اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر ہونے والے اجلاس کی وجہ سے یہ بات تو ایک مرتبہ پھر دنیا پر واضح ہو گئی کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ اجلاس پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی درخواست پر طلب کیا گیا جبکہ اس معاملے پر چین نے بھی میٹنگ بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ لگ بھگ سوا گھنٹے تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پندرہ رکن ممالک کے مندوبین شریک تھے۔ بھارت اس اجلاس کی مخالفت کرتا رہا اور اس کی یہی کوشش رہی کہ مختلف ذرائع استعمال کر کے اس اجلاس کو روکا جا سکے تاہم پچاس سال میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر آیا ہے اور اقوام عالم میں مظلوم کشمیریوں کے حقوق کی بات ہوئی ہے۔ لگ بھگ سوا اٹھارہ ہزار دن بعد اقوام متحدہ میں کشمیریوں پر بھارت کے ہونے والے ظلم و ستم پر بات ہوئی ہے۔ یہ لکھتے ہوئے روح کانپ جاتی ہے کہ اٹھارہ ہزار سے زائد دن گذر گئے، دنیا کی تمام مہذب قومیں، امن کے عالمی چیمپئن، دنیا کو امن کا سبق دینے والے، امن اور دہشت گردی میں فرق سمجھانے والے، انسان تو انسان جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھنے والے تمام ترقی یافتہ اور مہذب ممالک نے آنکھیں بند رکھیں، بھارت کو نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھانے، معصوم کشمیریوں کے قتل عام اور خواتین کی عصمت دری کا لائسنس دیے رکھے۔ اس عرصے میں بھارت نے کشمیریوں پر بے پناہ ظلم ڈھائے، ظلم و بربریت کی نئی تاریخ رقم کی لیکن کسی نے اسے نہیں روکا، بھارت نے جنت نظیر کشمیر کو سرخ کر دیا لیکن سب خاموشی سے تماشا دیکھتے رہے، اسے پاکستان کی سفارتی کامیابی لکھا جائے یا امن پسند دنیا کی ناکامی کہا جائے۔ بہر حال یہ تاریخ اتنی تکلیف دہ ہے کہ جیسے جیسے لکھتے جائیں، پڑھتے جائیں اس کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ عالم اسلام کی اس بے حسی پر بھی تاریخ ہمیشہ ماتم کرے گی۔ ان اٹھارہ ہزار دنوں میں اسلامی ملکوں کے جتنے بڑے سربراہان گذرے ہیں انہیں بھی جواب تو دینا پڑے گا کہ جب کشمیر میں معصوموں کی عزتیں پامال ہو رہی تھیں، نہتے کشمیریوں کا خون بہایا جا رہا تھا انہوں نے اس ظلم کو روکنے کے لیے کچھ کیا یا نہیں۔ نہ عالم اسلام جاگا نہ امن کے عالمی چیمپئن نے توجہ دی۔ اس بے رخی پر سوائے ماتم کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ذرا سوچیے اٹھارہ ہزار دن، یہ برس دو برس کی بات نہیں نصف صدی کا قصہ ہے۔ دنیا نے نصف صدی لگا دی، سلامتی کونسل نے نصف صدی خرچ کر دی، ظالم بھارتی افواج نے اٹھارہ ہزار دن ظلم ڈھا لیے لیکن کوئی طاقت، کوئی ظلم، کوئی ہتھیار، کوئی عمل کشمیریوں کے جذبے کو نہیں دبا سکا۔ آج بھی آزادی کی جنگ لڑی جا رہی ہے اور بھارت نے اس جدید دور میں رابطے کے تمام ذرائع ختم کر دیے ہیں۔ نو لاکھ فوج کی تعیناتی نے وادی کو چھاؤنی میں تبدیل کر دیا ہے۔ کھانا پینا بند ہے، ادویات بند ہیں، آواز بند ہے، لوگوں کے اپنے ہی گھروں کو جیل میں بدل دیا گیا ہے،ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حالات میں سلامتی کونسل کا شکریہ ادا کیا جائے یا اس تاریخی بے حسی کی مذمت کی جائے فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ پڑھنے والوں کا دل کرتا ہے تو شکریہ ادا کر دیں، برا بھلا کہنے چاہتے تو بھی اجازت ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد ملیحہ لودھی، اور شاہ محمود نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اسے حکومت کی سفارتی سطح پر کامیابی کہا جا سکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے اچھے انداز میں پاکستان کا۔موقف پیش کیا ہے۔ انہیں اس وقت بہت متحرک رہنے کی ضرورت ہے۔ ہر وہ راستہ استعمال ہونا چاہیے کہ بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے رکھا جائے، بھارتی ہٹ دھرمی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے، بھارتی وزیر دفاع کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر جاری بیان کو بھی دنیا کے سامنے رکھا جائے، یہ تمام کام وزارت خارجہ کے ذمے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اہم کاروباری افراد کو دنیا میں بھیجا جائے، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نمایاں طلبا و طالبات کے وفود بیرونی دنیا میں بھیجے جائیں تاکہ وہ دنیا کے سامنے پاکستان کی طرف سے امن کی خواہش کو پیش کریں، کشمیر میں بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے رکھیں اور انہیں حقیقت سے آگاہ کریں۔ اس ضمن میں تمام موجود وسائل کو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ ویسے تو جنگ کے علاوہ بھارت کوئی زبان نہیں سمجھے گا لیکن پھر بھی جنگ سے بچنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ بھارت نے تمام عالمی معاہدوں کو توڑتے ہوئے کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے، اس نے طاقت کے زور پر کشمیر بند کر دیا ہے، وہ ایسی ہی کارروائیاں پانی کے مسئلے پر پاکستان کے ساتھ کرے گا۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کے پاس جنگ کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ اب یہ مہذب دنیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں ملکوں کے لیے اس مسئلے کا قابل قبول حل نکالے، ایسا حل جس میں کشمیریوں کو اپنی مرضی کا حق حاصل ہو اور وہ کسی دباؤ کے بغیر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں۔
اگر پاکستان کو دریاؤں کے مسئلے پر تنگ کیا گیا تو پھر ہمارے پاس آپشنز ختم ہو جائیں گے اس لیے بہتر یہی ہے کہ دنیا بھارت کو ایسی جارحیت سے روکے۔ بیرونی دنیا کے بھارت میں تجارتی مفادات ہیں، مالی دلچسپیاں ہیں ان کی حفاظت ضرور کریں لیکن یہ بھی جان لیں کہ لگ بھگ سوا ارب افراد کی مارکیٹ اس وقت تک ہی منافع بخش ہو سکتی ہے جب وہاں کاروبار ہو۔ اگر مارکیٹ ہی ختم ہو گئی تو کاروبار ختم ہو جائے گا۔ کیا دنیا جاپان پر گرنے والے ایٹم بموں کی تباہ کاریوں کو بھول چکی ہے اب ایسا کچھ ہوا تو تباہی و بربادی اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔ پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا مسئلہ کشمیر پر جنگ روکنے کا ذریعہ وہاں کے رہنے والوں کی خواہشات اور دنوں ملکوں کے لیے قابل قبول حل ہے۔ جس حد تک کشیدگی ہو چکی ہے اور جو عزائم بھارت رکھتا اس کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ بھارت ایٹمی ہتھیاروں کو چلانے میں بھی پہل کر سکتا ہے اس کے بعد سوچئے کیا ہو گا۔
قارئین کرام گیند پاکستان کے کورٹ سے نکل کر عالمی طاقتوں کے پاس جا چکی ہے۔ پاکستان نے اب تک انتہائی تحمل مزاجی اور صبر سے کام کیا ہے۔ بھارتیوں کے دہشت گرد پکڑے ہیں، نقصان برداشت کیا ہے لیکن جب بات حد سے بڑھ جائے گی تو کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔ اٹھارہ ہزار سے زائد دن تک مزید کشمیر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان امن کی خواہش اور تباہی کے راستے بارے دنیا پر واضح کر چکے ہیں تو دوسری طرف نریندرمودی نے اپنی حکومت کے اقدامات کی تعریف کی ہے۔ بھارت اگر باز نہ آیا تو سب کی سرمایہ کاری کو آگ لگ جائے گی، سب کے ڈالر جل کر بھسم ہو جائیں گے، سب کی سرمایہ کاری تباہ ہو جائے گی۔ اس سے پہلے پہلے کر لیں جو کرنا ہے ورنہ سب کچھ ماضی کا حصہ بن جائے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024