مہنگائی میں قابو پانے میں حکومت بے بس کیوں؟
مکرمی! گوناگوں مسائل و مشکلات کے گرداب میں سرگرداں عوام کی چیخ و پُکار کا تقاضہ ہے کہ ضروریاتِ زندگی کی حالیہ غریب مار اور عوام کُش لہر کے اصل محرکات اورحقیقی وجوہات کا کھوج لگا کر اور قابو پا کر عوام کیلئے سُکھ کا سانس لینا ممکن بنایا جائے۔ روز افزوں مہنگائی سے بے تاب و بے چین عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت ضروریاتِ زندگی کی ناگفتہ بہ گرانی کی وجہ سے انکی اجیرن زندگی کا ہوشمندی و حقیقت سے پسندی کے ساتھ ادراک کر کے گراں فروش عناصر کا تعیّن کرے اور انہیں کڑے احتساب کے کٹہرے میں لائے۔ باغوں اور کھیتوں سے 30 روپے کلو کے حساب سے نکلنے والا آم، آرھتیوں، فروٹ مارکیٹوں اور ریڑی بانوں کے ناجائز منافع خوری کے حربوں اور ہتھکنڈوں کی بدولت عوام کے پاس کم از کم 100 روپے کلو تک پہنچتا ہے۔ جائز منافع اندوزی ہر دوکاندار کا حق ہے، لیکن قباحت صرف ناجائز منافع خوری کی ہے جو کہ خلافِ شریعت، خلاف اخلاق اور خلافِ قانون ہے۔ لہٰذا اس ناقابل برداشت مہنگائی میں حرص و ہوس کے مارے ہوئے گراں فروشوں کو لگام دینا حالات حاضرہ کا اہم تقاضہ ہے، حکومت ضروریات زندگی کے نرخوں پر چیک اینڈ کنٹرول کا نظام قائم کرنے کیلئے ملک بھر میں چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دے۔ جو ناجائز منافع خوری کے سدِ باب کیلئے مؤثر اور نتیجہ خیز اقدامات کریں۔ (محمد شفیع اویسی، فیضان ہادی پریس کالج روڈ بُورے والا)