امریکہ ہمارا دوست ہے یا نہیں ؟
یوں تو عوامی حلقوں میں یہ سوال عام طور پر زیر بحث رہتا ہے کہ امریکہ ہمارا دوست ہے یا نہیں لیکن حالیہ دنوں میں یہ سوال بڑے تسلسل سے سامنے آرہا ہے۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب ماہ رواں کے آغاز میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے عالمی نشریاتی ادارے سی این این کے ساتھ انٹرویو کے دوران بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کو پاکستان کی نئی حکومت کو ممکنہ بیل آئوٹ پیکج دینے کے سلسلے میں متنبہ کیا اور کہا کہ آئی ایم ایف کو چینی قرض ادا کرنے کے لئے پاکستان کی نئی حکومت کو فنڈ نہیں دینا چاہیے۔ موصوف نے کہا کہ چینی قرض ادا کرنے کے لئے پاکستان کو بیل آئوٹ دینے کا کوئی جواز نہیں۔ ہم آئی ایم ایف پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ وہ کیا کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ٹیکس کے ڈالر اور اس کے ساتھ منسلک امریکی ڈالر کو جو اس کا حصہ ہیں، چین کے قرض دہندگان یا خود چین کو دیئے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ادھر چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان کینگ شوانگ نے پریس کانفرنس میں پاکستان سے متعلق آئی ایم ایف معاملے پر سوال کا جواب دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ پاکستان مناسب طریقے سے آئی ایم ایف کے معاملات طے کر لے گا۔ مائیک پومپیو نے چینی سرمایہ کاروں کے قرض کی واپسی پر جو کچھ پاکستان کے لئے کہا کہ اسے پاکستان بہتر سمجھتا ہے اور صورتحال سے نمٹ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ قبل ازیں ’’فنانشل ٹائمز‘‘ نے خبر دی تھی کہ پاکستان کے سینئر مالیاتی حکام نئی حکومت کے لئے 2 ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکج جیسے آپشن پر غور کر رہے ہیں۔
حال ہی میں وطن عزیز کے نگران وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ نیک تمنائیں ختم کر دی ہیں۔ پاکستان ان کے لئے بری صورتحال میں ہے، امریکی فیصلے ہمارے حق میں نہیں جا رہے، کئی برسوں سے ایک ایک بات پر ہمارے اطراف ایک جال بچھایا جا رہا ہے اور اس کے نتائج آگے چل کر بہتر نہیں ہوں گے، ہمیں اپنے اندر کوئی نہ کوئی طریقہ کار پیدا کرنے کی ہمت رکھنی چاہیے، سابقہ حکومتیں چپ بیٹھی رہی ہیں۔ ہم نے ہر موڑ پر وہ کچھ کیا جو امریکہ نے چاہا لیکن ہمارے لئے اس کے نتائج اچھے برآمد نہیں ہوئے۔ امریکہ نے چینی سمندروں میں عالمی جنگ پیدا کی اور بھارت کو حال ہی میں انڈوپیسفک کا ایک اہم کردار دیا، ان کی توجہ چین کی طرف ہے، بھارت کے ساتھ ان کی قربت اسی معاملے پر ہے اور ہماری تنہائی بھی اسی وجہ سے ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ان کی اتنی تیاری ہے کہ بحر چین میں اتنی بڑی طاقت بٹھا دی ہے اور ہم نے سی پیک بنا کر چین کا ایک راستہ کھول دیا جہاں ان کو سانس لینے کا موقع مل گیا ہے اور یہی امریکہ کو سب سے زیادہ ناگوار گزرا ہے۔ ناراضگی کی ایک اور بنیاد یہ ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف سے دور رکھا جا رہا ہے تاکہ ہم ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں۔ نگران وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ امریکہ چین کا تین ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے، دنیا میں ایک تجارتی جنگ شروع کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں 5 فیصد آمدن میں فرق پڑے گا، ہم نے کئی بار آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کئے اور بروقت ادائیگی کرکے معاملے کو ختم کیا، ہم تو آئی ایم ایف کے اچھے کلائنٹ ہیں انہیں ہم سے فائدہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد میں یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد نعیم لودھی نے دعویٰ کیا کہ واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ مزید چلنا نہیں چاہتا، ہمیں اب کوئی اور راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ امریکہ ہمارا فضائی اور زمینی راستہ استعمال کرتے ہوئے پاکستان سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی توقع رکھتا ہے، امریکہ پاکستان کے خلاف 6,5 اقدامات اٹھا چکا ہے۔ اگر ہم نے جلدی فیصلہ نہ کیا تو امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو آئندہ 5 سال میں زیادہ پریشان کر سکتا ہے۔
پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے مبصرین اور تجزیہ کار عام طور پر یہی خیال ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے دور میں مذکورہ تعلقات کی نوعیت بڑی حد تک غیر دوستانہ محسوس کی جا رہی ہے۔ اس کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ گذشتہ دنوں امریکی حکومت نے نہایت خاموشی کے ساتھ اور غیر متوقع طور پر اہم فوجی تربیتی اور تعلیمی پروگرامز میں سے پاکستانی فوجیوں کی تعداد کم کرنا شروع کر دی۔ اس باب میں یہ حقیقت نہایت فکرانگیز ہے کہ امریکی فوج نے اب تک اس طرح کے تربیتی پروگرامز کو سیاسی کشیدگی سے دور رکھا ہے اور اس ضمن میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ غیر ملکی فوجی افسران کو امریکہ میں تربیت دینے سے طویل مدتی مفاد حاصل ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ پنسوانیا کے شہر کارلائل میں امریکی فوج کے وار کالج میں عموماً ہر سال دو پاکستانی فوجی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ کالج کی ترجمان کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران یہاں سے 37 پاکستانی فوج افسران نے تربیت حاصل کی ہے تاہم آئندہ تربیتی و تعلیمی سال کے دوران کوئی پاکستانی افسران یہاں موجود نہیں ہوگا۔ پاکستانی افسران کے لئے یو ایس نیول وار کالج، نیول اسٹاف کالج اور سائبر سکیورٹی اسٹڈیز کورس بھی بند کر دیا گیا ہے۔ اس صورتحال کے بارے میں امریکہ کے سابق نمائندہ خصوصی برائے افغانستان و پاکستان ڈین فیلڈ مین کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کا فیصلہ تنگ نظری کی مثال ہے، اس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بین الاقوامی خبر رساں ادارے ’’رائٹرز‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بعض امریکی حکام کا کہنا رہا کہ انہیں اس بارے تشویش ہے کہ مذکورہ فیصلے کے نتیجے میں اعتماد سازی کے اقدامات کو نقصان ہوگا۔
یہ راز اب کوئی راز نہیں رہا کہ امریکہ، دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے زعم اور تکبر میں مبتلا ہو کر بھارت کی طرح، پاکستان کو بھی اپنا مرغ دست آموز بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اسلام آباد اپنی جغرافیائی اور تذویراتی اہمیت کے باعث واشنگٹن کے اس دام فریب گرفتار ہونے کے لئے ہرگز تیار نہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان نے تقریباً 70 ہزار قیمتی جانوں کی قربانی دی اور کھربوں روپے کا نقصان برداشت کیا لیکن امریکہ نے اس کی کوئی قدر نہ کی۔ امریکی سینیٹ نے 716 ارب ڈالر کے دفاعی پالیسی بجٹ کی جو منظوری دی ہے اس میں پاکستان کے لئے فوجی امداد کی مد میں محض 15 کروڑ ڈالر مختص کئے گئے ہیں ۔ یہ رقم پاکستان کو سکیورٹی اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں دی جانے والی امداد سے کہیں کم ہے جو 75 کروڑ سے ایک ارب ڈالر تک ہوا کرتی تھی۔ ان حقائق اور احوال کے معروضی تجزیہ سے خوب اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ ہمارا دوست ہے یا نہیں؟