کراچی حیدرآباد سکھر موٹر اور نئی نہریں 

Apr 17, 2025

رحمت خان وردگ....

گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کا اجلاس ہوا جس میں حیدرآباد تا سکھر موٹروے کو دیگر منصوبوں پر ترجیح نہ دینے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک کراچی سکھر موٹروے شروع نہیں ہوتا اس وقت تک تمام منصوبے روکیں۔ اجلاس میں کہا گیا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو موجودہ طرز عمل کی وجہ سے تحلیل کیا جانا چاہئے اور ہائی ویز صوبوں کے حوالے کردیں۔ کراچی سکھر موٹروے کے لئے پیسے نہیں تو لاہور‘ ساہیوال موٹروے پر پیسے کیسے خرچ کر رہے ہیں؟ وزیر مملکت برائے پلاننگ نے کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ وزیر مملکت نے کہا کہ میں اتفاق کرتا ہوں کہ سب سے پہلی ترجیح کراچی سکھر موٹروے کو دینی چاہئے۔ قائمہ کمیٹی نے دوبارہ ہدایت کی کہ سپر ہائی وے کو M-9موٹروے سے منسوب نہ کیا جائے۔ ایم نائن کا نام صرف نئے کراچی حیدرآباد موٹروے کی تعمیر کے بعد اسے دیا جائے۔ سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ دنیا بھرمیں موٹرویز کی تعمیر پورٹ سے شروع کرکے ملک بھر تک کی جاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں الٹی گنگا بہتی ہے۔
میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں اور وزیراعظم میاں شہبازشریف نے خود بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ کراچی حیدرآباد موجودہ M-9حقیقت میں موٹروے نہیں ہے۔ لیکن نئے موٹروے کی تعمیر کا تاحال آغاز نہیں ہوسکا۔ اسی طرح حیدرآباد‘ سکھر موٹروے کی تعمیر بھی تاخیر کا شکار ہے۔ دنیا بھر میں موٹروے کی تعمیر کا آغاز پورٹ سے ملک بھر کے لئے کیاجاتا ہے لیکن پورٹ کے حامل شہر کراچی کو ملک بھر تک رسائی کے لئے موٹروے موجود نہیں جبکہ ملک بھر میں موٹرویز بن چکے ہیں اور اب بھی نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی ترجیحات مختلف نظر آتی ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حکام اور وزارت مواصلات کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ یہ ادارہ قومی ادارہ ہے اور ملک کے بہترین مفادات کو منصوبوں کی تعمیر کو اولین ترجیح دیکر تمام مہارت اور وسائل کا استعمال کیاجائے تاکہ ملک کو زیادہ سے زیادہ فائدہ مل سکے۔
کراچی تا حیدرآباد نئے موٹروے کی تعمیر کا فوری آغاز ہونا چاہئے۔ جامشورو تا کشمور انڈس ہائی وے کی تعمیر فوری طور پر مکمل ہونی چاہئے۔ حیدرآباد تا سکھر موٹروے کی فوری تعمیر ہونی چاہئے۔ کراچی تا کوئٹہ سڑک کو دو رویہ کیا جائے اور ان چاروں منصوبوں کی تعمیر تک نیشنل ہائی وے اتھارٹی ملک بھر کے دیگر منصوبوں پر وسائل کا استعمال روک دے۔ 
