گدُڑی اور بابا فرید گنج شکرؒ
کچھ عرصہ سے میری بے چینی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے کہ__ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔وطن عزیز کو کس کی بُری نظر لگ گئی ہے کہ یہاں نہ چین رہا ہے نہ امن و سکون، لوٹ مار بند ہوئی ہے نہ ملکی ساکھ بہتر ہوئی ہے، صنعت نے ترقی کی ہے نہ زراعت آگے بڑھی ہے، عوام کی حالت سُدھری ہے نہ جہالت ختم ہوئی ہے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو ان تمام حالات کا موجب ہیں۔ اگر تشکیل پاکستان سے شروع کریں تو جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر جو جو کھلواڑ ہمارے ساتھ کھیلے گئے ہیں وہ ہم ہی جانتے ہیں۔دراصل اس ملک کی بنیاد کھوکھلی کرنے والے ویسے تو بے شمار اور اَن گنت عوامل ہیں لیکن چند ایک کو ذرا ذہن میں لاتے ہیں کہ اُن کا ایسے حالات میں کتنا ہاتھ تھا۔لیاقت علی خان کا قتل‘ کلیموں کی لوٹ کھسوٹ پر کھلی چھٹی۔آئی جی قربان کا جُھرلو انتخابات متعارف کروانا۔ملک غلام محمد کی بطور گورنر جنرل تعیناتی۔نظریہ ضرورت کی ایجاد۔سکندر مرزا کا سازشی رول۔سہروردی، خواجہ ناظم الدین، مولانا تمیرالدین کے ساتھ ہونے والا سلوک اور جمہوریت کا قتل۔ایوب خانی انقلاب اور کنونشن لیگ۔ P.C.O کے تحت ججوں کی حلف برداری۔جنرل یحییٰ کا تخت نشین ہونا۔شیخ مجیب الرحمان کی کامیابی کو تسلیم نہ کرنا۔ جس کی بناءپر مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا۔جسٹس منیر کے کارنامے۔1956ءکے دستور کا تیاپانچہ۔پے در پے حکومتوں کے تختے اُلٹنا اور جمہوری حکومتوں کا عدم برداشت کا رویہ۔قومی اتحاد کی تشکیل اور جنرل ضیاءکا جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنا۔جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی‘ صنعتوں کو قومیانے کی سازش۔تعلیم اور صحت کی طرف عدم توجہ۔بیوروکریسی، فوج اور دیگر اداروں کا سیاست میں عمل دخل۔جنرل جہانگیر کرامت کا استعفیٰ دینا۔جنرل پرویز مشرف کا اقتدار چھیننا، جسٹس ارشاد کی سرپرستی اور N.R.O کا ہونا۔بلوچستان کے مسائل کے حل سے پہلوتہی۔سیاسی جماعتوں کی بھرمار اور لسانی، گروہی، فرقہ واریت کا زور پکڑنا۔دینی جماعتوں کا اپنا صحیح راستہ چھوڑ کر سیاست میں کودنا۔سینکڑوں سیاسی جماعتوں کا بننا اور سیاست دانوں کی کھلے عام نیلامی۔یو ٹو کا پاکستان سے اُڑنا اور افغانستان کی جنگ میں ملوث ہونا۔دہشت گردی کا فروغ اور ڈرگز مافیا، کلاشنکوف مافیا کا وجود میں آنا۔ڈیمز کی تعمیر سے مجرمانہ غفلت اور ایک غیرملکی ایجنٹ کو واٹر کمیشن سونپ کر دشمنوں کو ڈیمز بنانے کا موقع دینا۔71 سال تک قوم کا قومی مسائل پر سنجیدہ رویہ نہ اپنانا اور بیرونی امداد پر مکمل انحصار۔افراد، گروہوں، جماعتوں اور محکموں کی آپسی رسہ کشی۔غریبوں پر ظلم اور امیروں کی آزادی۔سرکاری ملازموں کی کھلے عام سیاست میں مداخلت۔عوام کا سرکاری اداروں کو احترام نہ دینا۔حصول انصاف کے لئے دربدری اور درجنوں سالوں انتظار۔یک طرفہ احتساب کا اصول۔آج کل میڈیا کی حالت ِ زار۔پُرتعیش اشیاءکی درآمد پر اربوں ڈالرز کا ضیاع۔حکومتی ٹیکسوں کے نفاذ میں غفلت اور عوام کا واجبات کی ادائیگی سے اجتناب۔بنک قرضوں کی لوٹ مار۔ایسی سینکڑوں دیگر وجوہات معاملات میں جو ہماری بے حسی بے فکری مستقبل سے لاتعلقی اغیار کی نیتیں اور ہماری لاپرواہیاں ہمیں نہ تو محب وطن ہونے دے رہی ہیں نہ وطن پرست۔