضافے کی حکومت کو درخواست کی ہے جس کی منظوری کے بعد بجلی پر اپریشن فیس کی لاگت 4.56 روپے فی یونٹ ہو جائیگی اور بجلی کے صارفین پر 27.58 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑیگا۔
یہ امر واقعہ ہے کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ ادویات اور دیگر اشیائے ضرورت کے مسلسل بڑھتے نرخوں اور ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث عوام میں پیدا ہونیوالے اضطراب سے ہی اپوزیشن جماعتوں کو حکومت مخالف تحریک کیلئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے اور بالآخر وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا موقع ملا تھا۔ اپوزیشن لیڈران کی جانب سے عوام کو یقین دلایا جاتا رہا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر انکے بالخصوص روٹی روزگار کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کرینگے اور انہیں بجلی‘ گیس‘ پٹرول کے نرخوں میں تسلسل کے ساتھ کئے گئے اضافے کے باعث پڑنے والے مہنگائی کے اضافی بوجھ سے نجات دلائیں گے چنانچہ پی ڈی ایم اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے ایسے اعلانات سے عوام کو یک گونہ اطمینان حاصل ہوا اور حکومتی اتحادی جماعتیں بھی عوام کو مہنگائی کے آئے روز اٹھنے والے سونامیوں سے بچانے کیلئے اپوزیشن اتحاد کا حصہ بن گئیں نتیجتاً وزیراعظم کیخلاف اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اور پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ عمل میں آیا جس کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف کی قیادت میں پی ڈی ایم اور اسکی اتحادی جماعتوں کی مشترکہ حکومت تشکیل پا گئی۔
مہنگائی اور بے روزگاری سے عاجز آئے عوام کی نئی حکومت کے ساتھ بھی اسی طرح توقعات وابستہ ہوئیں جیسے انہوں نے عمران خان کے دعوئوں‘ نعروں اور وعدوں سے متاثر ہو کر اپنے گوناں مسائل کے حل کیلئے ان سے توقعات وابستہ کی تھیں اور اسی بنیاد پر انہیں 2018ء کے انتخابات میں اقتدار کا مینڈیٹ بھی دیا تھا‘ مگر عوام کو موجودہ حکومت نے بھی اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں ہی اسی طرح مایوس کیا جیسے وہ پی ٹی آئی کے اقتدار کے آغاز ہی میں حکومتی مالی اور اقتصادی پالیسیوں کے نتیجہ میں بڑھنے والی مہنگائی کے باعث مایوس ہوئے تھے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بے مہابہ اضافہ کرتے ہوئے عذر یہ پیش کیا گیا کہ عمران خان آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدہ پر عملدرآمد کیلئے بدعہدی کرکے ہمیں آزمائش میں ڈال گئے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف نے ناراض ہو کر پاکستان کو قسط کی ادائیگی روک دی ہے۔ اس حوالے سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل جو اپوزیشن کے دور میں آئی ایم ایف کے قرضوں کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کیا کرتے تھے‘ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں آئے روز اضافے کیلئے نئے نئے عذر پیش کرتے نظر آتے رہے اور ایک ہی ماہ میں پٹرولیم نرخوں میں تین بار ناقابل برداشت اضافہ کرکے عوام کو زندہ درگور کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پھر حکومت نے ایک بار پٹرولیم نرخوں میں معمولی کمی کرکے اس کا کریڈٹ لینے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس دوران عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم نرخوں میں کمی کا جھکڑ چلا اور گزشتہ دو ماہ کے دوران پٹرولیم نرخوں میں فی بیرل 30 ڈالر تک کمی واقع ہو گئی جس