پاکستان کا تصور کیا تھا؟
گزشتہ سے پیوستہ
14 فروری 1947 ء کو شاہی دربار سبی بلوچستان میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلامؐ نے دیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیاد صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔ 30 اکتوبر 1947 ء کو لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا اگر ہم قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کریں تو بالآخر فتح ہماری ہو گی۔ میرا آپ تمام لوگوں سے یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کیلئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں۔ فروری 1948 ء میں قائداعظم نے امریکی عوام کے نام ایک ریڈیو پیغام میں یہ واضح الفاظ میں کہہ کر ناصرف ہر قسم کے شکوک و شبہات کی دھند صاف کر دی بلکہ اس بحث کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سمیٹ دیا۔ قائداعظم نے فرمایا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہو گی۔ پاکستان کی دستورساز اسمبلی نے ابھی دستور بنانا ہے مجھے علم نہیں کہ اس کی حتمی شکل و صورت کیا ہو گی؟ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری قسم کا ہو گا جسے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی عملی زندگی پر اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جس طرح 1300 برس قبل ہوئے تھے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے۔ ہم ان شاندار روایات کے امین اور وارث ہیں اور دستور سازی میں انہی سے رہنمائی حاصل کی جائے گی۔ بہرحال پاکستان ایک تھیوکریٹ’’مذہبی‘‘ ریاست نہیں ہو گی۔ پاکستان پریمئر اسلامک اسٹیٹ ہو گی‘ قائداعظم نے اپنی تقاریر میں سماجی انصاف اور مساوات پر بہت زور دیا جو ان کے تصور پاکستان کا ناگزیر حصہ ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں سماجی اور معاشی انصاف ہو تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں۔ پاکستانی معاشرہ رشوت خوری ‘ بلیک مارکیٹنگ‘ اقربا پروری‘ فرقہ واریت سے بالکل پاک ہو۔ وہ نیوئل ازم اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ چاہتے تھے۔ اس حوالے سے انہوں نے کئی مواقع پر واضح کیا کہ وہ جاگیرداروں اور وڈیروں کے لئے نہیں بلکہ عام مسلمانوں کے لئے پاکستان حاصل کر رہے ہیں۔ وہ فوج اور بیوروکریسی کو ہر حال سیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے اور کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ پاکستان میں فوج حاکم ہو گی یا بیوروکریسی سیاست میں ملوث ہو گی۔
پاکستان میں عام انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جس کا جہاں زور چلتاہے اپنا ہاتھ دکھا جاتا ہے اس کے با وجود بر سر اقتدار آنے ولی سیاسی جماعتیں حزب اختلاف کی جماعتوں سے مل کر حقیقی جمہوریت لانے اور انتخابی قوانین کوملک و قوم کے مفادات پیش نظر رکھ کر بہتر بنانے کی کوشش نہیں کرتیں کیونکہ مروجہ قوانین کے تحت ہی ان سب کو عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے پورے مواقع ملتے ہیںکیا یہ ہمارے جمہوری نظام اور انتخابی عمل کی بدترین ناکامی نہیں ہے کہ چند افراد پر مشتمل سیاسی و مذہبی جماعتیں الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کراکے عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے میدان میں آجاتی ہیں حالیہ انتخابات میں حصہ لینے والی 21 جماعتوں نے سو سے بھی کم ووٹ حاصل کئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی تعداد ساڑھے تین سو سے زیادہ ہے جوجمہوریت ملک آئین و قانون اور عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہے ان میں سے جن سیاسی و مذہبی جماعتوں نے حالیہ انتخابات میں حصہ لیا اور سو سے کم ووٹ حاصل کئے ان کے ساتھ دوسری جماعتوں کو بھی شرم آنی چاہئے جنہوں نے عام انتخابات میں حصہ لینے کی ہمت ہی نہیں کی حاصل شدہ ووٹوں کی کم سے کم تعداد مقرر کرکے سیاسی و مذہبی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائے تو صرف چند جماعتیں میدان میں رہ جائیں گی اگلے انتخابات میں ان کی بھی چھانئی ہوگی اسی طرح زیادہ سے زیادہ پانچ چھ جماعتوں کو عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت حاصل ہونی چاہئے اس کے بعد ہی عوام کی اکثریت سے ان کے حقیقی نمائندے ایوانوں میں جائیں گے جب تک یہ اہتمام نہیں ہوگا عام انتخابات فراڈ اور غیر نمائندہ افراد کو منتخب کرنے کا ذریعہ بنے رہیں گے تحریک انصاف نے دس کروڑ سے زائد رائے دہندگان میں سے ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ ووٹ حاصل کیے جبکہ آٹھ کروڑ بتیس لاکھ سے زیادہ شہریوں نے اسے ووٹ نہیں دیئے اسے ملنے والے ووٹوں کا تناسب سولہ اعشاریہ آٹھ فیصد بنتا ہے اس کے باوجود اسے ملک پر حکمرانی کا حق حاصل ہوگیا ہے تو یہ کہاں کی جمہوریت ہے؟ کیا تصور پاکستان یہی تھا؟ ہماری بدقسمتی کہ قائد اعظم پاکستان بننے کے تقریباً ایک برس بعد انتقال کرگئے اور ان کے جانشین ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہ کرسکے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بااثر زمیندار، وڈیرے، سول، ملٹری بیوروکریسی اقتدار پر قابض ہوگئی۔ نتیجتاً غریب عوام جن کیلئے قائداعظم نے پاکستان حاصل کیا تھا ظلم وستم بے انصافی غربت اور محرومی کی چکی میں پس رہے ہیں اس پر مایوسی اور بے حسی کی کیفیت طاری ہے یہ حقیقت ہے کہ ہم قائداعظم کے تصور سے بہت دورہیں لیکن ہمیں قائداعظم کے وژن کو اپنے ذہنوں میں نئی نسل کے ذہنوں میں تازہ رکھنا ہوگا تاکہ ہم اپنی قومی منزل سے دور نہ جائیں ۔