غزہ کا نوحہ

Apr 17, 2025

لبنی صفدر

 لبنیٰ صفدر
 اسرائیلی جارحیت کا یہ ایک برس کم از کم 42 ہزار فلسطینیوں کی شہادت اور غزہ کے شہری ڈھانچے کی مکمل تباہی پر منتج ہوا۔ فسطائیت کی ایسی دوسری مثال چشم فلک نے نہیں دیکھی۔ مگر اہلِ غزہ سلام کے مستحق ہیں جن کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ آج پاکستان سمیت تمام با ضمیر قومیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے اور یہ باور کرانے کی کوشش کر رھی ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی آگ کو بجھانا عالمی امن کا تقاضا ہے۔ اگر عالمی طاقت فلسطینیوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہے تو مسلم ممالک بھی کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب نہیں دے سکے۔ قطر اور مصر کی کاوشوں سے ایک عارضی جنگ بندی عمل میں آئی مگر چند گھڑیوں کی جنگ بندی مظلوم غزہ واسیوں کے دکھوں کی تلخی کو کم نہیں کر سکی۔ درحقیقت اسرائیل نے اپنے شہریوں کو چھڑانے کے جس ایجنڈے کے تحت جنگ کا آغاز کیا تھا وہ بری طرح ناکام ہو چکا اور یہ ناکامی اسرائیلی کی بڑھتی فسطائیت سے عیاں ہے۔ ہمسایہ ممالک پر بڑھتے حملے عالمی امن کو اسرائیل سے لاحق خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ عالمی امن کو اس ابھرتے خطرے سے صرف اس طرح بچایا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی کی بے جا طرفداری کے بجائے انصاف اور انسانی ہمدردی سے کام لیا جائے۔ یہ حقیقت نظر میں رکھنی چاہئے کہ امریکہ اور اسرائیل کے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ فلسطین کی سرزمین، ان کے مرد، عورتیں، بچے اور بزرگ یعنی عام لوگ ہیں۔
اسرائیل نے ڈرونز اور جدید مہلک ہتھیار بنانے کے لیے ایک منظم صنعتی ڈھانچہ قائم کر رکھا ہے، جس کا مرکز تو اسرائیل میں واقع ہے، لیکن اس کے کئی ذیلی کارخانے اور شاخیں امریکہ جیسے طاقتور ممالک میں بھی موجود ہیں۔ یہ صرف ہتھیاروں کی پیداوار نہیں، بلکہ ایک عالمی منڈی ہے جہاں یہ اسلحہ نہ صرف فروخت کیا جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ اسرائیلی ادارے یہ ’’ضمانت‘‘ بھی فراہم کرتے ہیں کہ یہ ہتھیار میدانِ جنگ میں آزمائے جا چکے ہیں۔ مگر یہ میدانِ جنگ کوئی خالی ریگزار نہیں، بلکہ فلسطین کی مظلوم سرزمین ہے.جہاں ان ہتھیاروں کا عملی مظاہرہ انسانی لاشوں، تباہ شدہ گھروں، اور خون آلود گلیوں میں کیا جاتا ہے۔
جی ہاں! یہ ایک تلخ مگر ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ فلسطینی عوام، جن میں معصوم بچے، بے گناہ خواتین، ضعیف العمر بزرگ اور نہتے نوجوان شامل ہیں، ان ہتھیاروں کے’’تجربات‘‘کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ ہر دن، ہر رات، غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی جارحیت کی صورت میں یہ تجربات جاری ہیں۔ یہ وہی ہتھیار ہیں جو بعد ازاں دنیا بھر کو بیچے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ’’فیلڈ ٹیسٹڈ‘‘ یعنی جنگ میں کامیابی سے آزمائے گئے ہیں۔
ایسے میں امریکہ کے وہ باہمت اور باضمیر شہری قابلِ تحسین ہیں جنہوں نے بوسٹن میں قائم ایسی ہی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے خلاف عملی احتجاج کیا۔ ان لوگوں نے محض نعرے بازی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اپنے جسموں کو زنجیروں سے باندھ کر فیکٹریوں کے داخلی راستوں پر لیٹ گئے۔ انہوں نے اپنے جسموں کو ڈھال بنا کر کہا:’’ہم یہ اسلحہ فلسطین کے نہتے لوگوں پر استعمال نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ ان کی اس پرعزم مزاحمت کے نتیجے میں کئی دنوں تک ان فیکٹریوں کا کام بند رہا، پیداوار رکی رہی، اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوئی غزہ پٹی میں انسانی المیہ دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، اور دنیا بھر کی نظریں اس پر مرکوز ہیں کہ عالمی ادارے، خاص طور پر اقوام متحدہ، اس بحران کے حل میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف قراردادیں کافی ہیں؟ یا وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ اپنی حدود سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرے؟
اقوام متحدہ کا قیام 1945ء میں ہوا تھا، جس کا مقصد دنیا میں امن قائم رکھنا، انسانی حقوق کا تحفظ کرنا اور اقوام کے درمیان تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنا تھا۔ فلسطین اور اسرائیل کا تنازع اقوام متحدہ کے ابتدائی چیلنجز میں سے ایک رہا ہے۔ 1947ء کی تقسیم کی قرارداد سے لے کر آج تک، اقوام متحدہ نے فلسطین کے حق میں متعدد قراردادیں منظور کی ہیں، جن میں اسرائیل کے قبضے، آبادکاری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی ہے۔
اکتوبر 2023ء کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے، شدید بمباری، محاصرہ، اور انسانی امداد کی بندش نے ایک ناقابل برداشت صورت اختیار کر لی ہے۔ اقوام متحدہ کی مختلف شاخیں جیسے کہ:
UNOCHA (Office for the Coordination of Humanitarian Affairs)
UNRWA (Relief and Works Agency for Palestine Refugees)
UNHRC (Human Rights Council)
سب نے متعدد بار غزہ میں جاری انسانی بحران کو’’نسل کشی کے قریب‘‘ قرار دیا ہے۔ سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی متعدد قراردادیں پیش کی گئیں، جنہیں اکثر امریکہ نے ویٹو کر دیا۔
اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اگر عملی طور پر نافذ نہ کی جائیں تو وہ محض علامتی حیثیت رکھتی ہیں۔ فلسطین کے معاملے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں نہ تو اسرائیلی ریاست کو جواب دہ بنا سکی ہیں، نہ ہی فلسطینی عوام کو کسی حقیقی تحفظ یا انصاف کی ضمانت دے سکی ہیں۔
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ہے، اور اس کی ویٹو پاور اکثر فلسطینیوں کے حق میں قراردادوں کو روک دیتی ہے۔
اقوام متحدہ نے کئی ممالک میں امن فوج بھیجی ہے، مگر غزہ میں کبھی بھی ایسی کوئی موثر امن فورس تعینات نہیں کی گئی۔
 اسرائیلی جنگی جرائم پر عالمی سطح پر قانونی کارروائی کی کوششیں بھی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بے اثر رہی ہیں۔
جی ہاں، اگر سیاسی عزم ہو تو اقوام متحدہ مندرجہ ذیل اقدامات کے ذریعے کردار ادا کر سکتی ہے:
اقوام متحدہ کو اپنی ایجنسیز کے ذریعے امداد کو اسرائیلی رکاوٹوں کے بغیر غزہ تک پہنچانا چاہیے۔
اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات اور مقدمات میں اقوام متحدہ کا بھرپور تعاون ضروری ہے۔
اگرچہ یہ ایک مشکل قدم ہے، مگر دنیا کی نظروں میں اقوام متحدہ کی ساکھ بچانے کے لیے یہ ناگزیر ہو چکا ہے۔
 اقوام متحدہ کے ڈھانچے میں اصلاحات کر کے ویٹو کی طاقت کو محدود کرنا ایک طویل المدتی لیکن ضروری عمل ہے۔
 اقوام متحدہ تمام رکن ممالک کو پابند کر سکتی ہے کہ وہ اسرائیل پر اقتصادی، سفارتی اور سیاسی دباؤ ڈالیں تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کی جا سکیں۔
اقوام متحدہ کے اندر تبدیلی کے لیے عالمی عوامی رائے، مظاہرے، سوشل میڈیا پر مہمات اور سول سوسائٹی کی آواز انتہائی اہم ہے۔ جب دنیا بھر کے لوگ آواز اٹھاتے ہیں تو اداروں پر بھی دباؤ بڑھتا ہے کہ وہ صرف قراردادوں سے آگے بڑھ کر کچھ عملی کریں
