کشمیر کی آزادی کے لئے مقبوضہ کشمیر کے ایک لاکھ حریت پسند اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں جو کوئی معمولی قربانی نہیں ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر سابقہ حکومتوں کی حکمت عملی کبھی سرد اور کبھی گرم رہی ہے۔ جنرل ایوب خان نے کشمیر کی آزادی کے سلسلے میں 1962 میں نادر موقع گنوا دیا جب چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعے پر جنگ ہوئی تھی اس وقت اگر فوجی آپریشن کیا جاتا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا مگر جنرل ایوب خان امریکہ کے دبائو میں آگئے اور پاکستان نے تاریخی موقع ضائع کر دیا۔ 1965ء میں جنگ کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی مگر کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ کارگل کی مہم جوئی بھی ناکام رہی اور مجاہدین کا آپشن بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا۔ نیم دلانہ سفارت کاری نے کیا جوہر دکھانے تھے۔ مودی کی مہم جوئی کی وجہ سے ایک نئی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ سرگرم اور پرجوش سفارت کاری سے نئے موقع سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے سلسلے میں سیاسی اور عسکری قیادت کے بیمثال اشتراک اور اور یکجہتی سے پاکستان کے عوام میں نیا جذبہ اور جوش پیدا ہوا ہے جس کا مظاہرہ انہوں نے پاکستان بھر میں سڑکوں پرآکر کیا ہے۔ اس ضمن میں پارلیمنٹ وزارت خارجہ کشمیر کمیٹی سیاسی اور عسکری قیادت کی حکمت عملی اب تک بڑی کامیاب رہی ہے۔ جنگوں کا زمانہ گزر چکا اب بہترین سفارت کاری سے ہی دنیا کے تنازعات کو حل ہونا ہے۔
حکومت کشمیر کے مسئلے کو عوامی سطح پر اجاگر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت کے جوش اور جذبے کی وجہ سے کشمیر کے ایشو پر سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا ۔ پچاس سال کے بعد کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں پیش ہونا حکومتی سفارت کاری کی بڑی کامیابی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر کرانے کے لئے دن رات رات کام کرکے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے آزاد کشمیر اسمبلی سے عوام کی توقعات اور تمناؤں کے عین مطابق جرأتمندانہ اور دلیرانہ خطاب کیا ہے۔ وزیراعظم نے بھارتی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مودی نے اسٹریٹجک بلنڈرکیا ہے۔ آر ایس ایس کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے جس کی وجہ سے بھارت کی تباہی کا دروازہ کھول دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ کشمیریوں کے سفیر کی حیثیت سے پوری دنیا کے لیڈروں سے رابطے کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا اقوام متحدہ کا امتحان شروع ہو چکا ہے اگر برصغیر میں جنگ چھڑ گئی تو اس کی ذمہ داری نہ صرف بھارت بلکہ عالمی برادری پر عائد ہوگی۔ پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے دلیرانہ بیان جاری کیا ہے انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جس طرح 1947ء میں کاغذ کا ٹکرا تحریک آزادی کشمیر کو نہ روک سکا اسی طرح بھارت کے موجودہ اقدامات بھی کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو ختم نہیں کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا کشمیر پر سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاک فوج کشمیر کاز کے لئے ہر قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔
حکومتی جماعت تحریک انصاف نے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے اسلام آباد اور لاہور میں احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں جبکہ مسلم لیگ نون نے لاہور میں اپنے ایک احتجاجی اجلاس میں کشمیری بھائیوں کو اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے حیران کن طور پر مولانا فضل الرحمان جو کشمیر کمیٹی کے طویل عرصہ چیئرمین رہے ان کی جماعت تاحال خاموش ہے۔ عالم اسلام کی تنظیم او آئی سی نے کشمیر کے حق میں میں توانا بیان جاری کیا ہے۔ عالم اسلام کے سربراہ اس حساس موقع پر بھی خاموش ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ بیس لاکھ شہری گزشتہ دو ہفتوں سے کرفیو کی وجہ سے اپنے گھروں میں نظر بند ہیں ان کو عید کی نماز ادا کرنے اور قربانی کا فرض پورا کرنے کی اجازت نھیں دی گئی۔ کشمیر کے عوام اپنے سماجی معاشرتی معاشی سیاسی اور جمہوری انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ ان حالات میں عالمی لیڈروں کی جانب سے جو رد عمل آنا چاہئے تھا وہ نظر نہیں آرہا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان ایک بڑی منڈی ہے اور دنیا کے بڑے ملکوں کے بھارت کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ عالمی قوانین اور انسانی حقوق نظر انداز کر دئیے گئے ہیں۔ انسانیت زوال پذیر ہے۔ مادیت نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے جبکہ روحانیت مفقود ہوتی جا رہی ہے۔
لوک سبھا کے رکن ششی تھرور جو امور خارجہ کی پارلیمانی سٹینڈنگ کمیٹی کے چئیرمین ہیں۔ ان کی مقبوضہ کشمیر کے بارے میں تقریر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ انہوں نے ٹھوس دلائل عالمی قوانین اور بھارتی آئین کے حوالے دے کر مودی کے اقدامات کو بھارت کے مستقبل کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان کی افغان امن کے سلسلے میں کوششیں کامیاب ہو گئیں اور طالبان ایک بار پھر اقتدار میں آگئے تو کشمیر کی سلگتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے بھارت کا امن اور سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ کشمیر کے نئے اور حساس مرحلے کو کامیاب بنانے کے لئے کشمیریوں کا جذبہ اور عزم فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ پاکستان کے عوام کی کشمیری بھائیوں کے ساتھ مکمل یک جہتی اور اتحاد کشمیر کاز کے لئے انتہائی اہم ثابت ہو گا۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے جس کو بچانے کے لئے پاکستان کو قربانی دینی پڑے گی۔ کشمیر میں خوف کا راج ہے۔ مودی عدلیہ اور میڈیا کو فتح کر چکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں دبائو کا شکار ہیں۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر میں حکومت کے غیر آئینی اقدامات کے سلسلے میں پٹیشن کی سماعت سے انکار کر دیا ہے۔ کشمیر کے عوام لاوارث ہو چکے ہیں۔ بھارت کی حکومت نے ان کو تمام انسانی حقوق سے محروم کر کے ان کو جانوروں کی طرح گھروں میں نظر بند کر دیا ہے۔ ان حالات میں سرگرم پر عزم سفارت کاری ہی واحد آپشن ہے جس کے ذریعے مودی کو کشمیر کے مستقل حل پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کی سرپرستی میں 14 اگست یوم آزادی کو کشمیر کے ساتھ یک جہتی کے طور پر اور 15 اگست بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا۔ عوام نے بھر پور شرکت کی۔ لندن برطانیہ میں بھی کشمیری بھائیوں کے ساتھ یک جہتی کے لئے بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں ہزاروں لوگوں نے پر جوش شرکت کی حکومت کا فرض ہے کہ وہ کشمیر کاز کو کمزور نہ پڑنے دے تا کہ بھارت اور اقوام متحدہ عوامی رائے عامہ کو نظر انداز نہ کر سکے۔ کشمیر کا مقدمہ ہر حوالے سے بڑا مضبوط ہے جبکہ بھارت دفاعی پوزیشن اختیار کر چکا ہے اور اندرونی بیرونی طور پر دبائو کا شکار ہے۔ پاکستان کی حکومت تحریک آزادی کے حساس مرحلے کو کامیاب بنا سکتی ہے۔ اس کے لئے عسکری اور سفارتی دونوں محازوں پر بہترین کارکردگی کی ضرورت ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024