مجھے رانا ثناءاللہ خان سے مکمل اتفاق ہے کہ وہ کسی منصوبہ بندی کے بغیر یہ ڈرامہ نہ کر سکتا تھا۔ سکندر تو اس کا ساتھی ہوگا اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ سے یہ تفتیش کون کرے گا؟ پیپلز پارٹی کے زمرد خان نے جرا¿ت نہیں کی حماقت کی ہے یہ تو کوئی ڈرامہ تھا، ساڑھے پانچ گھنٹے تک ایک شخص کی طرف سے اسلام آباد پولیس انتظامیہ اور حکومت کا تماشا ساری دنیا کو دکھانے کے بعد زمرد خان کو خیال آیا کہ اب کافی ہو گیا ہے تو اس ڈرامے کا ڈراپ سین کر دینا چاہیے اس سے پہلے کئی دفعہ ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ ہمارے میڈیا نے پاکستان کے لئے ایک ناکام اور بدنام ریاست کا منظر پوری دنیا کو دکھایا۔ اب تو ہر بار میڈیا ایسے ہی کرتا ہے کہ لمحے لمحے کی کہانی سے لوگوں کے اعصاب شل کرتاہے اور دشمنوں کو خوش کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسے ماحول کو دہشت اور وحشت پھیلانے کے لئے باقاعدہ پروگرام کے تحت دکھایا جائے اداکاری کرنا اور ڈرامہ کی سی حالت پیدا کرنا مناسب نہیں ہے۔ 15 اگست کو بھارت یوم جمہوریہ منا رہا تھا اور ہم دارالحکومت میں اپنی رسوائی اور پسپائی کا تماشا دکھا رہے تھے۔
مجھے کراچی سے ایک بزرگ خاتون زیب باجی نے رو رو کر کہاکہ پاکستان کے صدر مقام میں ریڈ زون کے قریب ایک شخص نے سب کو یرغمال بنایا۔ ایک ایک لمحے کی رپورٹ لوگوں کو دکھائی گئی، زمرد خان کو تو بعد میں ہیرو بنا کے پیش کیا گیا اس سے پہلے سکندر نامی شخص کو ہیرو بنایا گیا۔ ہمارے میڈیا نے ولن اور ہیرو کا فرق مٹا دیا ہے جس انداز میں سکندر نے بڑے سکون اور بے خوفی سے سیرو تفریح کرتے ہوئے فائرنگ کی اور سینکڑوں پولیس والوں کو بے بس کئے رکھا اس کے بچے اور بیوی بھی انجوائے کر رہے تھے۔ یہ بہت شرمناک ہے۔
صدر زرداری اور بلاول زرداری نے فوری طور پر زمرد خان کو خراج تحسین پیش کیا جیسے یہ بیان پہلے سے تیار تھا۔ بے اختیار وزیراعلیٰ سندھ قائم مقام علی شاہ نے زمرد خان کو سیلوٹ کیا ابھی تک سندھ کے وزیر اختیارات اویس مظفر ٹپی نے کوئی بیان نہیں دیا پورے ملک میں اپنی انتخابی شکست کے بعد اس سوچے سمجھے واقعے کے بعد جیالے جشن منا رہے ہیں۔ صدر زرداری نے پیپلز پارٹی کو برباد کیا۔ زمرد خان نے آباد کر دیا، میرا خیال ہے کہ ابھی پیپلز پارٹی جلوس نکالے گی اور جئے بھٹو کے نعرے لگائے گی ۔ ”شہید بے نظیر کی تصویریں دکھائے گی‘ زمرد خان شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ ایسے بیانات اورخطابات سے نواز رہے ہیں، جان چلی جاتی تو بھی تیار تھا۔“ انہوں نے جان بچانے کے لئے بھی اداکاری کی۔ وہ گر پڑے اورپھر بھاگ کھڑے ہوئے کارروائی تو ڈاکٹر رضوان کی قیادت میں پولیس نے کی اور وہ جان پرکھیل کر پہنچے۔ زمرد خان سے بچ نکلنے والے سکندر کو قابو کیا۔ ہماری قوم تماشبین قوم ہے تماشا بھی خود تماشائی بھی خود۔
