’’پہلے پارلیمانی سال کی کارکردگی مایوس کن‘‘
15 ویں قومی اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال مکمل ہو گیا۔ حکومت نے 11 اگست 2019ء کو قومی اسمبلی کے ایام کار مکمل تو کر لیے لیکن قومی اسمبلی کی پورے سال کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ قانون سازی نہ ہونے کے برابر رہی۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدہ تعلقات کار کا پارلیمنٹ کی کارکردگی پر منفی اثر پڑا۔ آئے روز حکومت اور اپوزیشن کے جھگڑے کی وجہ سے قومی اسمبلی کے اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہوتے رہے۔
آج کی اپوزیشن کو عددی اعتبار سے پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی اپوزیشن کہا جا سکتا ہے۔ ماضی میں ایک دوسرے کی انتہائی مخالف پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پارلیمان میں متحدہ اپوزیشن کی صورت اختیار کر چکی ہیں ، دونوں نے ایک دوسرے کو نوے کی دہائی میں دو دو میں سے ایک بھی دور کی مدت پوری نہیں کرنے دی تھی تاہم بعدازاں میثاقِ جمہوریت کے تحت دونوں نے کافی قریب آ کر مشرف کو صدارت سے کنارہ کشی پر مجبور کیا۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد مرکز ا ور پنجاب میں دونوں نے مخلوط حکومت بنائی اور جلد ہی راہیں الگ بھی کر لیں اور پھر اختلافات بڑھتے گئے اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور اقدامات میں نوے کی دہائی کی جھلک بھی نمایاں ہونے لگی تاہم دونوں نے ایک دوسرے کی مدت پوری کرانے میں تعاون بھی کیا، ان کے اختلافات اور ایک دوسرے پر الزامات کو عمران خان کی تحریک انصاف نے کیش کرایا ۔وہ مسائل و کرپشن کے خاتمے اور کرپٹ لوگوں کے کڑے احتساب کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اقتدار میں آ گئے ۔ احتساب کے کڑے عمل نے پی پی پی اور نواز لیگ کو پھر قریب کر دیا اور ایک متحدہ اپوزیشن وجود میں آ گئی جو حکومت کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ نہیں۔ حکومت کی طرف سے بھی عدم برداشت کا مظاہرہ کیا گیا، حکومت کو بہرحال تحمل سے کام لینا ہوتا ہے مگر پارلیمان میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی روایت مستحکم ہو رہی ہے۔ حکومت کو اپوزیشن کے جائز تحفظات دور کرنا ہوتے ہیں۔ اپوزیشن کو شکوہ ہے کہ حکومت اس کی بات نہیں سنتی۔ حکومت کی طرح اپوزیشن کو بھی قانون کے مطابق مراعات حاصل ہیں یہ سب جمہوریت کے مرہون منت ہے لہٰذا جمہوری سفر جاری رہنا چاہئے۔ فریقین سیاسی اختلافات کو ذاتیات پر نہ لے جائیں۔ آئین اور قانون کے تحت ورکنگ ریلیشن برقرار رہنا چاہئے۔ دوسری صورت میں جمہوریت کا مردہ خراب ہوتے دیر نہیں لگتی۔