جوہر عازم سے نکلا ہو پریشان نکلا
مانگنے والے نے اپنے رب سے اسلام کے عملی نفاذ کے لئے پاکستان مانگا تھا۔ رب نے مانگنے والے کی نیت خلوص اور جدوجہد کی صداقت روی پر نعمتوں بھرا ملک پاکستان بخش دیا۔ قائداعظمؒ سرخرو ہوئے علامہ محمد اقبالؒ کی روح کو قرار آ گیا۔ میں 1949ء سے نوائے وقت کا قاری ہوں‘ جماعت اسلامی کے اخبارات و رسائل کے علاوہ اردو کا اور کوئی اخبار نہ خریدا نہ پڑھنے کو دل چاہا۔ اداریہ دلی سکون اور مجھے اپنی دلی آرزو کے مطابق مطمئن کرتا ہے۔ بابائے قومؒ اور علامہ اقبالؒ کی آرزوؤں کو پروان چڑھنا چاہئے تھا۔ 1947ء آزادی کے دن سے جنرل ایوب خان کے جنرل یحیٰی کو اقتدار منتقل کرنے کے دن تک مسلم لیگ کی بھی حکومتیں ملک حکمران رہی ہیں صرف نیک نام سردار عبدالرب نشتر مرحوم‘ خواجہ ناظم الدین مرحوم یا مولوی تمیز الدین خان مرحوم وغیرہ ہی صرف مسلم لیگی نہ تھے۔ اسمٰعیل ابراہیم چندریگر وزیراعظم بھی مسلم لیگی تھے جنہوں نے مولوی تمیز الدین خان کے کیس میں فیس کے بغیر پیروی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ملک فیروز خان نون وزیراعظم بھی مسلم لیگی تھے۔ جو ملکہ برطانیہ کے سامنے کورنش بجا لائے اور عرض کیا ملکہ عالیہ ہم تین پشتوں سے آپ کے نمک خوار اور تابعدار ہیں۔
مادر ملت کو صدارتی الیکشن میں دھاندلی سے شکست سے دوچار کرنے والے ڈیڈی اور بیٹا بھی مسلم لیگی تھے۔ ڈی سی اور ایس پی کو پارٹی سے ضلعی صدر اور سیکرٹری بنانے والے بھی مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری مسٹر بھٹو تھے جنہوں نے میجر جنرل سکندر مرزا کو خط لکھا کہ آپ قائداعظم سے بڑے سیاستدان ہیں‘ انتخابات میں جھرلو‘ دھاندلی اور دھونس اور سرکاری ملازمین اور اعلیٰ بیوروکریسی کو سیاست میں ملوث کرنے والے بھی یہی کھوٹے سکے اور ان کے پروردہ شاگردان سیاست تھے۔ بدعنوانی‘ کرپشن‘ رشوت ستانی متروکہ املاک پر قبضے‘ ناجائز الاٹمنٹیں عام تھیں یہ بیماریاں پھیلتی گئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی بمبئی ہائی کورٹ میں اپنی بھارت میں موجود جائیداد کے مقدمات لڑتے رہے۔ ازراہ عنایت خسروانہ انہیں مل گئیں مسلم لیگ مختلف شکلوں اور ناموں سے موسوم 1947ء سے جنرل یحییٰ خان کے اقتدار سنبھالنے تک بلاشرکت غیرے حکمران رہی جنرل یحیٰی خان کے ساتھ بھٹو نے بغاوت کر کے سازباز کرلی شرابی ٹولے کے ساتھ مستقبل کی پلاننگ کے ساتھ حصول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ اس فسطائی دور میں صرف ڈیرہ غازی خان کے مرد درویش ڈاکٹر نذیر احمد ایم این اے ہی شہید نہیں کرائے اسی سال 1972ء میں خواجہ محمد رفیق بھی شہید کرا دئیے گئے۔
۔ ظلم ہوتا رہا‘ مزدور کسان ہاری کٹتے رہے‘ بلوچستان میں فوج کشی ہوئی‘ ظلم انتہا پر پہنچا تو قدرت کا کوڑا جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی شکل میں برسا ورنہ تو حالات یہ ہو گئے تھے۔
خلق خدا کی گھات میں رند و فقیہ میر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی
تیرے امیر مال مست بھر کے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی خواجہ بلند بام ابھی
باری باری شریف خاندان اور بھٹو شکل زرداری آئے ملک کنگال ہو گیا۔ ملک کا خزانہ غریب عوام کا ٹیکسوں کا جمع کردہ سرمایہ بیرون ملکوں کے بنکوں میں منتقل ہوتا رہا۔ کہتے ہیں دو سو ارب ڈالر سے زائد رقم پاکستانی عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے۔ غیر ملکوں کے بنکوں میں بڑے لوگوں نے جمع کرا رکھی ہے۔ یہ مر جائیں گے ان کے کام بھی نہیں آئے گی توبہ کریں اﷲ سے معافی مانگیں‘ دھن قوم کو واپس کر دیں۔ اسلامی پاکستان بننے دیں۔
تبدیلی کی امید پر عوام نے عمران خان کو آزمانے کا سوچا تھا۔ بیشک یہ عمران خان کرپٹ نہیں‘ لوٹ کھسوٹ کا قائل نہیں مگر یار لوگ دونوں خاندان بیوروکریسی کے ساتھ شراکت سے کرپشن کرتے تھے۔ اب ایک دوسرے کو بچا رہے ہیں۔ یاری کام آرہی ہے عمران خان کی ناتجربہ کاری او چند وزراء کرام کے سوا وفاقی اور صوبائی وزراء ‘ شوباز اور ناتجربہ کار ہیں اب حال یہ ہے
ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
بڑے لوگوں کے اونچے بدنما‘ مسرورمحلوں کو
غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