کیا عمران قومی مزاج تخلیق کر سکیں گے؟
کہا جاتا ہے کہ ہر فرد کے لا شعور سے جذبات ابھرتے ہیں ان ابھرتے مچلتے جذبات کو باقاعدہ اجازت کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ اجازت ”شعور“ دیتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے بے مثال نظام میں بھی مچلتے ہوئے جذبات پر ہی ایک ”چیک اینڈ بیلنس“ کا سلسلہ موجود ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم ”شعور“ اور عقل کو اہمیت ہی نہ دیں۔ اس کے علاوہ اگر شعور کے معیار اور رہبری کو دیکھا جائے تو وہ کسی بھی انسان کے سابقہ تجربات، مذہبی معاشرتی ماحول اور پھر اُس کے ضمیر پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ لا شعور کے جذبات کو کون سے راستے پر ڈالتا ہے۔ شعور کا کام مثبت ہوتا ہے۔ ان میں عقلی، علمی استعداد بڑھانا اور ان کی بنیاد پر درست فیصلے کرنا اور درست فیصلے کروانا شامل ہے اس کے علاوہ عقلی علوم میں ریاضی فلسفہ، اقتصایات، سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ شامل ہے جبکہ انسان کے جذبات کی تسکین موسیقی، شاعری، ادب یعنی فنون لطیفہ سے ہوتی ہے ڈاکٹر عبدالخالق نے بھی اس موضوع پر تحریر کیا تھا ہمارے قومی مزاج میں توازن کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ نہ تو ہم صرف فنون لطیفہ کی طرف متوجہ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی علمی اور عقلی علوم تک محدود رہ کر زندگی کی حقیقی خوشی اور سرشاری سے محروم رہ سکتے ہیں اسی لئے دونوں رجحانات کا صحیح تناسب اہمیت رکھتاہے اور مستقبل کی حکمت عملی میں بہترین صورت کے نتائج دے سکتا ہے۔ ملک میں ماضی کی طویل تلخیوں کی موجودگی نے قوم کے مزاج پر بھی اثر کیا تھا اور پھر پاکستان بننے کے بعد ایک تسلسل سے دو پارٹیوں کی حکومت نے بھی ایک جیسی پالیسیوں اورایک جیسے معاملات کو لے کر چلنے کا رویہ اختیار کیا ہواتھا جس کے نتیجے میں معاشرہ جمودکا شکار تھا اور یہ جمود اس مرتبہ چودہ اگست کے جوش و خروش میں ٹوٹتا ہوا صاف محسوس ہو رہاتھا۔ لہذا یہی وقت ہے کہ درست حکمت عملی سامنے آئے یعنی نئی حکومت قومی مزاج کو تخلیق کرنے میں کام کرے تو کامیابی ہو سکتی ہے ہمارے ہاں بہت سارے ادارے علمی اورعقلی سطح کے علوم کی ترویج کے لئے کام کر رہے ہیں اور بہت سارے ادارے کتاب، شاعری، پینٹنگ اور زبان و ادب کی ترقی کے لئے قائم ہیں۔قومی مزاج کی تخلیق میں ضروری ہے کہ دونوں سطح پر پہلے سے بہترکام کیا جائے۔ نواز شریف کے اس دور حکومت میں اور اس سے پہلے کے جمہوری ادوار میں آرٹس کونسل، اکادمی ادبیات، مقتدرہ یا اسی طرح کے دیگر ادارے پرانے قومی مزاج کے مطابق کام کرتے رہے اور ان کے زیادہ تر سربراہوں نے فائلیں بھرنے کی وجہ سے اور کارکردگی دکھانے کی مجبوری میںکام کئے۔ اس روئیے نے ان اداروں سے منسلک افراد یعنی ملازمین کو بھی غلامانہ ذہن اور سوچ میں مبتلا کردیا ہے اور ایسے اداروں کا سٹاف اپنی ترقی کے لئے مستقل حیثیت میں رہنے والے ”باس“ کے آگے نوکر کی طرح دکھائی دیتا ہے اور یہ صورتحال بدقسمتی سے قومی مزاج کا حصہ بنتی چلی گئی ہے۔ ان اداروں میں آنے والے شاعر ادیب اور آرٹسٹ بھی صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ خوشامد کی بنیاد پر کام حاصل کرتے ہیں اور یہ سلسلہ یہاں رکتا نہیں ہے بلکہ قومی سطح کے ایوارڈز جو کہ ایک اہم دن پر دیئے جاتے ہیں ان تک چلتا چلا جاتا ہے۔ خوشامدی ٹولہ سال دو سال پہلے سے اس ریاضت میں شریک ہو کر پلان کے تحت کام کرتا ہے تاکہ قومی سطح کا ایوارڈ وصول کر سکے۔ انہی میں سے فقظ ایک دو جینوئن بھی شامل ہوتے ہیں اب علمی سطح پر دیکھا جائے تو وہاں بھی ایسے ادارے موجود ہیں جو اسی نظام کے تحت کام کررہے ہیں، مثلاً میرے گھر خاتون کام کرتی تھی اور بی اے کا امتحان بھی دے رہی تھی اسے میں نے کبھی پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا تو تفصیلات جاننے سے معلوم ہوا کہ وہ ایک طالبہ ہے اور کوآرڈی نیٹر کے ذریعے اور پھر بنے بنائے نوٹس کے ذریعے ڈگری کی طرف کامیابی سے قدم بڑھا رہی ہے۔ ہماری ایک دوست کو اردو زبان کے لیکچرز کے لئے بلایا گیا تو انہوں نے دو لیکچرز دے کر چھوڑ دیا اور بتایا کہ ایسے ایسے لوگ آتے تھے جنہیں آتا جاتا کچھ بھی نہیں اور وہ سکولوں کالجوں میں پڑھا بھی رہے ہیں، ہمارے اداروں میں بہت سارے لوگوں نے اس قسم کی ڈگریاں نوکری کے دوران بھی حاصل کر لی ہیں جن کی کاغذی اہمیت کے باعث وہ ترقی کر رہے ہیں جبکہ علمی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے اور بدقسمتی سے یہ بات نظام کے اندر اسی طرح موجود ہے کہ یہ ہماری نفسیات اور قومی مزاج کا بھی حصہ بن چکی ہے۔ یہی رویہ اقرباءپروری کی پرورش کا باعث بھی بنتا ہے اب خدا نہ کرے کہ یہ باتیں ہمارے قومی مزاج کا مستقل حصہ بن جائیں۔ ملک میں تبدیلی کی جو ہوا چلی ہے اس میں ہماری سوچ کے اندر تبدیلی کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہمارا قومی مزاج اس ملک کی مقاصد کے مطابق بن سکے۔ اب نئی حکومت کو فرینڈلی اپوزیشن نہیں ملے گی فرینڈلی اپوزیشن بھی ہمارے مزاج کا حصہ بنتی جا رہی تھی اور ہمیں حقیقی اور اصلی اپوزیشن کی عادت بھی نہیں ہے بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ کسی حد تک سخت محاسبہ کرنیوالی اپوزیشن ہی ہو گی مگرپھر بھی اس کو بہت مثبت انداز میں لیا جائے تو بہتری ملک کی ہی ہو گی۔اب سوال یہ ہے کہ جو ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے وہ کیسے تبدیل ہو گا اور یہ تبدیلی کون برداشت کرے گا یہ چیلنج بڑا سخت موجود ہے کیونکہ کوئی شخص اپنی عادتیں بدلنے پر مشکل سے ہی تیار ہوتا ہے اور بدقسمتی سے سیاسی میدان میں بھی ہم انہی مخصوص لوگوں کو لانے اور بھیجنے اور پھرلانے کے عادی ہو چکے ہیں اور یہ بات بھی ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی تھی۔ اب اسمبلیوں میں نوجوان خواتین و حضرات یا نئے حکمران دیکھنے کی عادت ہونے میں وقت درکار ہو گا اور یہی نئے لوگ اس حکمت عملی کی طرف جا سکیں گے کہ علمی، عقلی اور پھر فنون لطیفہ کے خوشگوار فرائض کو ترقی دی جائے اسی وقت ملک میں بہت سارے لوگوں کے لاشعور میں بہت سارے جذبات مچل رہے ہیں ان جذبات کو راستہ اور رہبری شعور نے دینی ہے لیکن جس کا شعور مضبوط بنیاد پر کھڑا ہے وہی شخص ضمیر کے مطابق درست فیصلے کر سکتا ہے۔ کسی زمانے میں پاکستانیوں کو محض جذباتی قوم کے طور پر دیکھا جاتا تھا مگر موجودہ نئے منظر نامے میں پاکستان محض جذباتی قوم نہیں ہیں اور مستقبل میں ملک میں آنے والی تبدیلی نے اگر ”قومی مزاج“ بدل دیا اور لوگوں نے کرپشن، اقرباءپروری، سفارش، رشوت اور غلامانہ ذہنیت سے نجات حاصل کر لی تو تبھی یہ ممکن ہو گا کہ ملک کی معیشت کی بہتری کے لئے جب اداروں کے سربراہوں اور سٹاف کے معاملات میں درست فیصلے ہونگے اور ادارے بہترہونگے تو ملک ترقی کرے گا۔ چیک اینڈ بیلنس کا نظام شعور اورلاشعور میں موجود ہے اور اب اسے ”قومی مزاج“ بنانے میں استعمال ہونا چاہئے....!!