کرپٹو کرنسی
اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کو دوسری مخلوقات کی طرح مختلف ضرورتوں کا محتاج بناکر پیدا فرمایا اسے پیٹ بھرنے اور بھوک مٹانے کے لئے غذا کی ضرورت ہے صحت و علاج کے لئے دوائیں درکار ہیں جسم چھپانے کے لئے کپڑوں کا محتاج ہے چلنے کے لئے جوتے سفر کے لئے سواری غرض قدم قدم پر ضرورتیں اس کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔
کسی کے پاس کھیت ہیں جس میں زرعی اجناس پیدا ہوتی ہیں لیکن وہ تیل جوتے کی پیداوار نہیں کر سکتا کسی کے پاس جوتے ہیں لیکن چاول نہیں ہیں کسی کے پاس کپڑوں کی بڑی دکان ہے لیکن دوسرے ملکوں میں سفر کرنے کے لئے وہ جہاز کا محتاج ہے اور آج سب چیزیں لینے کے لئے پیسے درکار ہیں انسانی سماج کے قدیم ترین دور میں اشیاء کے تبادلے کا رواج ہے ابتدا میں لوگ جو چیز وافر ہوتی وہ کسی دوسرے کو دے دیتے اور ضرورت کی اشیاء لیتے تھے اگر کسی کے پاس چاول ہیں وہ چاول دے کر گڑ لے لیتا تھا غرض اسی طرح اشیاء کا تبادلہ ہوتا تھا اس وقت کرنسی نوٹوں کا نام و نشان نہ تھا اس تبادلہ کے سسٹم کو بارٹر سسٹم کہا جاتا ہے۔
اشیاء کے تبادلے میں ایک سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ ضروری نہیں جس کے پاس چاول ہیں اس کو گڑ کی ضرورت ہو اس لئے مطلوبہ تبادلے کے لئے بھی بہت محنت کرنا پڑتی تھی اس بنا پر سوچ پیدا ہوئی کہ کسی چیز کو ذریعہ تبادلہ اور زر کی حیثیت ہونی چاہئیے۔ چنانچہ اس کے لئے ابتداء میں ایسی چیزوں کو ذریعہ بنایا گیا جو زیادہ استعمال ہوتی تھیں جیسے نمک لوہا وغیرہ لیکن اس میں بھی دشواری کم نہ تھی اشیاء کی ویلیو ٹھیک نہ لگتی تھی اس لئے پھر اس سے آگے قدم بڑھا کہ ایسی چیز کو ذریعہ بنایا جائے جو ہلکی پھلکی ہوا جسے اٹھا کر لے جانا آسان ہو کیوں کہ لوہا نمک یا جانور لے کر جانا اور اشیاء لینا آسان نہ تھا اس لئے آخر میں انسان کی نظر سونے اور چاندی پر گئی کیونکہ شروع سے یہ دھاتیں انسان کو مرغوب رہی ہیں وزن کم ہونے کی وجہ سے اس کا نقل و حمل بھی آسان ہے اس لئے پوری دنیا نے اس کو بطور زر تسلیم کر لیا اور ہزاروں سال اس کا استعمال جاری رہا اور سونے کو چیزوں کی قیمت متعین کرنے کا پیمانہ تسلیم کیا گیا۔
سونا چوروں اور رہزنوں کا نشانہ بھی بننے لگا ہر آدمی کے پاس اتنے وسائل نہ تھے کہ وہ ان قیمتی دھاتوں کو محفوظ کر سکے ایک نئی صورتحال پیدا ہوئی‘ سناروں اور صرافوں کے پاس حفاظت کا پورا انتظام تھا اس لئے لوگ سونا چاندی ان کے پاس بطور امانت رکھوانے لگے اور اس کی رسید دی جاتی بطور ثبوت اسی رسید کی بنا پر لوگ اشیاء کی خریداری بھی کرنے لگے آخر کار یہ طریقہ اتنا عام ہوا کہ اس رسید نے باقاعدہ کاغذی نوٹ کی شکل اختیار کر لی اور سترہویں صدی کے آغاز میں سب سے پہلے سویڈن کے اسٹاک ہوم بینک نے ایک کاغذی نوٹ جاری کیا اور اس وقت ان نوٹوں کا سونے سے پورا پورا تعلق تھا بینک کو اپنے پاس موجود سونے کے برابر ہی نوٹ جاری کرنے کا اختیار تھا اور کوئی بھی شخص کاغذی نوٹ کے بدلے بینک سے اس کے برابر سونا حاصل کرسکتا تھا پھر یہ قانون نرم ہوتا گیا اور کہا گیا جتنے نوٹ جاری کئے گئے ہیں اس کا ایک تہائی یا چوتھائی سونا کافی ہے یہاں تک کہ ایک مرحلہ ایسا آیا امریکہ نے اعلان کر دیا کہ اب وہ کرنسی کے بدلے سونا ادانہیں کرے گا اب اگرچہ نوٹ کے پیچھے سونے کی طاقت باقی نہیں رہی لیکن اس کو حکومت اور قانون کی طاقت حاصل ہے اسی سے ساری دنیا میں خرید و فروخت ہوتی ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ کاغذی نوٹ کے اس نظام کے پیچھے معاشی ظلم کارفرما ہے اور اس نے سودی نظام کو بڑی تقویت پہنچائی ہے روز بروز اشیاء ضرورت میں پیدا ہونے والی گرانی اور روپیوں کی قدر میں ہونے والی کمی کی وجہ سے صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ معمولی سامان حاصل کرنے کے لئے ڈھیر سارے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے ابھی ڈالر نے بھی سارے ریکارڈ اور پاکستان کی معیشت کی کمر توڑی ہے اور 125 تک جا پہنچا ہے جب ڈالرکی قدر میں اضافہ ہوتا ہے پاکستان میں ہرچیز مہنگی ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ایک دم اتنا اضافہ ہوا کہ تاریخ میں پاکستان میں اتنی قیمت نہیں بڑھی ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ابھی تو مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے کچھ بے وقوف جاہل ڈالر کی قدر میں اضافہ اور پٹرول کی قیمت بڑھنے کا ذمہ دار نواز شریف کی نااہلی سے جوڑ رہے ہیں تو ان کے لئے عرض ہے کہ یہ سارا کچھ کیادھرا ہی نواز اور اسحاق ڈار کا ہے ان دونوں نے قرضے لے کر پاکستان کی جو تباہی کی ہے اس کی مثال پاکستان کیا دنیا میں نہیں ملتی ہے۔
بات ہو رہی تھی کرنسی کی آج کل کرنسی کی جگہ ڈیبٹ کریڈٹ کارڈ لے چکے ہیں ترقی یافتہ ممالک میں 50 فیصد سے زائد اسی کا استعمال ہو رہا ہے اب مرحلوں سے گزرتے ہوئے اب کرنسی نے ڈیجیٹل دنیا کا رخ کیا ہے جو کرپٹو کرنسی کہلاتی ہے اسی کرنسی کا تصور 2008 میں ستسوشی ناکاموتو نامی جاپانی شخص نے پیش کیا اس کا پس منظر وہ مالیاتی بحران تھا جس نے پوری دنیا کو ہلا دیا تھا اس بحران میں کرنسیوں کا بھی کردار تھا جن کو حکومتیں سنبھال نہ پائی تھیں اس بات نے موجد کے ذہن میں بات ڈالی کہایک ایسی کرنسی ہو جو حکومتوں اور بینکوں کی گرفت سے آزاد ہو اور عوام کے کنٹرول میں ہو اس وقت تقریباً 60 کرپٹو کرنسیاں انٹرنیٹ پر موجود ہیں ان میں سب سے مشہور بٹ کوائن ہے بٹ کوائن کا پہلا سودا2010 کو ہوا جس میں دس ہزار ’’بٹ کوائن‘‘ سے دو پیزے خریدے گئے لیکن پھر اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور قدر اتنی بڑھ گئی کہ ایک بٹ کوائن سے اب سینکڑوں پیزے خریدے جا سکتے ہیں جس شخص نے یہ کرنسی متعارف کروائی تھی2011 میں وہ غائب ہو گیا جو آج تک معمہ ہے کہ کدھر گیا اس کرنسی کا مادی وجود نہیں ہے یہ صرف نیٹ کی دنیا میں ہے 2013 میں ایک بٹ کوائن کی قیمت260 ڈالر جبکہ 2017 میںایک بٹ کوائن کی قیمت ستر ہزار ڈالر سے اوپر ہو چکی ہے اس کرنسی کے گم ہونے کے بہت چانس ہیں جس کے پاس پاس ورڈ ہو وہ ہی رقم استعمال کر سکتا ہے اگر یہ کرنسی چوری ہو جائے تو کسی عدالت سے رجوع نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اس کو حکومتوں کی ضمانت حاصل نہیں ہے۔
اگر اس کو کاغذی کرنسی کی شکل دے کر عالمی اور ملکی سطح پر کنٹرول کرنے والے ادارے قائم کر کے حکومتیں اسے قبول کریں تو اس طرح ڈالر کی اجارہ داری کو دنیا سے ختم کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ڈالر کے مقابلے میں یورپی یونین یورو کرنسی لے کر آئی اور اب اس کی اچھی خاصی قدر ہے اور کہا جا رہا ہے آنے والے سالوں میں یورو ڈالر کو پچھاڑ سکتا ہے اس بٹ کوائن کرنسی پر بھی تب غور ہو سکتا ہے اگر اس کو مادی وجود دے کر حکومتیں اس کی ضمانت دیں اس لئے آپ سب کو اس سے بچنا ہے کیونکہ اس کے نام پر انٹرنیٹ پر دنیا میں بہت سارے فراڈ بھی ہو رہے ہیں کئی لوگ اپنے پیسے ضائع کر چکے ہیں۔