1845 ء میں 16 ہزار برطانوی افواج افغان جنگ میں افغان سرزمین پر شکست سے دوچار ہوئیں۔ جری افغانوں کے حملوںمیں 16 ہزار برطانوی فوج کا ایک بھی سپاہی زندہ نہ بچا۔ گھمسان کی جنگ نے برطانیہ کو افغانیوں کے مقابل گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ ایک برطانوی ڈاکٹر کو زندہ رکھا گیا تاکہ وہ اس جنگ کے احوال تاجِ برطانیہ کے سامنے بیان کر سکے۔ اس ڈاکٹر نے سارے احوال اپنے آقائوں کے سامنے بیان کیے۔ جس سے برطانوی افواج نے ایسا سبق سیکھا کہ اس کو پھر کبھی سرزمین افغانستان پر قدم رکھنے کی ہمت نہ ہوئی اس لیے امریکی افواج کی مشکلات سمجھ میں آتی ہیں۔ امریکی افواج کو اپنی قوت پر بڑا مان رہا ہے۔ لیکن افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں گویا ان کی تمام حربی صلاحیتیں جامد ہو چکی ہیں۔ ہرنشانہ اپنے ہدف پر لگنے کے باوجود میدان میں اسے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی ہے۔ سینکڑوں نہیں ، ہزاروں امریکی فوجی اس میدان جنگ میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ امریکہ افغانستان سے محفوظ اور باعزت واپسی کا خواہاں ہے۔ اور اس میں اس کی مدد صرف اور صرف پاکستان ہی کر سکتا ہے۔ اس بارے میں بھارت کا کردار کسی جگہ بھی نطر نہیں آتا۔ کیونکہ افغانوں کے ساتھ جو محبت کا رشتہ جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے بڑی محنت سے استوار کیا تھا اسے بھارت اپنی ریشہ دوانیوں سے کبھی ختم نہیں کر سکتا۔ افغان جہاد کے دوران دو قومیں ایک ہوئیں۔ کلمہ طیبہ کا رشتہ خون کے رشتہ سے زیادہ مضبوط ثابت ہوا۔ پاکستانی قوم افغانیوں کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی وقتی چال اس جذبہ کو ماند نہیں کر سکتی۔ افغانستان میں بالا دستی کا بھارتی خواب کبھی شرمندہِ تعبیر نہیں ہو گا۔ آج بھارت افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر کے پاکستان میں عدمِ استحکام پیدا کرنے کی سازشیں کر رہا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ افغان جہاد کو ابتداً کسی دوسرے ملک کی عملی حمایت حاصل نہیں رہی۔
روس گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے افغانستان کی سرزمین پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کی منزل بہرحال پاکستان تھی جس کے خلاف جذبہ جہاد سے سرشار افغانستان کی کابل یونیوسٹی کے جوانوں نے بند ھ باندھے رکھا۔ اس جہاد کا آغاز 1979 میں ہوا۔ دو سال تک افغان تن تنہا روس کا مقابلہ کرتے رہے۔ 1981 میں امریکہ آگے آیا اور روس کے خلاف افغانوں کی فوجی امداد کا آغاز کیا۔ افغان جہاد کو روس اور امریکہ کی جنگ قرار دینے والے حقائق آشنا نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ افغان جنگ میں مجاہدین نے اللہ کی نصرت سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے ثمرات مملکتِ خداداد پاکستان نے سمیٹے ۔ یہ دفاع پاکستان کی ایک ایسی جنگ تھی جس میں پاک فوج کا ایک جوان بھی شہید نہیں ہوا ۔ لیکن پوری دنیا میں افغان جنگ کی فتح کا سہرا پاکستان کے سر سجا۔ جنرل ضیاء الحق کی شہادت پر انہیں مجاہدین نے" "شہیدِ جہادِ افغانستان " کا خطاب عطا کیا۔ افغان جہاد کی کامیابی سے مسلمانوں میں بیداری کی ایک نئی لہر ابھری۔ جس کے نتیجہ میں روس اپنے وجود کو بھی برقرار نہ رکھ سکا وسطی ایشیائی ریاستوں میں آزادی کا سورج طلوع ہوا ۔ ازبکستان، تر کمانستان، تاجکستان، آذربائیجان اور قازقستان ایسی ریاستیں تھیں جہاں مسلمان آباد تھے۔ لیکن کمیونزم کے جبر کی وجہ سے اپنی مذہبی تعلیمات اور اس کی بنیادی اقدار سے نا آشنا تھے۔ روس سے آزادی کے بعد وہاں مساجد میں اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوئیں۔ عوام نے دیوانہ وار مساجد کا رخ کیا۔ کسی نے پہلی بار کلمہء طیبہ با آواز بلند پڑھا اور کسی نے کتاب اللہ کی آیات پہلی بار تلاوت کیں۔ یہ افغان جہاد کے ثمرات ہی تھے جس نے وسطی ایشیاء کی ریاستوں کو ان کی پہچان اور شناخت دی اور افغان جہاد کے ثمرات وسطی یورپ میں بھی نظر آئے۔ بو سنیا کی مساجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی۔ ظلم و جبر کے پہاڑ ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ جرمن عوام نے خونیں لکیر کو عبور کیا۔ دیوارِ برلن قصہ پارنیہ بن گئی۔ مصدقہ ذرائع کی خبر ہے کہ دیوارِ برلن کے انہدام کا آغاز جس اینٹ سے ہوا تھا وہ اینٹ آج ہماری ا فواج کے پاس محفوظ ہے۔
ایک دفعہ دورہ پشاور کے دوران صدر ضیاء الحق نے کہا تھا کہ روسی افواج کے انخلاء کے بعد میںکلِ چرخی کی جامع مسجد میں دو رکعت نوافل شکرانہ ادا کرنا چاہوں گا۔ افسوس کہ اجل نے اُن کو مہلت نہ دی لیکن جب میں 1991 میں احمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمت یار کے درمیان صلح کرنے کے لیے افغانستان گیا تو میں نے نے پل چرخی کی جامع مسجد میں اُن کی طرف سے شکرانے کے نوافل ادا کیے اس وقت عجیب منظر تھا ہزاروں مرد خواتین اور بچے آنکھوں میں آنسو لیے صدر ضیاء الحق کی مغفرت کیلئے دعا گو تھے۔
افغان جہاد نے خالصتان کی تحریک کو بھی جلا بخشی۔ سکھ عوام بیدار ہوئے۔ اور انہوں نے بھارت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ بد قسمتی سے بعض نا عاقبت اندیش حکمرانوں نے آزادی کے متوالے سکھوں کی فہرست بھارتی حکومت کے حوالے کر دی تھی۔ جس کے نتیجہ میں خالصتان تحریک کو تہ تیغ کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن خالصتان تحریک اب بھی زندہ ہے ۔ بھارت سمیت دنیا بھر میںبسنے والے سکھوں کی منزل خالصتان ہے۔ وہ بھند رانولہ اور خالصتان تحریک کے دوران بہنے والے خون کو بھولے نہیں۔
کشمیری عوام کی بے بسی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کی کشمیر پالیسی نے بھارت کو اندرونی خلفشار میں اتنا الجھا دیا تھا کہ تحریک آزادی کشمیر کا سورج طلوع ہوا ہی چاہتا تھا ۔ جہاد افغانستان اور جہادِ کشمیر سے جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی عقیدت اور وابستگی کا یہ عالم تھا کہ کئی بار خود میدانِ جہاد میں پہنچ جا تے ۔
جنرل محمد ضیاء الحق کی جلائی ہوئی شمعیں روشن رہیں گی۔ ملک کو ایٹمی قوت بنانے میں جنرل محمد ضیاء الحق کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وہ پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے بے چین رہتے تھے۔ ان ہی کی کاوشوں کے باعث 13 مارچ 1983 میں کیرانا پہاڑ سرگودھا کے پہاڑی سلسلے میں ایٹمی صلاحیت کے کولڈ ٹیسٹ (Cold Test) کا کامیاب تجربہ ہوا۔ پھر ان ہی خطور پر چلتے ہوئے 1998 میں ایٹمی تجربات کئے گئے۔
ہم میں سے بہت کم پاکستانیوں کو علم ہو گا کہ چاغی بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں بڑی جان فشانی سے تعمیر کی گئی سرنگ ((Tunnel 1983 میں ہی مکمل کر لی گئی تھی۔ تاہم بوجوہ باقی فیصلہ موخر کر دیا گیا۔ یہ ایٹمی میدان میں ہماری بتدریج کامیابیوں کا ہی اثر اور ثمر تھا کہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے بھارتی سرزمین پر کھڑے ہو کر راجیو گاندھی کو وہ تاریخی کلمات کہے تھے جسے سن کر راجیو گاندھی سمیت بھارتی سورمائوں کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔ اور بھارتی افواج دوسرے ہی دن ہماری سرحدوں سے دور بھاگتی نظر آئیں۔ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات میں ایٹمی معاملہ ہمیشہ وجہ تنازع بنا رہا۔ مختلف اوقات میں نشیب و فراز آتے رہے۔ امریکہ کو یقین تھا کہ پاکستان ایٹمی پیش رفت پر پوری سنجیدگی اور مستعدی سے عمل پیرا ہے لہذا وہ مختلف حیلے اور حربے استعمال کر کے رکاوٹیں حائل کرتا رہا ۔ کبھی آئینی ترامیم کے ذریعے کبھی تادیبی کاروائیوں اور دھمکیوں کے ذریعے۔ ایک مرتبہ امریکی سنیٹرز کا ایسا ہی ایک بھاری بھر کم وفد پاکستان پہنچا اور صدر ضیاء الحق سے ملاقات کی۔ اس وقت پاکستان کے لیے امریکی امداد کو امریکی صدر کی سرٹیفیکشن Certification))سے مشروط کر دیا گیا تھا۔ وفد نے اس بات پر زور دیا کہ ہمارے سنیٹرز پاکستان کے نقطہ نظر سے مطمئن نہیں ہیں۔ آپ اور آپ کے ایٹمی سائنسدان ان سنیٹرز کو مطمئن کریں اور اپنے ایٹمی پروگرام کا معائنہ کرنے دیں ورنہ آپکی امداد بند کر دی جائے گی۔ ضیاء الحق نے جواب دیا کہ میں پاکستان کا صدر ہوں میرے الفاظ آپ کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔ ان سنیٹرز کو مطمئن کرنا میرا نہیں آپ کا اپنا کام ہے۔ ہم لوگ آپ کی اندرونی الجھنوں (Internal Machinations) کے ذمہ دار نہیں۔ جوں یہ وفد ناکام واپس چلا گیا مگر پھر بھی پاکستان کو امریکی صدر کی طرف سے استنثیٰ مل گیا۔
جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے مسئلہ کشمیر کو ہر عالمی فورم اور ہر ہر سطح پر پوری جرأت اور شدت کے ساتھ اٹھایا۔ بھارت کے خلاف ان کی جارحانہ پالیسی کے نتیجہ میں کشمیری مجاہدین نے آزادی کا علم بلند کیا۔ آج جموں و کشمیر میں جرات و بہادری کی داستان رقم کرنے والے مجاہدین و غازیوں میں بیشتر جنرل محمد ضیاء الحق کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ یہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کا دورِ حکومت تھاجب کشمیری مجاہدین سنگلاخ چٹانوں کا سینہ چیرتے ہوئے اور جسم و جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تحریکِ آزادی کشمیر کے بیس کیمپ آزاد جموں و کشمیر پہنچے۔ حال ہی میں بزرگ حریت راہنماء سید علی گیلانی نے بھارت کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا ہے اس کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ جموں و کشمیر کی آزادی پاکستان پر قرض ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جموں و کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ یہ ناممکن ہے کہ ہماری شہ رگ دشمن کے قبضہ میں رہے اور ہم زندہ رہ سکیں۔ یہ وقت کشمیر بارے میں صرف بیانات اور سفارتی حمائت کا اعادہ کرنے کا نہیں بلکہ ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں کو باور کرانا ہو گا کہ ہم ان کے شانہ بشانہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
ادغامِ کشمیر کی موجودہ بھارتی کوشش نے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی امن کو شدید خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔ دو ایٹمی ممالک کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ عالمی قوتوں کو اس شدید خطرے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے فور ی اور موثر کاروائی سے اس صورتِ حال کو سنجیدگی سے سنبھالا دینا چاہے۔ اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل کا حالیہ بیان حوصلہ افزا ہے۔ ہمیں جرات مندانہ اور موثر سفارت کاری کے ذریعے صورتِ حال کو بدلنے میں مستعدی لانی چاہیے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024