سب سے پہلے میری طرف سے اپنے تمام قارئین کو یومِ آزادی اور عیدالاضحیٰ مبارک ہوں۔
میں نے اپنے سابقہ کالم میں لکھا تھا کہ پاکستانی جمہوریت اقوام عالم کی جمہوریت سے ذرا ”وکھری“ ٹائپ کی ہے۔ ہم نے ہر قسم کی جمہوریت کا لطف اٹھایا ہے
کبھی صدارتی جمہوریت، کبھی مارشل لائی جمہوریت اور کبھی دیسی جمہوریت جو پچھلے دس سالوں سے ہم پر مسلط ہے۔اس میں دو بڑی پارٹیاں باری باری حکمرانی کررہی ہیں۔ اسے ”چارٹر آف ڈیموکریسی“ بھی کہتے ہیں اور اب کھلاڑیوں کی جمہوریت آئی ہے ۔دیکھیں یہ کیا رنگ دکھاتی ہے ۔اسی لئے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ہماری جمہوریت اقوام عالم کی جمہورت سے علیٰحدہ قسم کی ہے۔کہتے ہیں جمہوریت دنیا کا بہترین نظامِ حکومت ہے۔ ملک کا ہر شہری انتخابات میں اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دے کر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے اور یوں اکثریت کی رائے کیمطابق حکومت معرض وجود میں آتی ہے۔عوام کی مرضی کے کام ہوتے ہیں اور ملک ترقی کرتے ہیں۔ باقی ممالک میں انتخابات ملکی سلامتی کیلئے باعثِ استحکام ثابت ہوتے ہیں مگر ہماری بد قسمتی دیکھیں کہ یہاں انتخابات باعثِ انتشار ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ ہارنے والا کوئی آدمی ان انتخابات سے خوش نہیں اور وہ حکومت کیخلاف کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ حالات کچھ اس طرح بے قابو ہوتے جا رہے ہیں جیسے کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کی سا لمیت پر حملہ کیا جا رہا ہو۔
ویسے توپاکستان میں کبھی آج تک ایسے انتخابات نہیں ہوئے جن میں دھاندلی کا الزام نہ لگا ہو۔لہٰذا موجودہ انتخابات میں بھی دھاندلی کا الزام لگا لیکن یہ تو پاکستان میں عام روایت ہے۔ شروع میں صرف چند لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض آیا۔ متوقع وزیر اعظم نے دھاندلی شدہ تمام حلقے کھولنے کا اعلان بھی کیا لیکن پھر بھی دھاندلی کا شور ملک بھر میں پھیل گیا۔ ٹارگٹ پاکستان کی فوج اور الیکشن کمیشن بنا۔ جناب چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ:”الیکشن والے دن میں نے چیف الیکشن کمشنر سے تین دفعہ فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کوئی جواب نہ ملا۔ شاید چیف کمشنر صاحب نیند فرما رہے تھے“۔یہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے بہت بڑا الزام ہے جسے اگنور نہیں کیا جا سکتا۔کچھ معزز سیاستدان تو ” میں نہیں تو کوئی بھی نہیں “ والے مرحلے تک چلے گئے۔ انہیں ملکی مفادات کی بھی پرواہ نہیں۔ افسوس ہوتا ہے ایسے لوگوں کے رویے پر جنہوں نے پاکستان کے ”یوم آزادی کو جدو جہد یوم آزادی“ بنا دیا اور موقع پر موجود بڑے بڑے سیاستدانوں نے اس کیخلاف منہ سے ایک لفظ تک نہ نکالا۔ مزید حیران کن رویہ خادم اعلیٰ کا تھا جنہوں نے اس گھٹیا بیان کی تائید بھی کر دی ۔تاریخی حوالوں کیمطابق یہ پارٹی شروع سے ہی پاکستان مخالف رہی ہے۔ انہی کے ایک بزرگ نے علی الاعلان فرمایا تھا کہ: ” شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہ تھے“۔ پاکستان کا رزق کھا کر اور اقتدار کے مزے لوٹ کر بھی پاکستان سے اس قدر نفرت جو ستر سال تک بھی دور نہ ہوئی۔ ہم عام پاکستانی جن کےلئے دو وقت کی روٹی بھی مسئلہ ہے پاکستان کے نام پر قربان ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور یہ لوگ جنہوں نے عرصہ دراز تک اقتدار کے مزے لوٹے۔