رمضان ٹرانسمشن کی رونقیں اور برکتیں پاکستان سے محبت کے حوالے سے خاص طور پر مجید نظامی کا ذکر پی ٹی وی پر ہوا۔ کراچی وقت نیوز سے افطار ٹرانسمشن ہو رہی ہے جسے پہلے نازیہ ملک کرتی رہی اب ایک نئی اینکر پرسن بڑی خوبی سے یہ پروگرام کر رہی ہے۔ اس پروگرام کو بہت پسند کیا گیا۔ افطار کے ساتھ سحری کے لئے بھی وقت نیوز پر پروگرام کئے جا رہے ہیں۔ وقت نیوز اور پی ٹی وی پر رمضان کے حوالے سے خوب پروگرام ہوئے۔ افطار ٹرانسمشن کو رمضان پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس قومی احساس اور اسلامی جذبے کو رلا ملا دیا گیا۔ پی ٹی وی پر علمائے دین کے علاوہ عام سکالرز اور دانشوروں کو بھی بلایا گیا ہے۔ اس طرح اسلام اور عشق رسول کے حوالے سے عمومی طور پر وابستگی کے چراغ روشن ہوئے۔ ایک پروگرام میں پروڈیوسر قیصر شریف سے میں نے کہا کہ معاشرے میں اس سے ایک فراخدلانہ اور کشادہ ماحول نظر آئے گا۔ کشیدگی کو صرف کشادگی کے ذریعے بدلا جا سکتا ہے۔ ہمارے علمائے کرام نے خواتین اینکرز کے ساتھ بہت بے تکلفانہ اور دوستانہ انداز میں باتیں کیں۔ اس طرح ایک جدید اسلامی ماحول قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ ایک دوست نے خوشی کا اظہار کیا کہ عورتوں سے باتیں کرنا ایک سوشل سرگرمی ہے اس رمضان میں ٹیلی وژن پر علما نے کوئی تردد محسوس نہ کیا، کچھ علما ابھی تک عورتوں سے ہمکلام ہونے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں مگر یہاں تو ان کی یہ خوشی دیکھنے والی تھی۔ میں یہ وضاحت کر دوں کہ ٹیلی وژن ابھی تک پاکستان ٹیلی وژن ہے کہ یہ ایک قومی ادارہ ہے یہاں تہذیبی اور تخلیقی صورتحال میں بات چیت ہوتی ہے اور یہ خوش آئند ہے۔ ایک پورا نظام ہے جس سے گزر کر کوئی پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوتا ہے اور اسے سارا خاندان مل کر دیکھ سکتا ہے اور انجوائے کر سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے بعض نجی ٹی وی چینلز پر اعتراض کیا گیا ہے کہ وہ فحاشی پھیلا رہے ہیں۔ جب یہ کہا جاتا ہے تو پوچھتے ہیں کہ فحاشی ہے کیا؟ فحاشی کی تعریف بہت مشکل ہے۔ فحاشی پر تنقید بہت آسان ہے۔ کسی نے پوچھا تھا کہ ”چَوّل“ کے معانی کیا ہیں۔ جواب دیا گیا کہ چَوّل دکھایا جا سکتا ہے بتایا نہیں جا سکتا۔ ایک بہت اچھی بات جو میں نے دیکھی کہ رمضان کے طویل پروگرام میں اینکر پرسن جُگن جی نے بہت بے تکلفی سے اور مہذب انداز میں ماحول کو ریلیکس کئے رکھا۔ اس کی باتوں میں اور حرکتوں میں بچوں جیسی معصومیت اور بے ساختہ پن ہے۔ بے ساختہ پن کا بانکپن ہے۔ روزے کی آخری گھڑیاں بہت آسانی اور روانی سے گزر گئیں۔ جُگن جی سیٹ پر بنے ہوئے کچن میں چلی گئی اور شیخ بلال کی مدد کی۔ افطاری میں ہم سب اکٹھے ہوئے اور جس چیز کی زیادہ تعریف ہوئی جُگن جی نے کہا کہ یہ میں نے بنائی ہے۔ فاروق حسن بھی ساتھ تھے وہ ایسے اینکر پرسن ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا وہ ٹیلی وژن کے پروگرام میں ہیں یا گھر کے ڈرائنگ روم میں۔ جُگن جی تو یہاں اس طرح ہر طرف آتی جاتی رہیں جیسے گھر پر ہوں۔ میرے ساتھ محترمہ کوکب شہزاد مہمان تھیں، وہ ایک جینوئن عالم دین ہیں۔ بہت آسانی سے اور خوشدلی سے بات کرتی ہیں۔ دین کے حوالے سے زندگی کو مشکل بنایا جا رہا ہے۔ زندگی کو ایک اچھی زندگی بنانے والے علما دین آگے آئیں۔ دین کو اچھی طرح پیش کرنے کے لئے عورتیں بھی گھروں سے نکلیں۔ افطاری کے بعد ہم نماز کے لئے سٹوڈیو کے اندر ہی اکٹھے ہوئے۔ ممتاز نعت خواں نوشاہی صاحب نے نماز پڑھائی۔ اگلی صف میں ہم چار آدمی تھے فاروق حسن، رفاقت علی، میں اور ایک کیمرہ مین اور دوسری صف میں کوکب شہزاد اور جُگن جی مکمل مسلمان عورت کی طرح موجود تھیں۔ عہدِ نبوی میں عورتیں مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آتی تھیں۔ رحمت للعالمین اور پیغمبرِ کامل، محسن انسانیت اپنی قرا¿ت مختصر کر دیتے کہ بچے اپنی ما¶ں کے انتظار میں بے قرار نہ ہو جائیں اور عورتوں کی توجہ نہ بٹ جائے۔ آج بھی سٹوڈیو ایک مسجد کا روپ دھار گیا تھا۔ زندگی میں عورتوں کی برابر کی شرکت کے قائل لوگ یہ منظر دیکھتے تو مطمئن ہوتے۔ آج کے پروگرام کا موضوع حب الوطنی تھا۔ اس سے پہلے زندگی کی مختلف موضوعات پر بہت دلچسپ علمی تخلیقی اور کھلی ڈھلی گفتگو ہوتی رہی ہے۔ وصی شاہ اور صوفی شاعر، بشریٰ اعجاز نے بڑا رنگ جمایا۔ دین کی تفہیم کے لئے دنیا کو ساتھ شامل کرنا بھی ضروری ہے۔ مقصد دین و دنیا کی بھلائی ہے دین ہماری زندگیوں کا حصہ اسی طرح بن سکتا ہے۔ کوکب شہزاد کئی پروگرامز میں شرکت کر چکی ہیں۔ ان کے انداز گفتگو کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ وہ پیوست اور نحوست کے خلاف ہیں ہمیشہ مثبت اور روشن پہلو کو سامنے رکھتی ہیں۔ حب الوطنی کے لئے فاروق حسن نے ان سے پوچھا کہ مکے مدینے آنے کے بعد رسول کریم کو وطن تو یاد آتا ہو گا۔ کوکب نے بتایا فتح مکہ اس کی دلیل ہے کہ یہ شہر آپ کے دل میں بستا تھا۔ مسلمان پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے مگر پیغمبر عالم کے دل میں تھا کہ خانہ کعبہ کی اہمیت زیادہ ہے۔ نماز کے دوران ہی آپ کو ہدایت ملی تو سب نے اپنا منہ خانہ کعبہ کی طرف کر لیا اور خانہ کعبہ مکہ میں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ زندگی کی تکمیل کے لئے ہجر اور ہجرت ضروری ہے اس طرح شخصیت پروان چڑھتی ہے۔ وطن سے محبت وابستگی کا نتیجہ ہے جہاں سے اور جس سے ایسوسی ایشن (Association) ہو۔ محبت فطری ہے اور اسلام دین فطرت ہے۔ جب فتح مکہ کے لئے آپ رورانہ ہوئے تو صحابہؓ نے دل میں کیا کیا منصوبے بنائے اور مکہ میں رہنے کا پروگرام بنایا مگر وہ سب کے سب حضرت محمد کے ساتھ واپس مدینے آ گئے۔ وہ رسول کے ساتھ عشق کرتے تھے اور انہیں اسی جگہ سے محبت تھی جہاں رسول ہوتے تھے۔ وطن ماں کی طرح ہے۔ ہم اپنی سرزمین کو ماں دھرتی کہتے ہیں، مادر وطن ماں کی طرح اپنے لوگوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ فلسطینی شاعر محمود درویش کی نظم کی ایک لائن ہے ”وطن اپنی ماں کے ہاتھوں کی پکی ہوئی روٹی کھانے کا نام ہے“ اس کا تجربہ مجھے بھی ہے۔ ڈائننگ ٹیبل پر کھانے کا مزا وہ نہیں جو گا¶ں میں منجھے پر اپنی ماں کے ارد گرد بیٹھ کر مل کر روٹی کھانے میں تھا۔ بچے کا وطن ماں کی گود ہے۔ اللہ ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے۔ اشفاق احمد نے بابا عرفان الحسن سے پوچھا تھا کہ پھر اللہ کی گود کہاں ہے۔ گہرے پانیوں جیسی لوک دانائی والے بابا جی نے بے ساختہ فرمایا، اللہ کی گود توبہ ہے۔ جو توبہ کرتا ہے وہ اللہ کی گود میں ہوتا ہے اور اسے بے پناہ محبت ملتی ہے۔ معافی سے بڑی محبت کوئی نہیں۔ اللہ معاف کرنے والا ہے۔ دل میں اتر جانے والے گلوکار رفاقت علی نے نعت سنائی اور عارفانہ کلام سنایا۔ قوالی کو نعتیہ رنگ دینا ایک کمال ہے۔ قوالی سُننے والوں کو اللہ کی بارگاہ میں سوالی بنا دیتی ہے۔ آغاز میں نوعمر قاریہ حافظہ عائشہ نے تلاوت کلام مجید کی۔ ہم قیصر شریف کے شکر گزار ہیں کہ رمضان کے پروگرام کو گھر کا پروگرام بنا دیا۔ اس میں ہیڈ کوارٹر اسلام آباد بھی برابر کا شریک رہا ہے۔ پروگرام منیجر بشارت سید سیٹ پر ہم سے ملنے آئے۔ ساری ٹیم رات بھر ٹیلی وژن پر ہوتی ہے۔ جی ایم آغا ذوالفقار شاعر آدمی ہیں اور خوش ہیں کہ قیصر شیرف نے مذہبی پروگرام کو تخلیقی اور عوامی بھی رکھا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38