افرنگی سے اپنوں تک میرے سپنوں کا سفر
بہتر سال پہلے کاروانِ آزادی ایک آزاد پاکستان کی راہوں پہ نکلا تھا اور آج تک اسی کی تلاش میں سرگرداں ہے کہ جس کا خواب علامہ محمداقبال نے دیکھا تھا اور تعبیر پہنانے کا بیڑا ہمارے قائد محمدعلی جناح نے اٹھایا تھا- میں نے اس راہ میں لاشوں کے انبار ، آگ کے دریا اور کٹی چھاتیوں کے پہاڑ دیکھے – میں نے غم و اندوہ کا ہر وہ مظاہرہ دیکھا کہ جس کو دیکھتے ہوئے آج میں ہمتیں ہارنے لگا ہوں- میں نے اپنے بابائے قوم کی ایمبولینس بغیر پٹرول کے سڑک کے کنارے کھڑی دیکھی – میں نے قائدِ ملت? کی پھٹی بنیان میں سرخ چھید دیکھے – میں نے مادرِ ملت کو انتخابات ہارتے دیکھا – میں نے ایک پالتو جانور کے گلے میں لٹکی ان کے نام کی تختی دیکھی – میں نے آمر دیکھے – میں نے ملک دو لخت دیکھا- ایک منتخب وزیرِ اعظم کو پھانسی کے پھندے پہ جھولتا دیکھا- پھر کرپشن کی غلاظت میں اٹا ایک معاشرہ دیکھا – بوسیدہ نظام میں گدھ کو بدن نوچتے دیکھا – میرا سفر جاری رہا کبھی ہولے کبھی تیز لیکن شاید ابھی بھی منزل کوسوں دور ہے اور میں چلتے چلتے تھک رہا ہوں – میرے سپنے اپنوں کے ہاتھوں لٹتے جا رہے ہیں اور ایک میں ہوں کہ ہر امید کی کرن کے ساتھ چمٹ جاتا ہوں لیکن جب وہی کرن مجھے اندھیروں میں پھینک دیتی ہے تو پھر کسی اور راہبر کی تلاش شروع کر دیتا ہوں – اس تلاش میں میں اپنوں سے لٹا تومیں اپنوں کے ہاتھوں ہی جلا – جب بھی میرے خوابوں کے قاتل کا چہرہ بے نقاب ہواتو وہ میرا ہی کوئی اپنا تھا جس کی باتوں میں میں نہ جانے کب سے میں دھوکہ کھا رہا تھا- پردہئ چلمن سے سامنے نہ آنے والوں نے میرا اعتبار اور میرا اعتماد یوں مجروح کیا ہے کہ میں اب اپنے راہبر تک کو نہیں پہچان پاتا- کچھ میرے لیڈروں نے مجھے یومِ پاکستان نہ منانے کا عندیہ دیا تو میں خود سے پوچھتا رہ گیا کہ آپ کی آپس کی لڑائی میں میرے پاکستان کا کیا قصور جس کی راہوں میں آج تک کئی کٹ رہے ہیں اور کئی مٹ رہے ہیں تاکہ اس کا نام زندہ و جاوید رہے – اس منزل کی تلاش میں کون سا زخم ہے جو میں نے نہیں کھایا- پاکستان تو غریب انسان کا گہوارہ تھا آپ نے تو اس خواب کو بھی لوٹ لیا ہے – دنیا کے سب براعظموں میں آپ کی ناجائز کمائی کے بینک اکاؤنٹس ہیں اور فنِ تعمیر کے نمونے وہ آسائش کدے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر اس ملک کا باسی بھی شرما جائے۔ میری ماؤں بہنوں نے تو سڑکوں اور بیت الخلاء میں بچوں کو جنا ہے – جس میں ارد گرد یا پردے کے لئے اینٹوں کی دیوار تھی یا کسی رکشہ کی اوٹ -آپ کے جس منصوبے کی فائل کھلتی ہے اس سے لوٹ مار کی وہ سڑاند آتی ہے کہ میرے عزم کے محل کرچی کرچی ہونے لگ جاتے ہیں – میرے ان رستوں پہ چلتے کل ایک چوتھی نسل کے نمائندے نے مجھ سے پوچھا کہ آزادی کیا ہوتی ہے تو میں دل گرفتہ ہوگیا سارا دن سوچتا رہا کہ آزادی کیا ہوتی ہے کیونکہ میرے نزدیک تو آزادی ایک سوچ کی آزادی ہے جہاں ایک مثبت سوچ کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ نہ ہو جہاں انسانی عقل و شعور کی نمو پہ قدغن نہ ہو – میرے نزدیک سچی پیاری محبت اور ایک اپنائیت ہے آزادی- آزادی اس وادی کا نام ہے جس میں عزتِ نفس کے ساتھ کھلواڑ نہ ہو - جہاں رشتے پروان چڑھیں – آزادی ایک جذبہ ہے جسے انسان اپنی سانسوں میں محسوس کرے – آزاد فضاؤں میں میں نے تو غلام دیکھے ہیں اور زنجیروں میں جکڑے آزاد دیکھے ہیں- اگر پنجرہ ہی آزادی اور غلامی کی بنیاد ہوتا تو انسانی دل کی دیواریں نہ ہوتیں جن میں پیار محبت اور وفا پابندِ سلاسل ہوتے – میرے نزدیک تو آزادی رشتوں میں باندھ دیتی ہے اور ایک قوم کو ایک خوبصورت سی شکل دیتی ہے – آزادی تو بکھرے خیالوں کو یکجا اور پھر یکجا خیالوں کو نظم و ضبط میں ڈھالتی ہے-
بڑی سیدھی سی بات ہے بڑی سادی ہے آزادی
پیار بھرے پھول ، محبتوں کی وادی ہے آزادی
دیوارِ جاں پہ کوئی جسے خون سے لکھ دے
ہر فرد ہو پھر اْس نقش کا فریادی ہے آزادی
پاؤں میں ہو سترنگی دھنک ، اڑتے ہوئے بادل
خلوصِ زر جو لٹا دے ، وہ شہزادی ہے آزادی
ہر گھر کے در وبام سجا ئے چراغوں سے آزادی
وفائیں مہکا ئے دے الفت کی منادی ہے آزادی
جہاں سانسوں میں ملے شاہد جذبوں کی خوشبو
احساس ، خواہش ، تڑپ اور بے تابی ہے آزادی
اب آپ خود بتائیں کہ ان میں سے کون سا عنصر ہے جو ہماری زندگی میں بدرجہ اتم موجود ہے کہ میں کہوں کہ ہم نے آزاد پاکستان کی منزل پا لی ہے- میں اگر پیچھے مڑ کے دیکھوں ، مجھے تو صرف افرنگی سے اپنوں تک اپنے سپنوں کا وہ سفر نظر آتا ہے جسے میں ایک پوٹلی سنبھالے میں اسی آس پہ ابھی بھی چلا جاتا ہوں کہ شاید میں آزاد ہوں-