کوئی مکروفریب کشمیریوں میں آزادی کی تڑپ ختم نہیں کر سکتا
بھارتی یوم آزادی پر کشمیریوں کا دنیا بھر میں یوم سیاہ اور مودی کا کشمیریوں کو گلے لگانے کا چکمہ
کنٹرول لائن کے دونوں طرف اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے بھارت کا یوم آزادی گزشتہ روز یوم سیاہ کے طور پر منایا اور کشمیر پر بھارتی تسلط کیخلاف احتجاجی جلسوں اور مظاہروں کا انعقاد کیا۔ اس دوران بھارتی فوجوں کے ساتھ جھڑپوں میں بیسیوں افراد زخمی ہوگئے جبکہ مقبوضہ وادی میں یوم سیاہ کے موقع پر مکمل ہڑتال کی گئی۔ یوم سیاہ اور ہڑتال کی اپیل حریت لیڈران سید علی گیلانی‘ میرواعظ عمرفاروق اور محمدیٰسین ملک کی جانب سے مشترکہ طور پر کی گئی تھی جس کا مقصد عالمی برادری کو پیغام دینا تھا کہ بھارت نے طاقت کے زور پر کشمیریوں کا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت سلب کر رکھا ہے۔ بھارتی حکام نے یوم سیاہ کو ناکام بنانے کیلئے سکیورٹی کے نام پر وسطی‘ شمالی اور جنوبی کشمیر کے تمام علاقوں میں سخت پابندیاں عائد کئے رکھیں تاکہ کشمیری عوام بھارت کیخلاف مظاہروں میں شریک نہ ہوسکیں۔ گزشتہ روز انٹرنیٹ اور کالنگ سروسز بھی معطل رکھی گئیں جس کے باعث الیکٹرانک بزنس اور ای بنکنگ کا نظام بری طرح متاثر ہوا۔ اسی طرح گزشتہ روز پورے شہر میں جگہ جگہ گاڑیوں اور مسافروں کی چیکنگ کی جاتی رہی اور ساتھ ہی ساتھ راہگیروں کی تلاشی کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا۔ سونہ وار کے علاقے میں سرکاری اور نجی عمارات کی اوپری منزلوں میں پولیس اور فورسز کے خصوصی دستے تعینات کئے گئے اور اسی طرح نزدیکی پہاڑی پر بھی فورسز تعینات رہیں۔ اس دوران حریت لیڈر یٰسین ملک کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ سیدعلی گیلانی بدستور گھر پر نظربند ہیں۔
دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر گولی سے حل نہیں ہوگا بلکہ کشمیریوں کو گلے لگانے سے حل ہوگا۔ بھارت کے 72ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف اور صرف کشمیریوں کو گلے لگانے میں ہی مضمر ہے۔ بزرگ کشمیری رہنماءسید علی گیلانی نے مودی کے اس بیان کو ڈرامے بازی قرار دیا۔ کشمیریوں نے گزشتہ روز یورپی یونین کے ہیڈکوارٹر میں بھارتی سفارتخانہ کے باہر بھی زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا اور بھارتی حکومت کیلئے ایک یادداشت پیش کی جس میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ کشمیریوں کو وعدے کے مطابق ان کا حق خوداختیاری دیا جائے۔ اس وقت بھارتی سفارتخانہ میں یوم آزادی کی تقریب جاری تھی۔ کشمیری عوام ہر سال بھارت کا یوم آزادی دنیا بھر میں یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔
کشمیری عوام اگر ہر سال 14 اگست کو جوش و ولولے کے ساتھ پاکستان کا یوم آزادی مناتے اور اس موقع پر پاکستان کے پرچم لہراتے اور پاکستان کا قومی ترانہ گاتے ہوئے پاکستان کے ساتھ یکجہتی و وارفتگی کا اظہار کرتے ہیں اور اسکے برعکس 15 اگست کو وہ بھارت کا یوم آزادی دنیا بھر میں یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں تو درحقیقت وہ کشمیر پر اٹوٹ انگ والی بھارتی ہٹ دھرمی کا دنیا کے سامنے پول کھولتے ہیں اور عالمی قیادتوں کو اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں کہ کوئی بھارتی جبروتسلط انکے پاکستان کے ساتھ وابستگی و الحاق کے جذبوں کے آگے بند نہیں باندھ سکتا۔ ان کا مستقبل پاکستان کے ساتھ ہی وابستہ ہے اس لئے وہ بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے ظالم بھارتی فوجوں کے آگے اپنے سینے تانے رکھیں گے اور انکے ظلم و جبر کا ہر ہتھکنڈہ برداشت کرتے ہوئے آزادی کی منزل کی جانب گامزن رہیں گے۔ انہیں کسی تخویف و تحریص کے ذریعہ اپنی جدوجہد سے ہٹایا جا سکتا ہے نہ اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے سے انہیں روکا جا سکتا ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ مکار ہندو بنیا بغل میں چھری‘ منہ میں رام رام کے مصداق کشمیریوں کو گلے سے لگانے کی مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے دریغ نہیں کرتا اس لئے کشمیری عوام ہندو انتہاءپسندوں کے نمائندہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے کشمیریوں کو گلے لگانے والے چکمے میں ہرگز نہیں آنیوالے۔ وہ دنیا کو مودی سرکار کا اصل مکروہ چہرہ دکھاتے ہوئے اپنی آزادی کی جدوجہد ہر صورت جاری رکھیں گے۔ مودی نے تو گزشتہ سال بھی بھارتی یوم آزادی کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے من و عن یہی الفاظ استعمال کئے تھے کہ مسئلہ کشمیر گالی اور گولی سے نہیں بلکہ کشمیریوں کو گلے لگانے سے حل ہوگا جبکہ سارا سال بھارت نے عملاً کشمیریوں کے گلے کاٹتے ہوئے گزارا۔ مودی سرکار کے حوصلے تو اب اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج نافذ کرکے وہ کشمیریوں کی نسل کشی اور وادی کشمیر کی ہئیت تبدیل کرنے کی اعلانیہ سازشوں میں مصروف ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں ہندو اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرنے کی سرکاری سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں۔
مقبوضہ وادی میں بزرگوں‘ بچوں اور خواتین سمیت کشمیری عوام کو بھارتی فوجوں اور پیراملٹری فورسز کے ذریعے جس بے دردی کے ساتھ ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ وہ آزادی کی تحریکوں کو دبانے کی دنیا بھر میں منفرد مثال ہے۔ نہتے اور بے گناہ کشمیری عوام پر ایسے ظلم و تشدد کا اقوام عالم کے نمائندہ ادارے اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی برادری بھی سخت نوٹس لے چکی ہے جبکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی قبریں تک دریافت کی گئی ہیں جن میں بھارتی ظلم و تشدد سے شہید ہونیوالے بیسیوں کشمیری باشندوں کی بے گوروکفن نعشیں دفنا کر انکے لواحقین کو انکے پیاروں کی موت سے بھی بے خبر رکھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ بھارت نے نہ صرف کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی جدوجہد کو بزور دبانے کی کوشش کی بلکہ د نیا کے سامنے ان کا درانداز اور دہشت گرد ہونے کا تاثر پیدا کرنے کی بھی کوشش کی گئی مگر بھارتی مظالم کی بنیاد پر آج پوری دنیا کی آنکھیں کھل چکی ہیں اور اقوام عالم کی جانب سے بیک زبان ہو کر اپنے نمائندہ عالمی اداروں کے پلیٹ فارم پر کشمیری عوام کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا اظہار کیا جارہا ہے بلکہ بھارت سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دوطرفہ مذاکرات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ بات کرنے کا تقاضا بھی کیا جارہا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ آج کشمیری ہی نہیں‘ بھارتی عوام بھی بھارت کی جنونی اور انتہاءپسند مودی سرکار کی پاکستان اور مسلم دشمن پالیسیوں اور بھارتی فوجوں کی جانب سے توڑے جانیوالے مظالم پر نفرت کے اظہار کیلئے احتجاج کے مختلف اور منفرد راستے اختیار کررہے ہیں۔ بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر بھارتی علماءکی جانب سے گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی قومی ترانہ پڑھنے سے گریز کیا گیا جو سیکولرازم کے داعی بھارتی جنونی لیڈران کیلئے لمحہ¿ فکریہ ہے۔
