حکومت اور اپوزیش میں ’’آنکھ مچولی‘‘
حکومت اور اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پ پیپلز پارٹی کے درمیان ’’آنکھ مچولی ‘‘ نے اپوزیشن اتحاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے کبھی پیپلز پارٹی حکومت سے ’’ڈیل ‘‘ کر لیتی ہے تو کبھی مسلم لیگ (ن) کو ملکی مفاد یاد آجاتا ہے دونوں جماعتوں کی آنکھ مچولی نے اپوزیشن کی تیسری بڑی جماعت جمعیت علما اسلام کو ’’مایوس ‘‘ کیا ہے حال ہی میں نیب قانون میں ترامیم پر اپوزیشن کی دونوں جماعتوں اور حکومت کے درمیان ڈیڈ لاک کے باوجود دونوں جماعتوں نے رات کے اندھیرے میں ایف اے ٹی ایف سے متعلقہ بلوں کی منظوری کے لئے حکومت سے معاملہ طے کیا ہے اس پر ان کی اتحادی جماعت جمعیت علما اسلام سخت نالاں ہے کیونکہ ان دونوں جماعتوں نے جمعیت علما اسلام کو اعتماد میں لئے بغیر ہی ’’قومی مفاد ‘‘ کو پیش نظر رکھ کر اپنا معاملہ طے کر لیا ہے دلچپ امر یہ ہے قانون سازی پر پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی تو نیب قانون پر سپیکر ہائوس میں ہونے والے ’’خفیہ مذاکرات‘‘ میں جمعیت علما اسلام کو نظر انداز کر دیا گیا کچھ ایسی صورت حال ایف اے ٹی ایف سے متعلق بلوں پر مذاکرات ہوئے تو بھی ان میں جمعیت علما ء اسلام کو نظر انداز کر دیا گیا جس پر مولانا اسعد محمود نے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور پھر ان بلوں کے خلاف ووٹ بھی دئیے، ان کا موقف ہے کہ ہمیں غدار ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جب کہ جس آئین پر آج ہم سب حلف اٹھا رہے ہیں یہ ہمارے اکابرین کا تیار کردہ ہے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف طویل غیر حاضری کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں آئے تو انہیں بھی اپنی جماعت کے کئے کا احساس ہو گیا انہوں اپوزیشن لابی میں مولانا اسعد محمود کو راضی کرنے کی کوشش کی بعد ازاں وہ انہیں اپنے ہمراہ جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے مظفر آباد بھی لے گئے اس کے باوجود جمعیت علما اسلام کی ناراضی دور نہیں ہوئی اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی جس کی میزبانی کا ’’شرف‘‘ حاصل کرنے پر میاں شہباز شریف نے اصرار کیا اس دوران مولانا فضل الرحمنٰ کی میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں ابتدعا میں آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد میں تاخیر کو میاں شہباز شریف کی علالت کو جواز بنا یاگیا بعد ازاں آل پارٹیز کانفرنس کا ایجنڈا تیا کرنے کے لئے ’’رہبر کمیٹی‘‘ بھال کرنے کا فیصلہ ہو ا لیکن اچانک اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومت سے مبینہ’’ڈیل ‘‘ کی خبروں سے ایک بار پھر آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کھٹائی میںپڑگیا ہے جمعیت علما اسلام اور اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ایف اے ٹی ایف سے متعلق بلوں کی حمایت کرنے پر فاصلے پیدا ہو گئے ہیں جس سے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد غیر یقینی صورت حال کا دوچار ہو گیا ہے مولانا فضل الرحمنٰ کی میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقاتوں کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد میں تیزی آنے کا امکان پیدا ہو گیا تھا لیکن اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کا ایف اے ٹی ایف سے بلوں کی حکومت کی حمایت کرنے سے جہاں جمعیت علما اسلام ناراض ہو گئی ہے وہاں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان آل پارٹیز کانفرنس کے ایجنڈے پر اتفاق رائے نہیں پایا جاتا پاکستان مسلم لیگ (ن) عام انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنی سندھ حکومت بچانے کے لئے ’’ان ہائوس ‘‘ تبیلی کے حق میں ہے شنید ہے بلاول بھٹو زردای کو اپنا سیاسی کھیل کھلنے کا ’’گرین سگنل ‘‘ مل چکا ہے مولانا فضل الرحمنٰ نے دونوں بری جماعتوں کے رہنمائوں کو پیغام بھجوا دیا ہے کہ جب تک آپ کی پالیسی واضح نہیں ہو گی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد بے سود ہو گا انہوں نے برملا اپوزیشن کی ان دو اتحادی جماعتوں کی سیاسی روش پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو اگست کے اواخر یا ستمبر کے اوائل میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ممکن نظرنہیں آتا یہ بات قابل ذکر ہے مولانا فضل الرحمنٰ کی زیر صدارت مذہبی جماعتوں کے سربراہان اور رہنمائوں کا اہم اجلاس ان کی رہائش گاہ پر منعقد ہوچکا ہے جلاس میں مرکزی جماعت اہلحدیث کے سربراہ علامہ ساجد، علامہ شاہ اویس نورانی ، سینیٹر حافظ عبدالکریم اور سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری سمیت دیگر رہنمائوں نے شرکت کی ہے ۔اجلاس میں ملکی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال ا پر تبادلہ خیال ہوا ہے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بھی ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ہے انہوں نے ملکی سیاسی صورتحال اور آئندہ مشترکہ حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا ایسا دکھائی دیتا ہے مولانا فضل الرحمنٰ اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے طرز عمل سے مایوس ہو کر اپنا ’’سیاسی کھیل‘‘ کھیلنے کی تیاری کر رہے ہیں انہوں نے گذشتہ سال تنہا اکتوبر میں خوفناک کھیل کھیل کر حکومت کی راتوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز کی لاہور میں نیب پیشی کے دوران پولیس کی جانب سے مسلم لیگی کارکنوں پر تشدد کی بازگشت سنی گئی ۔