حالیہ دنوں میں نئی نہروں کی تعمیر پر سندھ بھر میں احتجاج ہورہا ہے۔ پورے صوبے کی عوام اس بارے میں احتجاج کررہے ہیں۔ جب صوبے کے عوام میں بے چینی کا آغاز ہوا تو سندھ حکومت کو بھی اس پر نوٹس لینا پڑا اور صدر زرداری و بلاول بھٹو زرداری نے بھی نئی نہروں کی تعمیر کی پرزور مخالفت کی۔ سندھ بھر میں نئی نہروں کے خلاف اجتجاج کا سلسلہ دن بدن زور پکڑتا جارہا ہے۔ وزیرعظم میاں شہباز شریف نے گزشتہ روز اس بارے میں قوم کو بتایا کہ ایپکس کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں نئی نہروں کی تعمیر کو ایجنڈے میں رکھا گیا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وفاقی حکومت پہلے ایپکس کمیٹی میں سندھ کو بھرپور نمائندگی دے۔ نئی نہروں کی تعمیر پر ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں سندھ کے نمائندوں کی موجودگی میں منظوری لیتی اور مشترکہ بریفنگ کے ذریعے قوم کو آگاہ کیا جاتا کہ صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدے کو آج ازسرنو تشکیل دیا گیا ہے اور کوئی بھی صوبہ اپنے پانی کے کوٹے میں سے نئی نہروں کی تعمیر کرنے میں آزاد ہے اور کسی بھی صورت میں ایک صوبے کا پانی دوسرے صوبے کو نہیں مل سکتا۔ دریاؤں میں پانی کے بہائومیں کمی کا اثر بھی تمام صوبوں میں موجود پانی تقسیم کے فارمولے کے تحت ہی تقسیم ہوگا۔ کوئی بھی صوبہ کسی صورت دوسرے صوبے کے پانی کا ایک گھونٹ بھی سلب نہیں کرسکتا۔ ایسا اعلان ہونے کے بعد میرے خیال میں نہروں کی تعمیر پر کسی بھی صوبے میں احتجاج کا کوئی جواز باقی نہ رہتا۔خصوصاً یہ بتایا جائے کہ چولستان میں نئی تعمیر ہونیوالی نہروں میں کس دریا کا پانی جائے گا؟ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں حالات ٹھیک نہیں اور اب ناسمجھی کا طریقہ کار اختیار کرکے سندھ میں بھی بے چینی کی فضاء بنادی گئی ہے تو ایسے میں ملک کی تمام اکائیوں کو ملاکر چلے بغیر ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ بڑے صوبے کو اس معاملے میں اپنے رویئے کو ٹھیک کرناہوگا اور وفاقی حکومت بھی اس پہلو پر ہر فیصلے سے پہلے غور و فکر کرکے قدم آگے بڑھائے تو بہتر ہوگا۔اپوزیشن کو بھی کسی صوبے کے ساتھ زیادتی کا نوٹس لینا چاہئے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ نہروں کے معاملے میں ہمیں اگر وفاقی حکومت سے الگ ہونا پڑا تو دیر نہیں کریں گے۔ پیپلزپارٹی کی سندھ میں صوبائی حکومت ہے اور عوامی مینڈیٹ برقرار رکھنے کے لئے ضروری بھی ہے کہ وہ صوبے کے مفادات پر کسی صورت سمجھوتہ نہ کریں۔ سندھ میں اپوزیشن جماعتوں کو یھی سندھ کے حقوق کے ساتھ پرزور آواز بلند کرنی چاہئے۔ وفاق اور پنجاب حکومتوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اپنے سب سے بڑے اتحادیوں کو کس طریقے سے اپنے ساتھ رکھ کر نظام حکومت چلانا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ صوبوں کے درمیان امتیازی سلوک کے تاثر کے خاتمے کے انقلابی اقدامات بہت ضروری ہیں۔ واضح طور پر بتایا جائے کہ کس طریقے اور فارمولے کے تحت نئی نہریں تعمیر کی جارہی ہیں اور سندھ کے عوام کو ہر صورت مطمئن کریں ورنہ نئی نہروں کی تعمیر سے دستبرداری کا اعلان کیا جائے۔میرا تعلق پنجاب سے ہے لیکن پنجاب میں بیٹھے لوگوں کے چھوٹے صوبوں سے امتیازی سلوک کی بناء پر دوسرے صوبوں میں مقیم بے قصور عام پنجابی نفرت کا شکار ہوتے ہیں۔ اسی لئے ملکی سالمیت اور یکجہتی کو برقرار رکھنے کے لئے مناسب طرز عمل اور بردباری کی اشد ضرورت ہے۔

مزیدخبریں