ہماری آزادی کی 71 سالہ تاریخ درحقیقت پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی گھناﺅنی سازشوں کے تذکرے سے بھری پڑی ہے۔ دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل سے بھارت کے مسلسل گریز کی داستانیں بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہیں اور کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کی بھارتی چالبازیوں اور سازشوں کا اندازہ اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے پاکستان اور کشمیری عوام کو اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی فورموں پر کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے آواز اٹھانے سے روکنے کیلئے 1972ءمیں پاکستان کے ساتھ جبر کے حالات میں شملہ معاہدہ کیا جس کے تحت مسئلہ کشمیر سمیت تمام دوطرفہ تنازعات باہمی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنے کا لالی پاپ دیا گیا اور پھر بھارت اس معاہدے کی راہ پر آنے سے بھی مکر گیا۔ چنانچہ یہ تلخ حقیقت بھی ہماری تاریخ کے ریکارڈ میں شامل ہوچکی ہے کہ بھارت نے اب تک ہر سطح کی ڈیڑھ سو سے زائد مذاکرات کی میزیں خود رعونت کے ساتھ الٹائی ہیں اور وہ پاکستان کو کشمیر کو بھول جاﺅ والا پیغام دوطرفہ مذاکرات کے ہر اہتمام کے موقع پر دیتا رہا ہے۔ بھارت کی شروع دن سے نیت بھی یہی ہے کہ کشمیر کا کسی بھی صورت پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا جائے تاکہ اسکے راستے پاکستان آنیوالے دریاﺅں کا رخ موڑ کر اور پانی روک کر پاکستان کی زرخیز دھرتی بنجر بنادی جائے اور اس طرح پاکستان کی سلامتی کمزور کرکے اسے اپنے لئے تر نوالہ بنالیا جائے۔
کشمیری عوام نے اس بھارتی بدنیتی کو بھانپ کر ہی اپنے حق خودارادیت کیلئے بھارتی فوجوں کے آگے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا جو اپنے پیاروں کی لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیکر بھی اپنے حق خودارادیت کے اصولی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں صبر و استقامت کی نئی داستانیں رقم کی ہیں۔ اگر وہ بھارتی مظالم سہہ کر بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے آزادی کا پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیا تو انکے جذبوں کیخلاف آئندہ بھی کوئی بھارتی ہتھکنڈہ کارگر نہیں ہو سکے گا اور وہ آزادی کی تڑپ میں آگے بڑھتے ہوئے اپنی منزل حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ پاکستان کے 72ویں یوم آزادی کے موقع پر آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار محمد مسعود خان اور وزیراعظم راجہ محمد فاروق حیدر خاں نے بھی اسی تناظر میں بھارتی لیڈر شپ اور اقوام عالم کو باور کرایا ہے کہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق حتمی ہے جس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو سکتا چنانچہ یہی زبان خلق کشمیر کی آزادی اور اسکے پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے نقارہ¿ خدا بنے گی۔ کشمیر نے جلد یا بدیر بھارتی تسلط سے بہرصورت آزاد ہونا ہے جس کیلئے کشمیری عوام نے بھارتی یوم جمہوریہ کو دنیا بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منا کر اپنے کاز کے ساتھ وابستگی کا ٹھوس ثبوت فراہم کردیا ہے۔ چنانچہ مودی سرکار کو محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں لینا چاہیے اور یہ حقیقت تسلیم کرکے پاکستان اور کشمیری نمائندہ تنظیموں کے ساتھ ٹھوس مذاکرات کی شروعات کردینی چاہیے کہ مسئلہ کشمیر گالی اور گولی سے نہیں‘ کشمیری عوام کو گلے لگا کر ان کا حق خودارادیت تسلیم کرنے سے ہی حل ہوگا۔ آج مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ بھی اس حقیقت کے قائل نظر آتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا صرف سیاسی حل ہی کشمیریوں کو سکون دے سکتا ہے جبکہ یہ سیاسی حل یواین قراردادوں کی بنیاد پر کشمیری عوام کو استصواب کا حق دے کر ہی نکالا جا سکتا ہے۔ مودی بے شک کشمیری عوام کو مکروفریب سے گلے لگاتے رہیں مگر وہ ان میں آزادی کی تڑپ کبھی ختم نہیں کر سکتے۔