کی بنیاد پر عوام کے علاوہ اقتصادی ماہرین کو بھی توقع تھی کہ اب حکومت کے پاس پٹرولیم نرخوں میں معقول حد تک کمی نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔ خود وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے متعلقہ وزارت کو ہدایت کی گئی کہ پٹرولیم نرخوں کی عالمی مارکیٹ میں کمی سے عوام کو مستفید کیا جائے اور عالمی نرخوں کے تناسب سے ہی پٹرولیم نرخوں میں کمی عمل میں لائی جائے جبکہ انکی کابینہ کے ارکان بھی ایک روز پہلے تک پٹرولیم نرخوں میں متوقع کمی کی عوام کو نوید سناتے رہے جس کے باعث عوام کے دلوں میں حکومت پر اعتماد کے جذبات پیدا ہوئے اور وہ نئے نرخوں کے متوقع حکومتی اعلان کے منتظر ہو گئے۔
اس فضا میں حکومت کی جانب سے پٹرولیم نرخوں میں کمی کے بجائے اضافے کا اعلان عوام کیلئے حیران کن ہی نہیں‘ انکے دلوں میں اضطراب اور اشتعال پیدا کرنے کا بھی باعث بنا ہے۔ عوام اس حوالے سے بھی بجاطور پر تشویش میں مبتلا ہوئے ہیں کہ سٹاک مارکیٹ میں گزشتہ دو ہفتے سے تسلسل کے ساتھ تیزی آرہی ہے۔ پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کے نرخ کم ہوتے ہوتے 210 روپے تک جا پہنچے ہیں‘ سونے کا بھائو بھی تیزی کے ساتھ گر رہا ہے جس سے ملکی معیشت کے مستحکم ہونے کے مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ علاوہ ازیں برادر سعودی عرب بھی ہم پر مہربان ہو رہا ہے جس نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی درخواست کو پذیرائی بخشتے ہوئے پاکستان کیلئے تین ارب ڈالر کے ڈیپازٹ کی مدت میں توسیع کردی ہے اور مؤخر ادائیگی پر تیل فراہم کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات کے عالمی نرخوں میں بھی تسلسل کے ساتھ کمی ہو رہی ہے تو حکومت کو آخر ایسی کونسی مجبوری لاحق ہو گئی ہے کہ اس نے پٹرولیم نرخوں میں سازگار حالات میں بھی اضافہ کرکے عوام کی ناراضگی مول لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا عوام مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کے محض اس بیان پر مطمئن ہو جائیں گے کہ وہ پٹرولیم نرخوں میں اضافے کے فیصلہ کی تائید نہیں کرسکتیں۔ حکومت تو آخر مریم نواز کی ہی ہے جس نے عوام پر پٹرولیم نرخوں میں اضافے کا ہتھوڑا چلایا ہے۔ اگر حکومت کو کوئی ایسی مجبوری لاحق ہوئی ہے کہ اس کیلئے پٹرولیم نرخوں میں کمی کی بجائے اضافہ ناگزیر ہو گیا تھا تو اس سے کھل کر عوام کو آگاہ کرے اور انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرے بصورت دیگر عوام کے بے قابو ہوتے جذبات اسی طرح موجودہ حکومت کے بھی گلے پڑیںگے جس طرح مضطرب عوام نے پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ کی راہ ہموار کرکے اس وقت کی اپوزیشن (موجودہ حکمرانوں) کو وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا موقع فراہم کیا تھا۔ حکومت کو اس حوالے سے کم ازکم تاریخ سے ضرور سبق حاصل کرنا چاہیے۔
اس وقت جبکہ قومی اسمبلی کے 9 حلقوں کے ضمنی انتخابات کا پراسس بھی شروع ہو چکا ہے‘ عوام پر پٹرول بم چلانا درحقیقت اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ حکومت کو اگر آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی مجبوری لاحق ہے تو وہ عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرے اور فوری طور پرنئے انتخابات کی جانب چلی جائے جس کا عمران خان تسلسل سے تقاضا کر رہے ہیں۔ بصورت دیگر حکومت عوام پر ڈالے گئے مہنگائی کے بارِگراں کے ساتھ عوام کے پاس جائیگی تو عوام حکمرانوں کے گلے میں ہار ڈال کر ان کا ہرگز استقبال نہیں کرینگے۔