سانحہ بہاولپور اور ہماری ذمہ داریاں
سانحہ بہاولپور کو 30 سال بیت گئے ہیں ۔ ابھی تک اس عظیم سانحہ کے ملزمان اور مجرمین کو بے نقاب نہیں کیا جا سکا۔ اگرچہ اس سلسلے میں مختلف انکشافات سامنے آئے ہیں جو حقائق سے پردہ اُٹھاتے ہیں۔ افسوس ہے کہ اس سلسلے میں کسی بھی حکومت نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی ۔ نہ ہی ایک کے بعد ایک آنے والے عسکری زعما نے اس سمت میں کسی پیش رفت کے لیے کوئی سرگرمی دکھائی۔
اتنا بڑا قومی سانحہ اس لیے بھی دلدوز ہے کہ اس میں پاک فوج کے سالار سمیت مسلح افواج کے کئی اعلیٰ افسران بھی لقمہ ءاجل بن گئے۔ جنرل ضیاءالحق نہ صرف بری فوج بلکہ مملکتِ خداداد کے با اختیار صدر اور سیاہ و سفید کے مالک مگر ایک صوفی صفت اور درویش منش حکمران تھے۔ اُنہوں نے میاں نواز شریف کے سر پر دستِ شفقت رکھا تو وہ تین مرتبہ ملک کے وزیرِاعظم بن گئے۔ مگر افسوس کہ اقتدار کے نشے میں وہ بھی اپنے تینوں ادوار میں اس اہم ذمہ داری کو پورا کرنے سے پہلو تہی کرتے رہے۔ عمران خان ایک مرحلے پر کرکٹ میں دل ہار بیٹھے تھے ۔ جنرل ضاءالحق نے اُن کی دلجوئی کی اور اُن کو مشفقانہ تھپکی دی ۔ نتیجةً اُنہوں نے ملک کے لیے عالمی کپ جیت کر دکھایا۔ نہ صرف سماجی بھلائی کے کاموں میں نام پیدا کیا بلکہ سیاسی جماعت بنا کر آج وزیرِاعظم کا جلیل قدر عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔ شہدائے بہاولپور کے وارثین کی طرف سے میں اُن کی خدمت میں درخواست اور اُمید کرتا ہوں کہ وہ اپنے دورِ حکومت میں ان پسماندگان کی دلبستگی اور اشک شوئی کریں گے۔ میرے سمیت یہ پسماندگان زنجیرِ عدل ہی ہلا سکتے ہیں سو وہ ہم ہلاتے رہیں گے۔
وا ئے ناکامی کہ متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
صدر ضیاءکی شہادت محض ایک حادثہ نہ تھی بلکہ ایک گہری بین الاقوامی سازش تھی ۔ جس نے پوری امتِ مسلمہ کو ایک گہرا زخم لگایا۔ یہ سچائی پر مبنی ایک حقیقت ہے۔ شہید صدر نے روزنامہ پاکستان ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ©©" اب مجھے کابل میں اسلامی حکومت بنتے نظر آ رہی ہے جسکے ایک جانب اسلامی جمہوریہ پاکستان اور دوسری جانب اسلامی جمہوریہ ایران ہیں" بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ ایک کھلا کھلا پیغام تھا جس نے اسلام دشمن عناصر اور قوتوں کو چوکنا کر دیا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شہید صدر کے اس اعلان کے فوراً بعد سویت یونین کے راہنماﺅں نے بھارتی وزیرِ اعظم راجیو گاندھی کے ذریعے پاکستان کو سخت پیغام بھیجا کہ سوویت یونین اور بھارت دونوں کابل میں اسلامی حکومت کے قیام کو ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔ ستم یہ ہے کہ خود امریکہ کی بھی یہی خواہش اور کوشش تھی مگر وزیراعظم جونیجو حالات کی سنگینی اور خطرات کا ادراک نہ کر سکے ۔ مشہور مذہبی عالم اور شریعت کورٹ کے جج پیر کرم شاہ الازہری نے مجھے خود بتایا تھا کہ صدر ضیاءنے اُن سے کہا تھا کہ پاکستان اور اسلام دشمن قوتیں اُن کو ہٹانے اور مٹانے کے لیے پوری صف بندی کر چکی ہیں۔ امریکی ، بھارتی ، روسی اور اسرائیلی خفیہ اداروں کا گٹھ جوڑ عمل میں آ چکا ہے۔ جس کا مقصد افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کو روکنا اور پاکستان کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنا ہے۔ امریکی صدر ریگن نے ماضی میں سی آئی اے کے نائب سربراہ جنرل وارنن والٹرز کے ذریعے میرے والد کو دھمکی دی تھی کہ امریکہ کو پاکستان کے جوہری پروگرام کی تیز رفتار پیش قدمی پر گہری تشویش ہے لیکن وہ اس دھمکی کو کسی خاطر میں نہ لائے اور اپنے منصوبوں اور اعلیٰ مقاصد کے حصول پر صدقِ دل اور ثابت قدمی سے قائم رہے ۔
سانحہ بہاول پور کے سلسلے میں قائم بورڈ آف انکوائری کے سربراہ پاک فضائیہ کے ایر کموڈور عباس حسین مرزا اپنی تحقیقاتی رپوٹ میں انکشاف کر چکے ہیں کہ C-130 کو پیش آنے والا حادثہ انتہائی غیر معمولی نوعیت کا تھا جس کی منصوبہ بندی بڑی اعلیٰ سطح پر پوری محنت اور احتیاط سے کی گئی تھی۔ پی اے ایف کے زیرِ استعمال ہرکولیس C-130 طیارہ اپنے چار طاقت ور انجنوں ، ساخت اور کارکردگی کے اعتبار سے ایک محفوظ طیارہ ہے جس میں کسی بھی ناگہانی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کی مکمل اور بھر پور صلاحیت موجود ہے۔ آخر یہ صلاحیت اُ س روز کیوں اور کیسے جواب دے گئی تھی۔ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ سانحہ بھاولپور جہاز میں کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے پیش نہیں آیا تھا بلکہ یہ ایک مجرمانہ سازش اور دہشت گردی کی گھناﺅنی کارروائی ہے۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ طیارے کو حادثہ سے دو چار کرنے کے لئے ایسی جدید اور پیچیدہ تکنیکی حکمتِ عملی استعمال کی گئی ہے جو صرف اور صرف خصوصی خفیہ تنظیمیں ہی بروئے کار لا سکتی ہیں۔ جن کے پاس ایسے وسائل اور اہلیت و صلاحیت موجود ہے ۔
C-130 طیارہ اپنی پرواز کے صرف ۳ منٹ بعد ہی حادثہ کا شکار ہو گیا۔ فضائی حادثات کی تاریخ بتاتی ہے کہ عمومی طور پر طیارے اپنی پرواز کے ایک گھنٹے یا اس سے بھی زائد وقت کے بعد ہی حادثے سے دو چار ہوتے رہے ہیں۔ یہ کیسا فضائی حادثہ تھا کہ پرواز کے صرف 3 منٹ بعد ہی رونما ہو گیا۔ یہ ایسا سوا ل ہے جس کے جواب میں سانحہ بہاولپور میں ملوث کرداروں تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔ آج ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت کی حکومت ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑی تبدیلی ہو گی کہ اس سانحے کے بارے میں دو ٹوک اور واضح لائحہ عمل دیا جائے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہو گا جس سے قوم اور ملک دونوں ہی مضبوط ہوں گے انشاءاللہ۔