زمرد خان کی بہادری کے لئے ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کلاشنکوف لہراتے ہوئے سکندر نے نجی ٹی وی سے بات کی۔ اس طرح کی بات ہمارے ٹی وی چینلز ایک کریڈٹ کی طرح نشر کرتے ہیں۔ ”دونوں بھائیوں نے قوم کو بھکاری بنا دیا ہے (دونوں بھائیوں سے مراد نوازشریف اور شہباز شریف ہیں) سکندر نے للکار کر کہا کہ ”جنرل کیانی ان کی حکومت کو ہٹا دیں۔ یہ خبر سب اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ سکندر نے کہا کہ دو بھائیوں کی حکومت کا خاتمہ چاہتا ہوں اور نئے انتخابات کرائے جائیں اور پیپلزپارٹی کو دوبارہ لایا جائے۔ یہ مطالبہ فخرو بھائی کے استعفیٰ سے پہلے کرنا چاہیے تھا۔ اس نے کہا کہ جب تک جنرل کیانی دونوں بھائیوں کی حکومت کو ختم نہیں کرتے میں ہتھیار نہیں ڈالوں گا میں اکیلا نہیں ہوں پوری امت مسلمہ میرے ساتھ ہے (امت مسلمہ میں سعودی عرب بھی ہے، نوازشریف غور کریں)
ہماری پولیس مظاہرین کو تو قابو کر لیتی ہے آنسو گیس کے گولے پھینکتے ہیں، پانی کی فائرنگ کرتے ہیں جس سے عورتیں کپڑے گیلے ہونے کی وجہ سے تقریباً ننگی ہو جاتی ہیں تو کیا ایک شخص کوکسی طرح قابو کرنے کا کوئی طریقہ بہادر اور ماہر پولیس کے پاس نہ تھا پانچ گھنٹے تک پوری دنیا کو میڈیا تماشا دکھاتا رہا۔ ایوان صدر سے شاید صدر زرداری بھی یہ تماشا دیکھتے رہے ہوں گے، بلاول زرداری دبئی سے مسلسل رابطے میں تھے یہ بھی ہوا کہ زمرد خان پر سکندر نے کوئی فائرنگ نہ کی۔ وہ پولیس پر تو فائرنگ کر رہا تھا۔ زمرد خان اس کا دوست تھا۔ زمرد خان نے بھاگ کر جان بچائی پیپلزپارٹی کے جیالوں نے اسے کندھے پر اٹھا لیا اور میڈیا نے اسے ہیرو بنا کے پیش کیا۔ وہ تقریر کر رہا تھا کہ نوازشریف نے تو قوم سے خطاب نہیں کیا۔ عزیز ہموطنو میرا خطاب سنو!
میڈیا سے گزارش ہے کہ خدا کے لئے ایسے ڈراموں اور ہنگاموں سے قوم کو نجات دلائیں لوگ نفسیاتی مریض ہو چکے ہیں دنیا والوں کو اب خوش نہ کرو، اسلام آباد پولیس کی ایک مجبوری یہ بھی تھی کہ چودھری نثار کی ہدایت کے مطابق سکندر کو زندہ گرفتار کرنا تھا ۔ چودھری صاحب اس کے ساتھ چائے پینا چاہتے ہوں گے۔ ناجائز فرمانبرداری آدمی کو بزدل بنا دیتی ہے۔ پولیس کو فری ہینڈ ملنا چاہیے مگر یہ بات قابل غور ہے کہ پولیس افسران نے زمرد خان کو سکندر کے پاس کیوں جانے دیا؟ نوازشریف پریشان ہیں۔
لگتا ہے پاکستان پر میڈیا کی حکومت ہے مگر ان سے میری ایک گزارش ہے کہ وہ پاکستانی میڈیا بن جائے۔محترمہ زیب باجی کی سسکیوں کی آواز میرے دل میں گونج رہی ہے وہ نوائے وقتن ہے۔ ان کے بہنوئی نوائے وقت کراچی سے منسلک تھے۔ وہ مجید نظامی کے لئے بھی دعا گو رہتی ہیں کہ نوائے وقت کے ذریعے پاکستان بولتا ہے اب میڈیا سکندر اور زمرد ایک قطار میں کھڑے ہیں۔زمرد خان سے میری گزارش ہے کہ وہ ورزش کیا کریں اور انتظامیہ اپنے اندر بدنظمی کو ختم کرے۔آخر میں سکندر کی یہ بات کہ جب تک عورتیں پردے کی پابند نہیں ہو جاتیں میں ہتھیار نہیں ڈالوں گا اس کی اپنی بیوی بغیر پردے کے پولیس کے ساتھ بات چیت کر رہی تھی۔!!!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024