ایک مسلح شخص 20کروڑ پاکستانیوں کے حواس پر پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے تک مسلسل سوار رہا۔اس سے ایک طرف پاکستان کے دارالحکومت کی سکیورٹی ایکسپوز ہوئی تو دوسری طرف پولیس کا صبر اور برداشت بھی ظاہر ہوئی۔ ہمارے میڈیا کے جذباتی اینکر اسی قسم کے مطالبات کرتے نظر آئے جیسے جولائی 2007ءکو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے گھیراﺅ کے دوران کیے جا رہے تھے۔وہ آپریشن ہوا تو اس پر شدید تنقید ہوئی اور کہا گیا کہ جلدبازی سے کام لیا گیا۔ پولیس کے لیے ملزم کو پھڑکانا مشکل نہیں تھا۔ ایسا بارہا دیکھا گیا ہے کہ دہشتگردوں کے ساتھ مقابلے میں دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
ملزم سکندر کا پیدا کیا ہوا ہیجان بلاشبہ قوم کے صبر کا امتحان تھا لیکن اس کی زندہ گرفتاری سے وہ داستانیں اب جنم نہیں لیں گی جو ہر کوئی اپنی طرف سے گھڑ کے قوم کو مزید ہیجان میں مبتلا کر دیتا۔جہاں ایس ایس پی رضوان کے حوصلہ کی داد بھی دینی پڑتی ہے جو نہتے دہشتگرد کے ساتھ مذاکرات کے لیے اس کے پاس جاتے رہے کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ پولیس ملزم کو نشانہ لے کر اڑا دیتی تو آج میڈیا نے شور اٹھا رکھا ہوتا کہ پولیس نے جلدبازی کا مظاہرہ کیا۔ میں میڈیا کے فیلڈ میں کام کرنے والے لوگوں کو بھی مبارکباد کا مستحق سمجھتا ہوں جنہوں نے قوم کو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھا۔ پولیس کے مطابق سکندر مخبوط الحواس تھا اس کے مطالبات بھی لایعنی تھے۔ وہ حکومت کے خاتمے، شریعت کے نفاذ اور دبئی جیل میں موجود اپنے بیٹے کی رہائی جیسے مطالبات کر رہا تھا۔ ایک شخص دو گنیں پکڑ کر آئین تبدیل کرنے چل نکلے تو پھرمملکت کا خدا ہی حافظ ہے۔ پولیس نے پانچ گھنٹے تک حوصلے سے کام لے کر نہ صرف دہشتگرد کو پکڑا بلکہ اس کی اہلیہ اور بچے بھی محفوظ رہے۔
آج ہمارا پورا ملک دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے۔ قوم دہشتگردوں کے خوف میں مبتلا اور تقسیم رہی تو دہشتگرد ہمیں یرغمال بنائے رکھیں گے، ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ کوئٹہ کے ہزارہ ٹاﺅن اور راولپنڈی کے بہارا کھوہ میں گذشتہ دنوں جرا¿ت و بہادری کے ساتھ دہشتگردوں کو ان کی کارروائی سے قبل جہنم واصل کر دیا گیا۔ اس دوران بہارا کھوہ میں ایک گارڈ بھی جاں بحق ہو گیا۔ دہشتگردوں کے خلاف لڑتے ہوئے پاک فوج کے 5ہزار سے زائد سپوت بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ دہشتگرد پیپلزپارٹی کی لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو کی جان لے چکے ہیں۔ محترمہ دہشتگردوں سے خائف نہیںہوتی تھیں۔ محترمہ کی اس جرا¿ت سے کئی جیالے انسپائر ہیں۔ لگتا ہے زمرد خان نے بھی محترمہ کی جرا¿ت سے متاثر ہو کر ہی اپنے شہر میں ایک دہشتگرد کو للکارنے کی ہمت کی۔