پتہ نہیں ہماری قوم اتنی بے حس اور لاپرواہ کیوں ہے کہ اُس کو پاک سرزمین کی قدرومنزلت ہی نہیں۔ کیا یہ ملک دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ ہمسائے ملک میں کروڑوں مسلمان ہونے کے باوجود اُن کے ساتھ ذلت اور توہین آمیز سلوک کیا جا رہا ہے اور وہ برداشت کر رہے ہیں۔ کیوں ہمارا پانی بند کر کے ہمیں مارنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ کشمیریوں کو ہزاروں کی تعداد میں شہید کرکے اُن کی آواز کو بندوقوں، توپوں اور جبروتشدد سے کیسے دبایاجا رہا ہے۔میں ماہ اگست کے مقدس مہینے کے حوالے سے اپنی قوم سے ہوش میں آنے، وفاداری کے اظہار اور ملک کی قدر کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ پاکستان کی وجہ سے دنیا میں ہمارا کیا مقام ہے ہماری کیا پہچان ہے آئیے اس کی قدر کریں۔کہاوت ہے کہ بابا فرید گنج شکرؒ کسی مقام سے گزر رہے تھے تو یونہی اپنی گدڑی سے اُلجھ گئے جو بار بار کندھوں سے نیچے سِرک رہی تھی اور بابا بار بار اِسے سنبھالتے تھے۔ آخر بابا گدڑی سے یوں گویا ہوئے: کیوں نہیں ایک جگہ ٹکتی۔ ایک دفعہ گر گئی تو تیری ساری عزت اور قدر و منزلت خاک میں مل جائے گی۔ یاد رکھ تیرا بوجھ صرف میں ہی برداشت کرسکتا تھا۔ ٹک کر بیٹھ۔ زیادہ تنگ نہ کر۔ اس تنبیہہ پر گدڑی سے بھی نہ رہا گیا یک دم تنکی، لال پیلی ہو گئی اور بولی کہ زیادہ احسان نہ جتا بابا۔ میں تیری پہچان بھی ہوں عزت بھی اور میرے تمہارے کندھے پر ہوتے ہوئے ہی لوگ تجھے پہچانتے ہیں۔ یوں اس بحث نے جب طول پکڑا تو بابا طیش میں آگئے اور آﺅ دیکھا نہ تاﺅ دھڑام سے گدڑی کو زمین پر دے مارا اور بولے: ”اگر یہ بات ہے تو جا پھر موج کر۔“بابا گدڑی سے فراغت پا کر جا رہے تھے آگے کچھ فاصلے پر گئے تو وہاں بادشاہ وقت کا محل بن رہا تھا۔ ظالم ایڈمنسٹریٹر کے کارندوں نے بابا کو آتا دیکھا، قابو کیا اور ایڈمنسٹریٹر کے سامنے پیش کیا جس نے بابا کو جبری مشقت پر جوت دیا۔ یوں بابا بھی ٹوکری اُٹھا کر محل کی تعمیر کرنے والے مزدوروں کی صف میں شامل ہو گئے۔اچانک کسی ہیڈ داروغہ کی نظر جو بابا پر پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ سنگ و خشت سے بھری ٹوکری جب بابا کو اُٹھوائی جاتی ہے تو وہ بابا کے سر پر ہوا میں اونچی چلتی ہے۔ وہ تو پریشان ہو گیا کہ کیاماجرا ہے۔ بھاگم بھاگ گیا فوراً یہ بات اپنے چیف کے نوٹس میں لایا تو ذرا سی پوچھ گچھ کے بعد معلوم ہوا کہ اوہ! یہ تو بابا فرید ہیں۔ فوری طورپر ان سے معافی مانگی گئی اور ان کو عزت و احترام سے چلتا کیا گیا۔ رہا ہوتے ہی یکدم بابا کو گدڑی کے طعنوں میں حقیقت نظر آئی اور یوں اس کی یاد نے آستایا تو واپس جہاں پھینکا تھا پہنچے تو کیا دیکھا کہ کتے اس سے کھیل رہے ہیں اور ایک دوسرے کی مخالف سمت میں کھینچ کھینچ کر اس کا بُرا حال کر رہے ہیں۔ فوراً اسے چھڑوایا اور جھاڑ پونچھ کر واپس کندھوں پر رکھا۔ دونوں نے ایک دوسرے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہاں میری عزت تم سے اور تمہاری پہچان مجھ سے ہے۔یہ بات میں نے اونچے دماغ والے ”اُن“ پاکستانیوں سے کرنی ہے جو پاکستانی ہونا اپنی توہین سمجھتے ہیںاور ہر دم اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کسی دوسرے ملک کی قومیت مل جائے تو بہتر ہے۔ایسی سوچ والو! یاد رکھو، پاکستان کے پاسپورٹ کی قدر ہم سب نے بنانی ہے۔ ہماری پہچان پاکستان ہے اور ہم اس کا حسن ہیں۔