غزہ آج ایک کھلی جیل بن چکا ہے جہاں بچوں، خواتین، اور عام شہریوں پر بم برسائے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اگر واقعی "عالمی ضمیر" ہے، تو اسے اب صرف قراردادوں سے آگے بڑھنا ہوگا۔ امن کی بحالی، انسانی امداد کی فراہمی، اور انصاف کے تقاضے پورے کرنا اقوام متحدہ کی اصل آزمائش ہے۔
 غزہ پٹی میں انسانی المیہ دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، اور دنیا بھر کی نظریں اس پر مرکوز ہیں کہ عالمی ادارے، خاص طور پر اقوام متحدہ، اس بحران کے حل میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف قراردادیں کافی ہیں؟ یا وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ اپنی حدود سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرے؟ اقوام متحدہ کا تاریخی تناظر اقوام متحدہ کا قیام 1945ء میں ہوا تھا، جس کا مقصد دنیا میں امن قائم رکھنا، انسانی حقوق کا تحفظ کرنا اور اقوام کے درمیان تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنا تھا۔ فلسطین اور اسرائیل کا تنازع اقوام متحدہ کے ابتدائی چیلنجز میں سے ایک رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی مختلف شاخیں سب نے متعدد بار غزہ میں جاری انسانی بحران کو’’نسل کشی کے قریب‘‘ قرار دیا ہے۔ سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی متعدد قراردادیں پیش کی گئیں، جنہیں اکثر امریکہ نے ویٹو کر دیا۔اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اگر عملی طور پر نافذ نہ کی جائیں تو وہ محض علامتی حیثیت رکھتی ہیں۔ فلسطین کے معاملے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں نہ تو اسرائیلی ریاست کو جواب دہ بنا سکی ہیں، نہ ہی فلسطینی عوام کو کسی حقیقی تحفظ یا انصاف کی ضمانت دے سکی ہیں۔ امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ہے، اور اس کی ویٹو پاور اکثر فلسطینیوں کے حق میں قراردادوں امن فوج کی غیر موجودگی اقوام متحدہ نے کئی ممالک میں امن فوج بھیجی ہے، مگر غزہ میں کبھی بھی ایسی کوئی موثر امن فورس تعینات نہیں کی گئی۔ قانونی کارروائی کی کمی اسرائیلی جنگی جرائم پر عالمی سطح پر قانونی کارروائی کی کوششیں بھی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بے اثر رہی ہیں۔ کیا اقوام متحدہ کچھ کر سکتی ہے؟ جی ہاں، اگر سیاسی عزم ہو تو اقوام متحدہ مندرجہ ذیل اقدامات کے ذریعے کردار ادا کرے:1انسانی امداد کی فوری اور اقوام متحدہ کو اپنی ایجنسیز کے ذریع امداد کو اسرائیلی رکاوٹوں کے بغیر غزہ تک پہنچانا چاہیے۔ انٹرنیشنل کریمنل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات اور مقدمات میں اقوام متحدہ کابھرپور تعاون ضروری ہے۔ اگرچہ یہ ایک مشکل قدم ہے، مگر دنیا کی نظروں میں اقوام متحدہ کی ساکھ بچانے کے لیے یہ ناگزیر ہو چکا ہے۔ ,ویٹو پاور میں اقوام متحدہ کے ڈھانچے میں اصلاحات کر کے ویٹو کی طاقت کو محدود کرنا ایک طویل المدتی لیکن ضروری عمل ہے۔ اقوام متحدہ تمام رکن ممالک کو پابند کر سکتی ہے کہ وہ اسرائیل پر اقتصادی، سفارتی اور سیاسی دباؤ ڈالیں تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کی جا سکیں۔ عوامی دباؤ اور سول سوسائٹی کا کردار اقوام متحدہ کے اندر تبدیلی کے لیے عالمی عوامی رائے، مظاہرے، سوشل میڈیا پر مہمات اور سول سوسائٹی کی آواز انتہائی اہم ہے۔ اقوامِ متحدہ جو عالمی امن کا ضامن ادارہ ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سمیت پوری دنیا کا پْرامن اور پائیدار مستقبل دیرینہ تصفیوں کے حل میں مضمر ہے۔ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل ہی دنیا کو مزید تقسیم اور عدم استحکام سے روک سکتا ہے۔

مزیدخبریں