پاکستان میں کرکٹ کیلئے بے پناہ جذبہ ہے: سابق قومی بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور
لاہور(این این آئی) قومی کرکٹ ٹیم کے سابق بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کیلئے بے پناہ جذبہ ہے اور کرکٹرز میں ملک کی نمائندگی کیلئے بڑی بے تابی نظر آتی ہے، لیکن سابق کرکٹرز کی بے جا تنقید اور سیاست ایسے تجربات ہیں جو کبھی دوبارہ نہیں کرنا چاہوں گا، بورڈ میں بھی سیاست ہے۔ایک انٹرویو میں گرانٹ فلاور نے کہا ہے کہ فخر زمان کی بیٹنگ میں تکنیکی مسائل ہیں، بابر اعظم اور حارث سہیل اگلے چند برس میں تسلسل کے ساتھ عمدہ کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، میرے خیال میں حارث سہیل کے جوہر ابھی تک کھل کر سامنے نہیں آ سکے۔بطور بیٹنگ کوچ دیگر اوپنر کیساتھ دیگر کئی بیٹسمینوں کے بھی مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہنے والے گرانٹ فلاور اپنی ناکامی تسلیم کرنے کے بجائے سسٹم میں مسائل کی نشاندہی کرکے دامن جھاڑ بیٹھے ہیں۔فخرزمان چیمپئنز ٹرافی کے بعد دورہ زمبابوے میں تو اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن اس کے بعد وہ اپنے کھیل کا معیار برقرار نہیں رکھ پائے۔پانچ سال کے طویل عرصے تک قومی کرکٹ ٹیم کیلئے بیٹنگ کوچ کے فرائض انجام دینے کے بعد گھر واپس جانیوالے سابق زمبابوین بیٹسمین گرانٹ فلاور کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لوگوں کا دوستانہ رویہ ہے کہ وہ اتنے طویل عرصے تک خدمات کی انجام دہی کرتے رہے جسے وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتے لیکن انہیں پیچھے سے وار کرنے والے سابق کھلاڑیوں کی کمی کبھی محسوس نہیں ہوگی جبکہ وہ ٹی وی چینلز پر صحافیوں کی سیاست کے علاوہ اس سیاسی پہلو کو بھی قطعی یاد نہیں کرنا چاہیں گے جو پی سی بی میں کسی حد تک موجود ہے۔واضح رہے کہ گرانٹ فلاور بھی قومی کرکٹ ٹیم کے اس کوچنگ سٹاف میں شامل تھے جس کے معاہدے کی توسیع نہیں ہو سکی۔ گرانٹ فلاور کے مطابق پاکستانی کھلاڑیوں میں جذبہ اور کھیل سے محبت کی فطری جبلت موجود ہے اور یہ دیکھنا اس وجہ سے بھی اچھا لگا کہ وہ پاکستان کیلئے کھیل کر بہت کچھ حاصل کرتے ہیں اور نہ کھیلنے پر انہیں بہت کچھ گنوانا پڑتا ہے جس کا ان کے ساتھ خاندان بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔سخت سکیورٹی کی وجہ سے آزادی کے فقدان کی نشاندہی کرنیوالے گرانٹ فلاور کا کہنا تھا کہ چیمپئنز ٹرافی کی فتح ان کیلئے ذاتی اعتبار سے بہت بڑی کامیابی تھی لیکن جن چند مواقع نے انہیں بری طرح مایوس کیا ان میں عالمی کپ کے دوران ویسٹ انڈیز کیخلاف ناکامی تھی جو سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔انہوں نے بابر اعظم کو بہترین پاکستانی کھلاڑی قرار دیا جن کی انہوں نے کوچنگ کی جبکہ حارث سہیل کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے کہیں کمتر محسوس ہوئے جن کی بہترین اہلیت لوگوں نے ابھی دیکھی ہی نہیں ہے۔