جمعة المبارک‘ 5 ذی الحج 1439 ھ ‘ 17 اگست 2018ء
قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب مسلم لیگ ن کے ارکان سیاہ پٹیاں باندھ کر آئے۔
تعجب ہے کہ ایسے بھی لوگ پائے جاتے ہیں جنہیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ مسلم لیگ ن کے ارکان نے بازوﺅں پر سیاہ پٹیاں کیوں باندھ رکھی تھیں۔ چنانچہ ایسے لوگوں کو مشورہ ہے کہ وہ چودہ اگست کو 72 ویں یوم آزادی کی تقریب سے صدر مملکت سید ممنون حسین کا خطاب پڑھ لیں جس میں انہوں نے ازراہ خیرخواہی الیکشن کمشن کو مشورہ دیا ہے کہ انتخابی نتائج بارے مضطرب لوگوں کو مطمئن اور انکے شکوک و شبہات دور کریں کہ اس سے ”بہتوں کا بھلا ہوگا“ صدر مملکت کے اس مشورے پرالیکشن کمشن کا ردعمل آچکا ہے جو دھاندلی کی کسی شکایت پر مجاز فورم پر درخواست دائر کرنے کا طریقہ کار رہا ہے تاہم اس حوالے سے تحریک انصاف کے چیئرمین اور متوقع وزیراعظم عمران خان کا وسیع الظرفی پر مبنی بیان بہت اچھا لگا۔ اس بیان میں انہوں نے اپوزیشن کو پیش کش کی تھی کہ وہ جس حلقے پر انگلی رکھے گی اسے کھول دیا جائےگا۔ اس موقعہ پرپارلیمنٹ اور پارلیمانی نظام بارے مغرب سے درآمدہ لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ یہ محض لطیفہ ہے اس کا تعلق کہیں جوڑنے سے اجتناب کرنا مستحسن ہوگا۔ کسی مغربی ملک کے آئین اور روایات کے تحت نئی پارلیمنٹ کا افتتاح لاٹ پادری کر رہا تھا۔ مہمانوں کی گیلری میں باپ کے ساتھ آئے بچے نے پوچھا: فادر نے افتتاح کے بعد دعا کے لئے ہاتھ کیوں کھڑے کر لئے ہیں، باپ نے جواب دیا۔ فادر آسمانی باپ سے التجا کر رہا ہے کہ توہی اس ملک اور قوم پررحم فرمانا کیونکہ اب ملک کی تقدیر جن ہاتھوں میں ہو گی، وہ یہی ہیں جو میرے سامنے بیٹھے ہیں!
٭....٭....٭....٭
مالک مکان کے مطالبات سے تنگ جرمن طالبہ ٹرین میں رہنے لگی
جرمنی سے دلچسپ خبر آئی ہے کہ 26 سالہ مولر نامی جرمن طالبہ کا فلیٹ کی مالکن سے چھوٹی سی بات پر ہونے والا تنازع اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ اسے مجبوراً گھر چھوڑنا پڑا۔ لیکن اب اس نے انوکھا فیصلہ کیا کہ کوئی گھر کرائے پر لینے کی بجائے ٹرین کے سال بھر کے ٹکٹ خرید کر اس میں جا ڈیرا جمایا۔ جہاں وہ اپنے کپڑوں، لیپ ٹاپ، کتابیں اور ضرورت کی دیگر اشیا کے ساتھ سکون کے ساتھ رہ رہی ہے۔ مکان مالک کہیں کا بھی ہو، کرائے دار کو زچ کئے رکھنا اس کی فطرت میں شامل ہے۔ مگر جرمن بڑے فراخ دل ہوتے ہیں اور خاص طور پرجرمن عورتیں تو بہترین بیویاں سمجھی جاتی ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی ان کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے ”میم“ لانے پر مصر اپنے ایک دوست کو یہ مشورہ دیاتھا کہ اگر یورپ سے بیوی لانے کا قصد رکھتے ہو تو اسے جرمنی سے تلاش کرو۔ علامہ مرحوم اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے سلسلے میں تین سال جرمنی میں مقیم رہے تھے جرمنوں کی وسعت قلبی کا اس سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کئی برسوں سے برسراقتدار چانسلر انجیلا مرکل واحد یورپی حکمران ہیں جنہوں نے مصیبت زدہ جلاوطن شامیوں پراپنے دروازے کھول دیئے۔ جرمنی کو دنیا بھر کے آفت رسیدہ اور سیاسی پناہ گزینوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ جسے کہیں پناہ نہ ملے وہ جرمنی پہنچ جاتا ہے۔ بس جرمن حکام کو یہ یقین دلانا کافی ہوتا ہے کہ اسے اسکے اپنے وطن میں عقیدے، سیاسی اختلافات یا نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
٭....٭....٭....٭
تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے شاہ فرمان نے کہا ہے کہ میں گورنر بنا تو گورنر ہاﺅس میں نہیں رہوں گا۔
جب سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ وہ وزیراعظم ہاﺅس میں رہنے کی بجائے اپنے ملٹری سیکرٹری کے انکلیو میں رہیں گے‘ تب سے انکی دیکھا دیکھی سبھی کہنے لگے ہیں کہ وہ وزیراعلیٰ یا گورنر بننے کی صورت میں مخصوص رہائش گاہوں میں نہیں رہیں گے۔ دراصل وزیراعظم کی مخصوص رہائش گاہ، ایوان صدر اور گورنر ہاﺅسوں میں ایسی کوئی خرابی نہیں کہ جسکی وجہ سے ملک کی ترقی رکی پڑی ہو۔ ساری خرابی ان عالی شان رہائش گاہوں کے باسیوں میںہوتی ہے۔ جنہوں نے کفایت شعاری کو شعار بنانا ہو، وہ ان رہائش گاہوں میں بھی رہ کر یہ نیک کام کر سکتے ہیں۔ ماضی میں صدر رفیق تارڑ ایوان صدر میں اس طرح رہتے رہے ہیں کہ جب وہ مشرف کے دور میں مستعفی ہوئے تو اپنا سامان اپنی کار کی ڈگی میں رکھا اور براستہ موٹروے لاہور آگئے۔ روانگی کے وقت گارڈ آف آنرلینا بھی پسند نہیں کیا۔ ایک وقت تھا کہ سلطنت برطانیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا اور اس کا فرمانروا بکھنگم پیلس میں رہتا تھا جو دنیا کا سب سے عالی شان محل تسلیم کیا جاتا ہے۔ سلطنت برطانیہ میں دوسری سب سے بڑی عالی شان عمارت نئی دہلی میں 1911ءکے بعد تعمیر ہونے والا وائسرائے ہاﺅس تھا جسے اب راشٹر پتی بھون کہا جاتا ہے۔ اس میں بھارتی صدر عبدالکلام ایسے لوگ بھی پانچ سال گزار چکے ہیں جن کی اپنی خوراک محض دال بھات تھی اور پانی بھی پینا ہوتا تو خدمت گار کو بلانے کی بجائے خود نلکے کے پاس جا کر ہی پیتے لیتے۔
٭....٭....٭....٭
اجلاس میں سپیکر کے انتخاب کے دوران عمران خان تسبیح کرتے رہے۔
عمران خان نے جس کام میں ہاتھ ڈالا ہے‘ اس میں جس کے نام کی تسبیح کی جارہی تھی‘ وہ شامل حال رہے تو بہتر ہے۔ اجلاس کے دوران ان کا تسبیح کرنے کا مقصد اللہ سے مدد مانگنے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ شیخ سعدی نے فرمایا :
”صحبت صالح ترا صالح کنند۔ صحبت طالح ترا طالح کنند“
(اچھی صحبت میں بیٹھو گے اچھے بنو گے‘ بری صحبت میں بیٹھو گے‘ تو برے بنو گے۔) ازدواجی زندگی کے بعد انہیں جو صحبت میسر آئی‘ اسکے ان پر اچھے اثرات مرتب ہوتے نظر آرہے ہیں۔عمران خان خوش قسمت ہیں کہ اس بیروزگاری کے دور میں انہیںدو کام مل گئے ہیں‘ ایک وزارت عظمیٰ ‘ جس پر بیٹھ کر انہوں نے ایک دو روز میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے تاکہ وہ ملک میں جس تبدیلی کاقوم سے وعدہ کرکے آئے ہیں‘ اسے پورا کرسکیں۔ دوسرا پیری فقیری کا ‘ جس پر انہوں نے ابھی سے کام شروع کردیا ہے تاکہ انکی گرومنگ ہوتی رہے اور وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو کر کوئی گدی سنبھال کر اپنے روٹی روزگار کا بندوبست کرسکیں۔ ہمارے ہاں یہ کام بڑی عقیدت کا حامل ہے۔ بالخصوص خواتین کا ایسے عاملوں کے پاس جمگھٹا لگا رہتا ہے۔ بعض عاملوں اور سیاست دانوں میں تھوڑا ہی فرق نظر آتا ہے‘ جعلی عامل اپنے جعلی تعویزوں سے عوام کو بے وقوف بناتے ہیں جبکہ سیاستدان اپنے جھوٹے وعدوں سے قوم کو بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال خان صاحب کی کامیابی میںسارے فیوض خاتون اول کے نظر آتے ہیں جن کے موّکلوں نے خان صاحب کو اوج ثریا تک پہنچا دیا۔ اب یہ خان صاحب پر منحصر ہے کہ وہ دوسرے سیاست دانوں کی طرح عوام کو سبزباغ دکھا کر اپنی حکومت کے پانچ سال پورے کرتے ہیں یا اس شعر پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ....
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں‘ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا