ملکی قرضوں کا حجم 300 کھرب کی سطح پر پہنچ گیا
ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات جی ڈی پی کے 86.8 فیصد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے۔ گزشتہ مالی سال میں قرضوں میں 47 کھرب 52 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ سٹیٹ بنک کے مطابق گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان کے قرضوں اور واجبات کا مجموعی حجم 298 کھرب 61 ارب 20 کروڑ روپے کی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔
ہمارے ہاں ماہرین معاشیات کی ایک طویل فہرست ہے۔ پاکستان ایسے ماہرین کیلئے معاشیات کے حوالے سے تجربہ گاہ بنا رہا۔ بڑے بڑے نام کے ماہرین کومعیشت کی مضبوطی عالمی اداروں سے ناروا شرائط پر قرضوں میں نظرآئی‘ تاہم شوکت عزیز کی اقتصادی مہارت کی ستائش نہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ انہوں نے بطور وزیرخزانہ پاکستان کی ایم آئی ایف سے خلاصی کرا دی تھی۔ ان کے بعد کے ماہرین کوآئی ایم ایف مہربان نظر آیا۔ اس سے قرضوں کی ادائیگی کیلئے بھی قرض لئے جاتے رہے۔ ایک طرف ہمارے اوپر قرضوں کے ہمالیہ جتنا بوجھ ہے‘ دوسری طرف غیر ممالک میں ”محب وطن“ پاکستانیوں کا جمع شدہ کالا دھن ملکی قرضوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ نئی حکومت کو بھی قرضوں کے حوالے سے یقینا پریشانی ہوگی۔ اس کے ماہرین کوئی تدبیر کر رہے ہونگے۔ سادگی پر زور دیا جا رہا ہے مگر اس سے 90 ارب ڈالر کے قرضے ادا نہیں ہو سکتے۔ فوری حل وہ دو سو ارب ڈالر واپس لانے سے نکل سکتا ہے جس کی واپسی کا سوئس حکومت سے معاہدہ کیا جا چکا ہے۔ نئی حکومت اپنے اس اعلان پر عمل کرانے کی کوشش کرے۔