موت کا سوداگر مر گیا
دراصل ہم بحیثیت قوم مزاجاًبہت جلدبازاور جذباتی واقع ہوے ہیں۔اور یہ دونوںاوصاف ہمیشہ غلط فیصلوں کا مو جب بنتے ہیں۔ہم اگر راہ چلتے کسی بندے کو مار پڑتی دیکھ لیںتوپہلے رک کر اسے ماریںگے اور پھر پوچھیںگے کہ ہوا کیا تھا۔اسی جلد بازی کی عادت کے نتیجے میںہم بھول جاتے ہیںکہ یہ جو آج مہنگائی اوربیروزگاری سے بدحال عوام کے ہمدرد اور نجات دہند ہ بن کرہماری آنکھوںمیںپھر سے دھول جھونکنے آگئے ہیں،یہی تو ہیںاس بدحالی کے ذمہ دار،یہ سب کیا دھرا انہی کا تو ہے ۔مگر محض اپنی جذباتی وابستگی کی بنا پرہم ایک بار پھر اسی بھربھری مٹی سے عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور جب وہ دھڑام سے نیچے آگرتی ہے تو پھر شور مچاتے ہیں۔دھوئیں کے بادلوں سے پانی کی امید لگالیتے ہیںاور جب وہ بغیر برسے گزر جاتے ہیں تو پھرہم ان پہ برستے ہیں۔۔چلے ہوئے کارتوسوںسے چلنے کی توقع لگالیتے ہیںاور پھرشکوہ کرتے ہیں کہ ہماری حالت کیوں نہیں بدل رہی ؟بھئی گھاس اگاؤگے توگھاس ہی اگے گی ،گندم تھوڑاہی اگے گی ۔کانٹے بوؤ گے توپھول کیسے نکل آئیںگے ؟ رسول پاکؐ کا فرمان ہے ،ـ ؛مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا،،اور ہم باربارڈسے جانے کے بعدبھی سبق نہیں سیکھتے اور پھر انہی کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔
بس بہت ہو گیا۔اب ہمیںاپنی سوچ کو بدلناہو گا۔اپنے چناؤکے معیار کو بدلناہو گا۔نہ صرف اس سیاسی مافیا سے بچنا ہو گابلکہ رائج الوقت مورثی سیاست اور شخصیت پرستی کی لعنت کو بھی کچلنا ہو گا ۔موروثیت پرستی کا یہ عالم ہے کہ مریم نواز، حمزہ شہباز،بلاول بھٹو،جو خودابھی کسی نمایاں شخصیت کے حامل نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی سیا سی قابلیت کہیں د کھائی دیتی ہے،وہ نکل کر میڈیا کے سامنے یو ں نمودار ہوتے ہیں جیسے کشمیر فتح کر کے آئے ہوںاور اپنے آپ کو بڑاارسطو سمجھنے والے سیاستد ان ،جن کی جو تیا ںگھس گئیں سیا ست کرتے کرتے ،وہ دربار یو ں کی طرح ہا تھ باندھ کر ان مصنو عی لیڈروں کے پیچھے کھڑے ہو جا تے ہیں۔ یہی سب برائیوں کی جڑ ہے،یہ غلامانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے جو جمہوریت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔اوراب ہمیں اپنے نمائندوں کا انتخاب محض بریا نی کی پلیٹوں،گرم انڈوںیاچندٹکو ں کے عوض کرنیکی روایت کوبھی توڑنا ہوگا۔ اور ہمیںاپنے آپ کو اس نقطے پہ جوڑناہو گاکہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اب ہم اپنے ملک کی باگ ڈور کسی کرپٹ ، چوریا بد دیانت کے ہاتھ میںنہیںدیںگے ۔ابھی پچھلے دور میں جب بڑھتی ہوئی کرپشن پہ سنجیدہ لوگ تشویش کا اظہار کرتے تھے تون لیگ کے سپورٹرزیہ کہتے سنائی دیئے کہ : سارے ای کھاندے نے جے او (نواز شریف،شہبازشریف) کھاندے نیںتے لاندے وی نے۔جب کسی قوم کی اخلاقی و ذہنی پستی کا یہ عالم ہو تووہاںکیسے کسی تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے ؟
اگرچہ اس با ت سے قطعی انکار نہیںکیا جاسکتا کہ مو جو دہ حکو مت کے بلند و با لا دعوئوں کے باوجود عوام کے کسی دکھ کا مداوا نہیں ہو سکا۔لیکن ایک بات انتہائی اطمینان بخش ہے کہ کم ازکم قومی خزانہ تونہیں لوٹاجا رہا،اور نہ ہی غریب عوام کا پیسہ سیاسی وصحافتی و فاداریاں خریدنے پر خرچ کیا جا رہا ہے ۔عمران خان پہ کسی کو کوئی اور اعتراض تو ہو سکتا ہے مگران کی دیانتداری پر توکوئی ذ ی شعور اور انصاف پسند دشمن بھی انگلی نہیں اٹھاسکتا لہٰذاپنے لیڈروںکے ساتھ ساتھ،ہم عوام کو بھی اپنے اعمال و اطوارکا تجزیہ کرنا ہو گا۔ جس ملک میں عبادت گزاروںاورنمازیوںکی کوئی کمی نہ ہو ،جس ملک میںبے شمار لوگ عمرہ و حج بیت اللہ کی سعا دت کیلئے جاتے ہوں،لاکھوں لوگ تبلیغی اجتماعات میںشرکت کرتے ہوں، میلادالنبیؐ اور محرم کے جلوس بے مثال ہوں،خدا کی راہ میں قربانی دیدنی ہو،ان گنت دینی مدرسے ہو ں، جو لوگ عبادات وتسبیحات میںکسی سے پیچھے نہ ہوںاور جوعشق رسولؐ میں اس قدر سرشار ہوںکہ اپنے نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی جان لینے اور عظمت و ناموس مصطفی ؐ کیلئے جان دینے سے بھی دریغ نہ کرتے ہوں۔وہ قوم ایمانداری میں دنیامیں 116ویں نمبر پر ہو ،وہا ں عمران خان تو کیاقائداعظم جیسی ہستی بھی آ جائے تو کو ئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔اب بھی کبھی کہیںمائنس ون کے فارمولے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔یاد رکھیں ،مائنس ون کر لیں یا مائنس آل ۔ حالات بگڑتو سکتے ہیں،سنور نہیں سکتے،کیو نکہ نہ ہی تو کوئی متبادل لیڈرشپ ہے اور نہ ہی ایسی قوم!!تبدیلی نیچے سے اوپر جائیگی نہ کہ اوپر سے نیچے ۔اب ہم ا یک ایسے نازک موڑ پر ہیں جہاں اگر ہم نے اپنی پرانی ڈگر کو نہ چھوڑا تو پچھتاواہما رامقدر بن جائے گا۔جب تک ہم پوری قوم اپنے اعما ل و اطوار کو نہیں بدلیں گے ،ہمارے حالات بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،کیونکہ یہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہے ۔ قرآن مقدس کی سورۃ رؒؒؒ عد کی آیت نمبر11میں ارشاد باری تعالی ہے:
ان اللہ لا یغیرو اما بقو م حتی یغیروامابانفسہم۔
بے شک اللہ تعالی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا ، جب تک وہ خو د اپنی حالت نہ بدلیں ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
(ختم شد)