ایک دہشتگرد پوری قوم کے حواس پر سوار تھا کہ زمرد خان نے اس سے نجات کا فیصلہ کیا اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پولیس کے مشورے سے موت کی آنکھوں میں انکھیں ڈالنے چل پڑے پھر جو کچھ ہوا قوم نے ٹی وی چینلز پر براہِ راست دیکھ لیا۔ پولیس نے بڑی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ اس نے دہشتگردکو نشانہ بنایااور افراتفری میں بھی بچے محفوظ رہے۔ آج مجھے زمرد خان کا وہ بیان یاد آ رہا ہے جو انہوں نے اسی سال کے آغاز پر نئے سال کے موقع پر قوم کے نام بیت المال کے چیئرمین کی حیثیت سے دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا ”پاکستان کو درپیش مسائل میں دہشتگردی سہرِ فہرست ہے۔ اس کے لیے پوری قوم کومیدان عمل میں آنا ہوگا“ آج جب موقع ملا تو زمرد خان واقعی میدانِ عمل میں آئے۔ ایک دہشتگرد کو بے بس کیا اور قوم و محترمہ بے نظیر بھٹو کی روح کے سامنے سرخرو ہو گئے۔ دہشتگرد کی گرفتاری کے بعد پوری قوم کی طرح وہ بھی جذباتی تھے انہوں نے کہا کہ میں تہیہ کرکے گیا تھا۔ خواہ میری جان چلی جائے قوم کو اذیت سے نجات دلاﺅں گا۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ قوم دہشتگردوں کے خلاف کھڑی ہو جائے یہی وقت کا تقاضا اور وطن عزیز کو محفوظ بنانے کا طریقہ ہے۔
یقینا دہشتگردی پر قابو پانے کے لیے زمرد خان جیسے عزم کی ضرورت ہے۔ یہ صرف پیپلزپارٹی کے ایک رکن اور رہنما کا نہیں قوم کے بیٹے کا کارنامہ ہے۔ پیپلزپارٹی اس کو سراہ رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کو بھی بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ مسلم لیگ ن کی نئی حکومت نے قومی ایوارڈ کا اعلان کیا ہے۔ اس سے بہت سے نام محض سیاسی بنیاد اور ذاتی خدمتگاری کی وجہ سے سامنے آئے ہیں۔ میں بابر اعوان کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں کہ زمرد خان کو ستارہ¿ جرا¿ت کے اعزاز سے نواز جائے جس کے وہ بلاشبہ حقدار ہیں۔
زمرد خان کو میں عرصہ دراز سے جانتا ہوں ہم نہ صرف ایک اچھے دوست ہیں بلکہ آپس میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی نسبت کے حوالے سے پیر بھائی ہیں ۔زمرد خان نہ صرف ایک اچھے پولیٹیکل ورکر ہیں بلکہ ایک اچھے منتظم اور ہردلعزیز جیالے ہیں۔پاکستان کے موجودہ حالات میں جہاں قوم مذہبی تفرقات اور سیاسی کشمکشوں میں الجھی ہوئی ہے اور اندرون ملک نظریاتی سرحدیں اور جغرافیائی سرحدیں دشمنوں کی طرف سے محفوظ نہیںہیں ایسے حالات میں پوری قوم کو جرا¿ت اور جذبوں کی ضرورت ہے اور آج زمرد خان یہ ثابت کر دیا کہ اگر قوم متحد ہو اور جذبے جوان ہوں تو دہشتگردی کے جن پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔قارئین آپ خود دیکھ لیں کہ پیپلزپارٹی کے ایک جیالے نے ایک اچھا عمل کیا تو پوری قوم نے اس کو دادِ تحسین سے نوازا۔اگر پیپلزپارٹی کے دو سابق وزرائے اعظم اور پوری کابینہ کرپشن کی دلدل میں نہ پھنسی ہوتی تو آج پیپلزپارٹی عوام کی نظروں میں سرخرو ہوتی۔پیپلزپارٹی کو اصلی جیالے زمرد خان پر فخر ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024