ہفتہ ‘ 15؍ ذی الحج 1440ھ ‘ 17 ؍ اگست 2019 ء
دو عشروں میں امریکہ‘ بھارت سٹریٹجک پارٹنر شپ میں تبدیلی ہوئی۔ پومپیو
15 اگست کو بھارتی یوم آزادی کے موقع پر ایک پیغام میں امریکی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ اب ہماری سٹریٹجک پارٹنر شپ، تو من شدی، من تو شدم کے دائرہ میں داخل ہو گئی ہے، چند دنوں بعد دُنیا دیکھے گی، کہ امریکی ڈالر نے بھارتی روپے اور بھارتی روپے نے امریکی ڈالر کی جگہ لے لی ہے۔ اگر امریکی وزیر خارجہ کی بجائے کسی اور جانب مثلاً بھوٹان، سکم وغیرہ سے ایسا پیغام آتا تو ہمیں بحیثیت پاکستانی اتنا صدمہ نہ ہوتا۔ اگرچہ جارج پومپیو نے امریکہ بھارت سٹریٹجک پارٹنر شپ کی تاریخ ولادت نہیں بتائی، لیکن دو عشروں کا مطلب ہے بیس سال قرائن بتاتے ہیں کہ اس پارٹنر شپ کی ’’ولادت با سعادت‘‘ 1999ء یا اس کے آس پاس ہوئی ہو گی اور یہ وہ زمانہ ہے، جب امریکہ نے افغانستان کے خلاف جارحیت کی حماقت کی، اس حماقت یا گناہ کا خمیازہ پاکستان، جانی و مالی نقصانات، داخلی امن و استحکام، ترقی اور خوشحالی کے سفر کو داؤ پر لگا کر بُھگت رہاتھا۔ دو بڑے منافقوں کی یہ پارٹنر شپ اب عنفوان شباب میں داخل ہو گئی ہے اور اس کی جوانی رنگ لا رہی ہے، بلکہ رنگ دکھا رہی ہے، وزیراعظم عمران خان کو وائٹ ہاؤس کے دورے کی دعوت دی گئی۔ صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کر دی۔ جس نے سنا دنگ رہ گیا۔ امریکہ اور کشمیر پر ثالثی؟ ہم نے ٹرمپ کو یہ بات کہتے، دیکھتی آنکھوں، اور سنتے کانوں سے نہ سنا ہوتا تو کبھی یقین نہ کرتے، لیکن مومن پھر اپنی سادگی کے ہاتھوں مار کھا گیا۔ چند دن نہیں گزرے تھے کہ مودی نے پانچ اگست کو آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو ختم کر کے، اُس کشمیر کا ٹنٹا ہی ختم کر ڈالا جس پر بھارت کے سٹریٹجک پارٹنر صدر ٹرمپ ثالثی کے لئے وضو کر رہے تھے۔ نریندر مودی نے آئین سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق دفعات خارج کر کے، ایسی آگ لگائی ہے کہ جس کی تپش وائٹ ہاؤس تک پہنچے گی۔ سلامتی کونسل کا اجلاس ہو رہا ہے۔ امریکی نمائندے کی تقریر سے پتہ چل جائے گا۔ کہ امریکہ کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکہ اگر پاکستان کے ساتھ نہیں کھڑا ہونا چاہتا، بے شک نہ ہو، لیکن کم از کم حق و انصاف کو تو پامال نہ کرے۔ بلکہ منافقت کی انتہا ہے کہ پاکستان امریکہ کی فتح کے لئے گولہ و بارود سے کھیل رہا تھا، تو دوسری طرف امریکہ اور بھارت پالنے میں اپنی نام نہاد سٹریٹجک پارٹنر شپ کو لوریاں دے کر اور پال پوس کر پروان چڑھا رہے تھے اور جب یہ پارٹنر شپ ، کشمیریوں کا خون چوس چوس کر جوان ہوئی، تو پاکستان کی سلامتی کے درپے ہو گئی۔
٭٭٭٭
فیصل آباد کی پہچان تاریخی گھنٹہ گھر 114 برس کا ہو گیا
یہ گھنٹہ گھر ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں 1905ء میں بنایا گیا تھا۔ انجینئرنگ کا کمال یہ تھا، کہ برطانوی جھنڈے کی طرز کے اس گھنٹہ گھر سے آٹھ بازار مختلف سمتوں کو پھوٹتے تھے۔ پنجاب میں نیا نیا نہری نظام جاری ہوا تھا۔ یہاں اور وہاں بستیاں آباد ہو رہی تھیں، نئے نئے شہر بسائے جا رہے تھے۔ اُس وقت پنجاب کا گورنر لائل گرانٹ تھا۔ اُس کے نام پر ساندل بار میں بسنے والے اس شہر کو لائل پور کا نام دیا گیا۔ لائل گرانٹ اُن برطانوی افسروں میں سے تھا۔ جو ہندی ثقافت کے دل دادہ تھے۔ کچھ عرصہ پہلے لائل گرانٹ کے پوتے، پاکستان میں برطانیہ کے سفیر تھے، موصوف عادات و اطوار میں دادا سے بہت مماثلت رکھتے تھے۔ صدر ضیاء الحق کے دور میں لائل پور کا نام بدل کر عالم اسلام کے بطل جلیل سعودی عرب کے شہید بادشاہ ملک فیصل بن عبدالعزیز کے نام پر فیصل آباد رکھ دیا گیا، یہ تو ہوئی فیصل آباد کی تاریخ، اور اس حوالے سے تاریخی گھنٹہ گھر کا تعارف، لیکن اسے ادبی استعارہ کی شہرت اُس وقت ملی، جب 60 کے عشرے میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رستم کیانی نے ایوب خان کی آمریت اور اقتدار پر گرفت کو، فیصل آباد کے گھنٹہ گھر سے تشبیہ دی۔ جسٹس کیانی مرحوم بھی بڑی دلچسپ شخصیت تھے،وہ مختلف تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے ایوبی مارشل لاء کے رمز وکنایہ اور استعارہ کے پیرائے میں بخیے اُدھیڑ ڈالتے تھے، لوگ اس قدر سہمے ہوئے تھے، کہ نوائے وقت کے سوا اُن کی تقریر کوئی شائع نہیں کرتا تھا۔ جناب مجید نظامی مرحوم کی حریت پسندی اور جرأت مندی کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دفتر میں ہدایت تھی کہ کیانی صاحب کی تقریر من وعن رپوٹ کی جائے اور شوشہ اُڑانے بغیر شائع کی جائے۔ جسٹس کیانی مرحوم کی ان تقریروں کا مجموعہ اوراق پریشان کے نام سے بھی شائع ہوا۔ اس میں شامل تمام تقریریں قبل ازیں نوائے وقت میں چھپ کر شہرت حاصل کر چکی تھیں۔
٭…٭…٭
بی بی سی کا ریڈیو نشریات مقبوضہ کشمیر تک بڑھانے کا اعلان
پچھلی صدی کے اوائل میں ریڈیو سٹیشن قائم ہونے لگے تھے۔ ان کی نشریات نے، امن اور جنگ دونوں حالتوں میں بڑے معرکے سرانجام دیئے۔ دوسری جنگ عظیم میں تو جنگ میں شامل ممالک، جاپان، روس، جرمنی اٹلی، فرانس، برطانیہ اور امریکہ غرض ہر ایک نے خصوصی اُردو نشریات جاری کیں۔ لیکن ان سب نشریات یا سروسز میں برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن یعنی بی بی سی سرفہرست تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں اس نے ہندوستان سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کا مورال ڈاؤن نہیں ہونے دیا۔ نشریات میں صرف خبریں ہی شامل نہیں ہوتی تھیں، بلکہ سامعین کی ضیافت طبع کے لئے بڑے دلچسپ پروگرام شروع کئے اور بعض براڈکاسٹر تو بہت ہی مشہور ہوئے۔ بی بی سی نے جنگ کے خاتمے کے بعد بھی اُردو سروس کا معیار برقرار رکھا۔ عوام کو تازہ ترین حالات سے باخبر رکھا۔ بی بی سی کی ایک بڑی خوبی اس کی ساکھ تھی۔ مختلف ملکوں میں آمریت نے ڈیرے ڈالے، تو سب سے پہلے اخبارات سنسر شپ کا شکار ہوئے۔ ایسے وقتوں میں صرف بی بی سی واحد نشریاتی ادارہ تھا۔ جو لوگوں کو باخبر رکھتا تھا۔ آمروں کے خلاف تحریک کی ٹھوس کوریج کرتا۔ مثلاً ذوالفقار بھٹو کے دور میں انتخابی دھاندلی کے خلاف چلنے والی تحریک کو اگر کسی نے زندہ رکھا اور آگے بڑھایا تو وہ بی بی سی ہی تھی، بی بی سی کے خصوصی نمائندے مارک ٹلی نے بڑا نام پایا۔بعدازاں مارک ٹلی بھارت منتقل ہو گئے، اور وہیں بس گئے ہندومت اختیار کر کے ہندو عورت سے شادی کر لی۔ بی بی سی کی طویل تاریخ میں ایک خبر نے اس کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا۔ جب اس نے 6 ستمبر 1965ء کو یہ خبر چلا دی، کہ بھارتی فوج لاہور میں داخل ہو گئی ہے۔ بعدازاں ادارے کی طرف سے بڑی وضاحتیں آئیں، صفائیاں پیش ہوئیں، لیکن جب کوئی دل سے اُتر جائے، تو پھر وہ مقام پانا مشکل ہوتا ہے۔ اب اگر بی بی سی نے اپنی نشریات کا دائرہ مقبوضہ کشمیر کی طرف بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تو اُمید بندھتی ہے کہ مارک ٹلی اپنے اختیار کردہ نئے مذہب سے بالا ہو کر، مقبوضہ کشمیر کے حالات و واقعات سے دُنیا بھر کے باضمیر لوگوں کو باخبر کرنے میں اپنی شہرت کو داغ دار نہیں ہونے دیں گے۔ توقع ہے کہ لوگوں کو کشمیریوںں کی قربانیوں اور بھارتی فوجیوں کے ظلم و ستم سے معتبر ذریعے سے آگاہی ہو گی۔
٭٭٭٭٭