سیالکوٹ تحریک پاکستان کا مرکز بن گیا۔ تقریباً ہر روز علاقہ کی کسی نہ کسی جامع مسجد میں نماز عشاءکے بعد جلسے ہونے لگے۔ میرے انگریزی کے استاد چوہدری ظفر اقبال (بعد کے بریگیڈئر ریٹائرڈ) تانگے پر دو سپیکروں والا لاﺅڈ سپیکر فٹ کر کے علاقے کے قریبی دیہات میں جا کر تقریریں کرتے۔ ہمارے حلقہ سے چوہدری ناصرالدین مسلم لیگ کے امیدوار تھے وہ بھی ان جلسوں میں شریک ہوتے۔ خبر آئی کہ قائداعظم سیالکوٹ کے دورہ پر تشریف لا رہے ہیں۔ ہمارے سکول میں قائداعظم کا استقبال کرنے کیلئے لڑکوں کے جلوس کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ ماسٹر اسحاق صاحب نے عسکری نغمے اور ترانے تخلیق کئے جنہیں سو ڈیڑھ سو لڑکوں نے زبانی یاد کر کے مارچ کے ساتھ گانے کی پریکٹس شروع کی۔
مقررہ یوم پر قائداعظم کا میلوں لمبا کاروں، موٹر سائیکلوں اور بسوں کا جلوس لاہور سے براستہ وزیر آباد روڈ سیالکوٹ آ رہا تھا راستے میں ہر قصبے اور شہر سے قائداعظم کی کار پر پھولوں کی بارش کی گئی تھی۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر چوہدری لال دین احمد کی سربراہی میں تمام اساتذہ کرام اور سکول کے 600 سے زیادہ بچے جلوس کی شکل میں وزیر آباد روڈ کراسنگ جو ہمارے سکول سے ایک میل کے فاصلہ پر تھی روانہ ہوا۔ ہمارا بینڈ جلوس کے آگے مارچ کر رہا تھا۔ مسلم لیگ کے سبز پرچموں کی بہار تھی کہ قائداعظم کی پھولوں سے لدی کار جلوس کے درمیان سے نمودار ہوئی۔ ہمارا بینڈ پہلے ہی حرکت میں آ چکا تھا اور اسحاق صاحب کے نغمے اور ترانے بلند آواز سے سب بچے گا رہے تھے۔ ہر طرف قائداعظم زندہ باد کے نعروں کا شور تھا ہمیں دیکھ کر قائداعظم نے کار کو بہت آہستہ کرنے کا اشارہ کیا، ہاتھ ہلا کر ہماری سلامی کا جواب دیا۔ یہ قائداعظم سے میری دوسری ملاقات تھی۔ رات کو سیالکوٹ کی قدیم جلسہ گاہ ”شیخ مولا بخش کے تالاب“ پر عظیم جلسہ ہوا جسے قائداعظم نے انگریزی میں خطاب کیا اور ساتھ ساتھ اس کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا۔ میں اس جلسہ میں اپنے چند اساتذہ اور لڑکوں کے ساتھ شریک تھا، رات 12 بجے کے بعد جلسہ اختتام پذیر ہوا۔ مسلم لیگ کی بے پناہ مقبولیت اور خضر کے خلاف احتجاجی مظاہروں سے پنجاب حکومت بوکھلا گئی۔ احتجاجی لیڈروں کی پکڑ دھکڑ اور گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر چوہدری لال دین، ماسٹر ظفر اقبال چوہدری (بعد کے ریٹائرڈ بریگیڈئر) اور متعدد احتجاجی لشکر گرفتار کر لئے گئے اور سیالکوٹ جیل میں بند کر دئیے گئے مگر عوامی احتجاج کے طوفان کے آگے خضر حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے، قید کردہ رہنماﺅں کو رہا کرنا پڑا۔ ہم بینڈ باجوں کے ساتھ عسکری نغمے اور ترانے گاتے ہوئے اپنے محبوب استادوں اور مسلم لیگی لیڈروں کو لیکر دو اڑھائی میل مارچ کرتے ہوئے واپس گاﺅں پہنچے تو انتہائی جوش و خروش سے جمِ غفیر نے استقبال کیا۔ 1946ءکے انتخابات کے نتیجہ میں پنجاب میں یونینسٹوں کو عبرتناک شکست ہوئی۔ مسلم لیگ کے امیدوار جیت گئے، پاکستان کا قیام اب یقینی ہو گیا تھا۔
3 جون 1947ءکو پاکستان بننے کا اعلان ہوتے ہی ہندوﺅں کی سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک بھر میں فسادات پھوٹ پڑے۔ مشرقی پنجاب میں وحشتناک درندگی اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔ ان خبروں سے مغربی پنجاب میں ردعمل ہوا، جگہ جگہ فسادات اور آتش زنی کی وارداتیں شروع ہو گئیں، ہمارے علاقہ میں چند سکھوں اور ہندوﺅں کے گاﺅں تھے ہر روز ان کی طرف سے حملہ ہونے کی خبریں آنے لگیں۔ بچاﺅ کیلئے تنظیم سازی کی گئی۔ تلوار چلانا، نیزہ چلانا، گتکا بازی اور رائفل ٹریننگ شروع ہوئی۔ رات کو نیزہ اور لاٹھی بردار ”ٹھیکری پہرہ“ کی وارہ بندی کی گئی۔ خدا نے کرم کیا کہ ہمارے علاقہ میں باہر سے کوئی حملہ آور نہ آیا، سکھ اور ہندو اپر جناب نہر کے راستے سبمڑیال بھاگ گئے۔ 14 اگست یوم آزادی کے بعد مہاجروں کا ایک نیا سیلاب آ گیا، جموں سے ہزاروں کی تعداد میں لُٹے پُٹے مہاجروں نے سیالکوٹ کا رُخ کیا۔ قبائلی رائفل بردار سینکڑوں مویشی جموں بارڈر سے ہانک لاتے اور ہمارے کھیتوں کی فصلیں ان کا چارہ بن گئیں۔ شہر میں خواجہ محمد صفدر اور چوہدری غلام عباس کی سربراہی میں جموں کے مہاجروں کو پناہ دینے کیلئے علاقہ جاتی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ بڑا پُرآشوب دور تھا جس میں خاک و خون کے طوفان سے گزر کر پاکستان وجود عمل میں آیا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38