حکومت سازی کے مراحل تکمیل کی جانب آج وزیراعظم کا انتخاب
قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سپیکراور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے ساتھ سندھ اور کے پی میں قائد ایوان بھی چن لئے گئے۔ آج 17 اگست کو قومی اسمبلی وزیراعظم کا انتخاب کرے گی۔ عمران خان اور شہبازشریف مدمقابل ہونگے۔
قومی اسمبلی میں سپیکر کا انتخاب پرامن طریقے سے ہوا، مگر انتخاب کے بعد اسد قیصر کے حلف کے دوران لیگی ارکان نے ہنگامہ برپا کرکے عمران خان کا گھیراﺅ کیا اور جعلی مینڈیٹ نامنظور‘ ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے گئے۔ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں بھی سپیکرکے انتخاب کے موقع پر ایسی ہی ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔ احتجاج اپوزیشن سمیت کسی بھی طبقے اور حلقے کا حق ہے اس میں وقار کے پہلو کو مدنظر رکھنا خود احتجاج کرنے والوں کے وقار میں اضافہ کرتا ہے۔ ایک حد کے اندر احتجاج کی حمایت کی جا سکتی ہے۔ احتجاج اس حد تک نہیں جانا چاہئے جس سے جمہوریت زد میں آتی نظر آئے۔ مرکز اور پنجاب میں ہنگامہ آرائی کے باوجود حکومت سازی کا عمل خوش اسلوبی سے جاری ہے۔ ایک دو روز میں پنجاب اور بلوچستان میں بھی وزرائے اعلیٰ کا انتخاب عمل میں آ جائیگا۔ آج وزیراعظم کا انتخاب ہو رہا ہے۔ جہاں کانٹے دار مقابلے کی توقع تھی مگر پیپلزپارٹی گرینڈ اپوزیشن الائنس کے پلیٹ پر کئے گئے وعدے سے بیک آﺅٹ کرتی نظر آ رہی ہے۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب میں مسلم لیگ ن اور الائنس میں شامل پارٹیوں نے خفیہ ووٹنگ کے دوران پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کو ووٹ دیا۔ الائنس کے پلیٹ فارم پر میاں شہبازشریف کو قائدایوان نے نامزد کیاگیا تھا مگر اب پیپلزپارٹی کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال گرینڈ اپوزیشن الائنس کے مستقبل پر بھی ایک سوالیہ نشان بن رہی ہے۔