او آئی سی کی جگہ ایک نیا اسلامی بلاک
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اب کھل کر کہہ دیا ہے کہ اسلامی ممالک کی تعاون کی تنظیم یعنی او آئی سی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنا مطلوبہ کردار ادا کرے ورنہ اسلامی دنیا ایٹمی پاکستان کو ہمیشہ کے لیے کھو دے گی یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایک نیا اسلامی بلاک تشکیل پانے جا رہا ہے جو کشمیریوں اور فلسطینیوں کے علاوہ دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے مفادات کا نگہبان ہوگا اب عربوں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کا کیا جواب دیتے ہیں ۔ پاکستان کی موجودہ بے چینی کا پس منظر یہ ہے کہ پچھلے سال پانچ اگست سے جب سے بھارت نے اپنے آئین سے کشمیر سے متعلق خصوصی سیکشن 370اور 35اے کو ختم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈائون مسلط کر رکھا ہے اورجس کے باعث 80لاکھ سے زائد کشمیری عملی طور پر قید کی زندگی گزار رہے ہیں اور بھارتی فورسز سرچ آپریشن کے نام پر ریاستی دہشت گردی کے ذریعے ابتک سینکڑوں کشمیریوں کو شہید اور زخمی کر چکی ہے اس ظلم اور زیادتی کے خلاف پاکستان نے او آئی سی کی کونسل آف فارن منسٹرز کا اجلاس بلانے کی سعودی عرب سے کئی مرتبہ در خواست کی ہے کیونکہ اس وقت او آئی سی کی صدارت سعودی عرب کے پاس ہے لیکن بھارت کے ساتھ 35سے 36ارب ڈالرز کی سالانہ تجارت اور بھارت ہی میں 100ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہے سعودی عرب نے ابتک پاکستان کے ساتھ لا تعلقی اور خاموشی کا رویہ اختیار کر رکھا ہے حد تو یہ ہے کہ اس دوران سعودی عرب ، عرب امارات اور بحرین نے نریندر مودی کو اپنے اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ بھی دیے ہیں جس پر پاکستانیوں کے دل جلتے ہیں ۔دراصل عرب حکمران اب اسرائیل کی گود میں جا بیٹھے ہیں کیونکہ انہیں تر کی کی طرف سے سلطنت عثمانیہ کی بحالی کا ڈر لگا ہوا ہے تر کی کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور پاکستان میں ارتغل غازی کی نمائش بھی عربوں کا پسند نہیں ہے اس کے علاوہ یمن کے حوالے سے پاکستان کا غیر جانبدارانہ کردار بھی عربوں کو اچھا نہیں لگا جبکہ ایران اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور چار سو ارب ڈالرز کے معاہدے اور پھر ایران کی سی پیک میں شمولیت اور ایران کا بھارت کو چھوڑ کر پاکستان کی طرف رجوع کر نا بھی عربوں کا ہضم نہیں ہو رہا اسی طرح قطر کے پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات بھی سعودی ولی عہد کو پسند نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ اب سعودی عرب کھل کر پاکستان کی مخالفت میں آگیا ہے اس سے پہلے بھی ملائشیاء سمٹ کانفرنس میں جا رہے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو دبائو کے ذریعے روک کر سعودی ولی عہد نے پاکستان کی قومی غیرت کو زخمی کیا تھا اور اب بھی سعودی حکمران پاکستان کو ہر مسئلے میں ڈیکٹیٹ کر نا چاہتے ہیں اس کے علاوہ پاکستان کو دیے گئے تین ارب ڈالرز قر ضے بھی واپس مانگ لیے گئے ہیں جبکہ رعایتی نر خ پر فراہم کیا جانے والا تیل بھی وسط جولائی سے بند کر دیا گیا ہے پاکستان نے سعودی عرب کا ایک ارب ڈالرز کا قرضہ سود سمیت واپس کر دیا ہے جبکہ دو ارب ڈالرز واپس کرنے کا انتظام کر رہا ہے اس کے علاوہ عرب امارات نے بھی اپنا قرضہ پاکستان سے واپس مانگا ہے جس کا مقصد پاکستان کو دبائو میں لانا ہے دراصل سعودی ولی عہد اوردبئی کے حکمران صرف یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان وہ کرے جو ہم چاہیں اور وہ نہ کرے جو ہم نہ چاہیں کیونکہ انہیں ایران ،ترکی ،قطر ،چین اور ملائشیاء پسند نہیں ہیں جن کے ساتھ خوشگوار تعلقات پاکستان کے قومی مفاد میں ہیں جبکہ عربوں کو بھارت ،اسرائیل اور امریکہ پسند ہیں اور یہ تینوں ممالک پاکستان کے خلاف ہیں ظاہر ہے پاکستان نے اپنے قومی مفادات کو دیکھنا ہے سعودی یا دبئی کے حکمرانوں کی ذاتی خواہشات کا غلام نہیں بننا یہی وجہ ہے اب عرب حکمران کھل کر پاکستان دشمنی پر اتر آئے ہیں ۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا تقدس ہمارے دل و دماغ میں بستہ ہے جن کے لیے جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کی جانیں بھی حاضر ہیں اسی طرح سعودی عرب کی محبت بھی ہمارا اثاثہ ہے لیکن سعودی بادشاہت کے آگے اب مزید سر نہیں جھکایا جا سکتاکیونکہ اب پانی سر سے اوپر گزر رہا ہے یقینا سعودی عرب ماضی میں پاکستان کی مالی مدد کرتا رہا ہے تا ہم پاکستان نے بھی سعودی سلامتی اور شاہی خاندان کی حفاظت کے لیے ہمیشہ اپنی فورسز فراہم کی ہیں اس لیے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات باہمی مفادات پر مبنی تھے کوئی بھی کسی پر احسان نہیں کر رہا تھا کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے جس کی لڑائی لڑتے لڑتے ہم آدھا پاکستان کھو چکے ہیں اس لیے پاکستان نے درست طور پر صحیح قدم اٹھایا ہے کیونکہ عرب اور عجم کی حقیقت تاریخ کا ایک کڑوا حصہ ہے ہمیں متبادل بلاک کی فوری اور اشد ضرورت ہے جو دنیا بھر کے بیشتر اسلامی ممالک کی حقیقی آواز بن سکے اس لیے پاکستانی وزیر خارجہ نے جو موقف اپنایا ہے وہ ان کی ذاتی سوچ نہیں ہے بلکہ پوری قوم کی آواز ہے اور یہ ریاست پاکستان کی ایک سوچی سمجھی پالیسی کا اظہار ہے ۔