اپنی حیثیت سے زیادہ مراعات سے لطف اندوز ہوئے۔ وسیع جائیدادیں بنائیں۔ دولت کے انبار لگائے۔ اپنے سارے خاندانوں کو سیاست میں لا کر پاکستان کی اشرافیہ میں شامل کیا۔ایک دفعہ منتخب نہ ہوئے تو اعلیٰ حضرت پچھلے بیس سالوں کی حکمرانی بھول کر پاکستان کیخلاف بپھر گئے ۔پاکستان کی اساس پر حملہ کردیااور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بیان تھا جناب خادم اعلیٰ کا جو پنتیس سالوں سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔تھوڑے عرصے کیلئے اقتدار سے علیٰحدہ ہوئے تو وطن مخالف بیان کی تائید کر دی۔ یہ ہیں ہمارے لیڈرز۔ہمارے راہنما ۔ملکی سلامتی کے محافظ۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی سا لمیت کےخلاف کوئی مستند قسم کی گہری منصوبہ بندی پر عمل کیا جا رہا ہے۔جان بوجھ کر پاکستان کو عدم استحکام اور انتشار کا شکار کیا جا رہا ہے۔ اسوقت اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ان لوگوںکے رویہ سے تو ملک کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ دشمن کو وار کرنے کا موقعہ فراہم کیا جا رہا ہے۔دراصل پاکستان میں جب انتخابات کا عمل شروع ہوا تو مخالفین بھی سرگرم ہو گئے۔ دہشت گرد بنوں، چارسدہ اور بلوچستان پہنچ گئے۔ خود کش حملے ہوئے ۔80کے قریب بے گناہ افراد لقمہ اجل بنے اور لگ بھگ دو سو آدمی زخمی ہو ئے ۔پھر بات اس سے بھی آگے بڑھی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے دیامر اور مہمند ڈیمز بنانے کےلئے مہم شروع کی تو شمالی علاقہ جات میں دہشتگردی شروع ہو گئی۔ چودہ گرلز سکولز پر حملہ ہوا اور یہ جلا دئیے گئے۔دو دن بعد گلگت میں سیشن جج کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ سیشن جج صاحب بچ گئے۔اس سے اگلے دن بنوں میں گرلز پرائمری سکول پر حملہ ہوا۔پھر پشین میں دو سکولوں پر حملہ ہوا۔گلگت پولیس چوکی پر حملہ ہوا۔دالبندین میں چینی انجنئیرز کی بس پر حملہ ہوا اور پھرپشین میں ایف سی کی گاڑی پر حملہ ہو گیا۔ اسکا مطلب ہے کہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف ہمارے دشمن با قاعدہ منصوبہ بندی سے آگے بڑھ رہے ہیں تا کہ پاکستان انتشار کا شکار ہو جائے اور نئی حکومت ناکام ہو جائے۔
یہ دہشتگردی نہ تو بے مقصد ہے اور نہ بغیر کسی منصوبے کے ہے۔الیکشن کے حوالے سے تحریک انصاف پر الزام ہے کہ اسے جتوانے کےلئے دھاندلی کی گئی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے تو دھاندلی کرانے والی ہستی کے عمل پر افسوس ہوتا ہے۔ اگر وہ واقعی تحریک انصاف کو دھاندلی کے ذریعے بر سرِ اقتدار لانا چاہتی تو کم از کم اسے اتنی سیٹوں سے نوازتی کہ یہ مرکز اور صوبوں میں بغیر کسی مدد کے اپنی حکومت بنا سکتی جو کہ نہیں ہوا ۔تحریک کو حکومت بنانے کیلئے چھوٹے چھوٹے گروپس یا آزاد امیدواروں سے بار گیننگ کرنی پڑی ہے۔پاکستان کے دشمن یہاں عدم استحکام لا کر ملک کو نقصان پہنچانے کے درپئے ہیں۔متحدہ اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک پاکستان دشمنوں کیلئے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ چھوٹی اتحادی پارٹیاں حکومت کو بلیک میل کرنے کی تیاریاں کررہی ہیں۔ان حالات میں حکومت کیسے چلے گی؟نیا پاکستان کیسے بنے گا ؟دعا ہے کہ خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔آمین!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024