افغان مسئلے کا حل مذاکرات کے سوا کچھ اور نہیں
افغانستان میںایجوکیشن سنٹر پر خودکش دھماکے، چیک پوسٹ اور ائربیس پر حملوں میں طلبہ و طالبات، اہلکاروں سمیت 112 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
افغان حکومت کے خلاف طالبان برسر پیکار ہیں۔ یہ امریکہ کی افغانستان پر یلغار کے بعد اقتدار کے ایوانوں سے پہاڑوں پر چلے گئے اور گوریلاوار شروع کر دی۔ امریکہ کی بمباری میں افغانستان کی تباہی و بربادی میں جو کسر رہ گئی وہ گوریلا وار کے دوران پوری ہو رہی ہے۔ طالبان نے رمضان کے مہینے میں جنگ بندی کا اعلان کیا۔ یہ ایک مہینہ خونریزی میں واضح کمی کا تھا۔ اس کے بعد طالبان نے پھر قیامت خیز حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ گزشتہ روز کے حملے سے بھی سنگیں اب تک کئی حملے ہوچکے ہیں۔ طالبان کے علاوہ داعش بھی افغانستان میں سرگرم ہے۔ طالبان افغان حکومت کے ساتھ کسی سمجھوتے پر پہنچ جاتے ہیں تو داعش کا آسانی سے قلع قمع ہو سکتا ہے۔ طالبان کو مذاکرات کے ذریعے ہی ملک میں اپنا پرامن کردارادا کرنے پر مائل کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ پاکستان پر طالبان کو مذاکرات کی میزپر لانے کے لئے کردارادا کرنے پر زور دے رہا ہے۔ طالبان کو ان کے جائز تحفظات دور کر کے مذاکرات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کو جب تک اقتدار میں شامل نہیں کیا جاتا ان سے کسی قسم کے تعاون کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ افغان انتظامیہ ان سے غیر مشروط سرنڈر کا مطالبہ کرتی ہے۔ افغان انتظامیہ اور طالبان کے مابین مذاکرات اسی ایک پوائنٹ پرعدم اتفاق کے باعث شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ امریکہ جس کا افغانستان میں مکمل عمل دخل ہے وہ کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے پر مذاکرات کر کے طالبان قومی دھارے میں شامل کر سکتا ہے۔یہی افغانستان میں قیام امن کی کنجی ہے۔